غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک

دنیا میںہر ایک منٹ میں11 افراد بن جاتے ہیں بھوک کانوالہ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

90لاکھ ہندوستانیوں کو شدیدغذائی قلت کا سامنا ۔ آکسفام کی نئی رپورٹ
آکسفام کی نئی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ دنیا بھر میں ایک سو پچپن ملین افراد غذائی بحران کا شکار ہیں اور وہ سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں بیس ملین زیادہ ہے۔ آج دنیا میں ہر ایک منٹ میں بھوک کی وجہ سے گیارہ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اس رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ عالمی سطح پر قحط جیسے حالات کا سامنا کرنے والوں کی تعداد میں گزشتہ سال کے مقابلے میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔ وبائی مرض کوویڈ کے ڈیڑھ سال مکمل ہونے کو ہیں، اس مرض سے مرنے والوں کی صحیح تعداد ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے جبکہ اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر نہایت گہرے مرتب ہوئے ہیں۔ وبائی مرض نے جہاں صحت کے شعبہ کو متاثر کیا وہیں معیشت کو بھی تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ کروڑہا لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں خاص طور پر صنعتی مزدور اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ لوگوں کو بھوک کے وائرس سے نگل لیا ہے۔ ایسے ممالک جہاں پہلے سے غذائی قلت کا سامنا ہے وہاں یہ بحران شدید تر ہو گیا ہے لوگ غذائی قلت کی وجہ سے اپنی زندگی کی جنگ ہارتے جا رہے ہیں۔
کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والے لاک ڈاون کو تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ہو رہا ہے، اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہر ملک نے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے درآمدات و برآمدات بھی بند ہو گئیں، کاروباری ادارے اور بازار بھی بند ہو گئے اسی لاک ڈاون کی وجہ سے غریب وپسماندہ ممالک کی صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ بین الاقوامی سطح پر معاشی سرگرمیاں تقریباً تین اعشاریہ پانچ فیصد تک گھٹ گئیں جبکہ سطح غربت میں سولہ اعشاریہ پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں تینتیس ملین افراد روزگار سے محروم ہو گئے۔ مجموعی طور پر عالمی سطح پر کورونا وائرس کی وجہ سے تین اعشاریہ سات کھرب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ رقم دو ہزار انیس کے چار اعشاریہ چار جی ڈی پی کے مماثل ہے۔
عالمی سطح پر معاشی سرگرمی کے نہ ہونے کی وجہ سے سترہ ممالک کے تقریباً 4کروڑ افراد بھکمری کا شکار ہو گئے۔ پچھلے سال یہ تعداد 2کروڑ 40لاکھ تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو وبائی مرض کے پھیلاؤ سے پہلے بھی یہ غذائی قلت کا شکار تھے۔ اندیشہ ہے کہ اس میں آئندہ سال مزید اضافہ ہو گا۔
بھکمری کی ایک وجہ یہ ہے تو دوسری وجہ بین الاقوامی سطح پر غذائی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونا بھی ہے۔ غذائی اجناس میں تقریباً چالیس فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے جو پچھلے دس سالوں کی اعلیٰ ترین سطح ہے۔ قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ برآمدات ودرآمدات کا رک جانا بھی ہے، جس کی وجہ سے یہ اشیاء غریب لوگوں کی دسترس سے باہر ہو گئیں خاص طور پر ان ممالک میں جہاں پہلے ہی سے غذائی قلت کا بحران ہے۔ ہر پانچ میں سے تین شامی باشندے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں یعنی بارہ اعشاریہ چار ملین افراد کو بھکمری کا سامنا ہے۔ ان اعداد وشمار میں پچھلے سال کے مقابلے میں اٹھاسی فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یمن کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ چھ سال سے جاری جنگ نے ملک کو بد ترین قحط سالی میں مبتلا کر دیا ہے، تقریباً دس کروڑ 35لاکھ افراد شدید قحط سالی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ستر فیصد عوام کو اس وقت فوری امداد کی ضرورت ہے۔
ہمارا ملک جو کثیر آبادی والا ہے، یہاں کی حکومت عوام سے بلند بانگ دعوے کرتی ہے، جھوٹے وعدوں کے پل باندھتی ہے لیکن عوام کی حالت جوں کی توں برقرار ہے۔ تقریباً 90لاکھ افراد شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں جن میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے جن کی عمریں محض پانچ سال کی ہیں۔ لوگوں کے پاس اشیاء ضروریہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اشیائے ضروریہ کی خریداری میں چونسٹھ فیصد تک کی کمی واقع ہوئی ہے، وہیں سبزیوں کی خریداری میں تہتر فیصد تک کی کمی ہوئی ہے۔ سترہ فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ ان کے کھانے کی مقدار کم ہوئی ہے۔ یقینی طور پر اس کی ایک وجہ کوویڈ ہے تو وہیں حکومت کی پالیسیوں کا عدم نفاذ بھی ہے۔ ایک طرف معاشی سرگرمیوں کو بند کردیا گیا تو دوسری طرف اسکول بھی بند ہو گئے جس کی وجہ اسکولوں میں بچوں کو صبح اور دوپہر جو غذا فراہم کی جاتی تھی وہ بند ہو گئی ہے۔
پندرہ ریاستوں میں سینتالیس ہزار افراد پر مشتمل ایک سروے کیا گیا جس میں پایا گیا کہ ہر ایک خاندان نے اپنی آمدنی کا ساٹھ فیصد حصہ کھو دیا ہے، ان کی آمدنیوں میں کمی واقع ہوئی ہے، روزگار ختم ہوئے ہیں، ماہ اپریل میں تقریباً 80لاکھ افراد نے اپنی نوکریاں کھوئی ہیں۔ خاص طور پر غیر منظم شعبے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ سماجی تحفظ کے نظام کو نافذ کرنے میں حکومت بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے۔ پبلک ڈسٹری بیوشن کےتحت ضرورت مندوں تک غذائی اجناس کی تقسیم عمل میں آتی ہے لیکن حکومت اس پر عمل نہیں کر پا رہی ہے کیونکہ حکومت کا انحصار دس سال پرانے مردم شماری کے رجسٹر پر ہے جس کے مطابق صرف ستاون فیصد لوگ ہی راشن حاصل کرنے کے حقدار ہیں جبکہ سو ملین نئے افراد جو راشن لینے کے مستحق ہیں اس فہرست سے خارج ہیں۔
بھکمری کی ایک وجہ اسکولوں کا بند ہو جانا بھی ہے کیوں کہ بچوں کو وہاں کھانا مل جاتا تھا، اسکولس بند ہونے کے نتیجے میں وہ کھانے سے محروم ہو گئے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک سو بیس ملین بچوں کو اسکولوں میں پکی ہوئی غذا فراہم کی جاتی تھی۔ کیا حکومت کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ موجود نہیں ہے جس سے ان بھوک کے مارے بچوں کو کھانا فراہم کیا جا سکے؟ یہ حکومت کی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔ کروڑہا روپے وہ مجسمے نصب کرنے میں لگا سکتی ہے لیکن وہ لوگ جو سطح غربت کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں انہیں اوپر اٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتی۔ ہزاروں کروڑ روپے کی لاگت سے پارلیمنٹ کی عمارت کی تعمیرِ جدید کر سکتی لیکن غذائی قلت کے شکار بچوں کو کھانا فراہم کرانے میں اس کو عار محسوس ہوتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کے وہ اپنے وسائل کا صحیح استعمال کرے، ایسے پروگرام اور منصوبے نہ بنائے جو عوام کے لیے فائدہ مند نہ ہوں بلکہ ایسے پروگرام اور منصوبے بنائے جن سے غریبوں کی زندگی اچھی گزر سکے ان کا تحفظ ہو سکے۔
***

کروڑہا لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں خاص طور پر صنعتی مزدور اس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ لوگوں کو بھوک کے وائرس سے نگل لیا ہے۔ ایسے ممالک جہاں پہلے سے غذائی قلت کا سامنا ہے وہاں یہ بحران شدید تر ہو گیا ہے لوگ غذائی قلت کی وجہ سے اپنی زندگی کی جنگ ہارتے جا رہے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021