علامہ جمیل مظہری:مزدوروں کی کالی دنیا پر آنسو بہانے والا شاعر

شاد عظیم آبادی اور یگانہ چنگیزی کے بعد بہار کی ادبی تاریخ کا معتبرنام

ابوالحسن علی مفاز، بھٹکلی

 

سید کاظم علی اپنے اصل نام سے نہیں بلکہ قلمی نام جمیل مظہری سے مشہور ہیں۔ 1904ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ریاست بہار کا سارن ضلع کا حسن پورہ ان کا وطن تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد کلکتہ یونیورسٹی سے 1931ء میں فارسی میں ایم اے کیا۔ جمیل مظہری ایک عظیم المرتبت شاعر، بلند پایہ افسانہ نگار اور بہترین ادیب تھے۔ جمیل مظہری نے اگرچہ تمام اصنافِ ادب پر طبع آزمائی کی اور ان میں سرخرو رہے مگر مرثیہ نگاری کے حوالے سے انہیں بڑا اعتبار حاصل ہوا۔ نظم ،غزل، گیت ،رباعیات، قطعات اور مراثی میں بطور خاص طبع آزمائی کی۔ شاد عظیم آبادی اور یگانہ چنگیزی کے بعد بہار کے ممتاز ترین شعرا میں جمیل مظہری کا شمار ہوتا ہے۔
اپنی تخلیقات کے ذریعہ انہوں نے اردو زبان وادب اور شاعری کی جیسی بیش بہا اور ہمہ جہت خدمات انجام دی ہیں۔ وہ دبستانِ عظیم آباد کے لیے ایک سرمایہ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جمیل مظہری کو زمانے نے ان کا جائز مقام نہیں دیا جس کا انہیں بڑا قلق رہا۔
جمیل مظہری نے روزنانہ ’عصرجدید‘ کلکتہ میں کالم لکھ کر اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ وحشت کلکتوی سے تلمذ حاصل تھا۔ 1946ء میں صوبہ بہار کے افسر اطلاعات کے عہدے پر مامور ہوئے۔1950ء میں پٹنہ یونیورسٹی میں اردو اور فارسی کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سیاست میں حصہ لینے پر 1942ء میں جیل گئے۔ اپنی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند سے ’’غالب ادبی ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ جمیل مظہری کو ساری زندگی اس بات کا قلق رہا کہ انہیں نہیں پہچانا گیا اور ان کی شناخت کوئی نہیں کر سکا۔ اسی لیے انہوں نے خود ایک شعر میں کہا:
اسے بلاؤ زباں داں جو مظہری کا ہو
مگر ہے شرط وہ اکیسویں صدی کا ہو
شاید انہیں اس بات کا احساس تھا کہ بیسویں صدی میں ان کی شناخت نہیں ہو سکے گی اور ممکن ہے اکیسویں صدی میں ان کے افکار کی قدر کی جائے۔ حالانکہ جمیل مظہری نے کئی ایسے اشعار کہے جن کی حیثیت آفاقی ہے۔ ان کا ایک شعر تو اتنا مشہور ہے کہ وہ خو د اس کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ شعر شاعر سے زیادہ مشہور ہے۔
بقدر پیمانہ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
نہ ہو اگر یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
کچھ ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس شعر کے علاوہ وہ کوئی دوسرا شعر نہ بھی کہتے تو ان کا نا م اردو شاعری میں زندہ رہتا۔ مشہور ناقد شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں
’’میں سمجھتا ہوں کہ جمیل مظہری کو نہ صرف اپنے زمانے میں بلکہ آج تک ان کا صحیح ادبی مقام نہ مل سکا اور انہیں جو انتظار رہا اور شاید اب بھی ہے کہ ان کے مرتبے کا تعین صحیح معنی میں کیا جائے تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے‘‘ جمیل مظہری کی شاعری کی شناخت ان کا تفکر ہے۔ کیونکہ وہ ایک مفکر شاعر تھے۔ مفکر تشکیک کا شکار ہوتا ہے اس لیے ان کی شاعری بھی تشکیک کا شکار نظر آتی ہے۔ وہ خود بھی کہتے ہیں’’میں خود پسندی یا خود ستائی کا مجرم کبھی نہیں رہا۔ مجھ میں ایک طرح کا انکسار ہے۔ لیکن احساس کمتری شاید یہ غرور کی پیداوار ہے‘‘
جمیل مظہری بنیادی طور پر نظموں اور مرثیوں کے شاعر ہیں لیکن وہاں بھی تغزل نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے اسی لیے ان کی غزلوں میں بھی تشکیک کا غبار نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کافی تعداد میں مرثیے بھی لکھے۔ ان کے شعری مجموعے ’عکس جمیل‘، ’فکر جمیل اور ’عرفان جمیل‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔
نمونہ کلام، علامہ جمیل مظہری
جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی

ہم محبت کا سبق بھول گئے
تیری آنکھوں نے پڑھایا کیا ہے

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم، مزدور ہیں ہم، مزدور کی دنیا کالی ہے

کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی

بتوں کو توڑ کے ایسا خدا بنانا کیا
بتوں کی طرح جو ہم شکل آدمی کا ہو

انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی
جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں

آیا یہ کون سایہ زلف دراز میں
پیشانئ سحر کا اجالا لیے ہوئے

اے سجدہ فروش کوئے بتاں ہر سر کے لیے اک چوکھٹ ہے
یہ بھی کوئی شان عشق ہوئی جس در پے گئے سر پھوڑ لیا
اردو کے اس عظیم شاعر وادیب نے 23 جولائی 1980کو دنیا کو الوداع کہا۔
***

جمیل مظہری نے اگرچہ تمام اصنافِ ادب پر طبع آزمائی کی اور ان میں سرخرو رہے مگر مرثیہ نگاری کے حوالے سے انہیں بڑا اعتبار حاصل ہوا۔ نظم ،غزل، گیت ،رباعیات، قطعات اور مراثی میں بطور خاص طبع آزمائی کی۔ شاد عظیم آبادی اور یگانہ چنگیزی کے بعد بہار کے ممتاز ترین شعرا میں جمیل مظہری کا شمار ہوتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021