عدل و انصاف اور خود احتسابی اسلامی قیادت کی اساس

حکمرانی اور شان و شوکت پر نہیں خدمت اور ایثار پر مرکوز ہے قیادت کا تصور

محمد احمداللہ قاسمی، نئی دلی

 

تخلیق کائنات سے آج تک ہر زمانے میں قائد اور قیادت کا تصور موجود رہا ہے اور یہ تصور رفتہ رفتہ واضح شکل اختیار کرتا رہا ہے، چنانچہ گروہی اور تمدنی زندگی میں سربراہی یا قیادت ایک انتہائی اہم جزو کی حیثیت سے قائم رہی ہے۔ یہ قیادت سیاسی طور پر حکمرانی کے درجے پر آتی ہے۔ غیر سیاسی طور پر اس کا تعلق ہر سطح پر کاروبار حیات چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ قیادت کو مختصراً بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ وہ وحدت ہے جس میں ایک دنیا سمائی ہوئی ہے۔ یہ ایک با مقصد اجتماعی رد عمل کا پیش خیمہ ہے۔
سائنسی مینجمنٹ کے پیش رو فریڈرک ڈبلو ٹیلر نے اسے ایک ’’ہنر‘‘ کہا تھا۔ قائد جماعت کا یقینی جزو ہوتا ہے اور فرق یہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ واضح طور پر جانتا ہے کہ اس کی منزل کہاں ہے، وہاں تک پہنچنے کے لیے اسے کیا جتن کرنے ہیں، کس طرح شرکاء کو ساتھ رکھنا ہے اور کس طرح راہ کی نا ہمواریوں کو برداشت کرنا ہے۔
قیادت کے عالمی تصور اور اس کے اسلامی تصور میں کیا مماثلت ہے؟ کیا بنیادی اور اساسی فرق ہے؟ قیادت کے عام تصور کا سرسری جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیادت بنیادی طور پر خصوصی اختیارات اور منصب کے حصول کا نام ہے ۔ یہ لوگوں کی رہبری کے ساتھ ان پر گرفت اور ان کے اعمال کو اپنے تابع کرنے کا نام ہے۔ ایمان داری، وسیع تجربہ، جوش وولولہ، عملی رجحان، قوت فیصلہ، حلم و بردباری، حکمت و مصلحت، شیرازہ بندی اور مقصد سے وفاداری اعلیٰ قیادت کے لیے بے حد اہم شرائط ہیں اور نظم وضبط اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ بظاہر یہ ساری خصوصیات ایسی ہیں جن سے اسلامی تصورات کا کوئی اختلاف نظر نہیں آتا اور یہ سب مثبت خصوصیات ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیادت کا اسلامی تصور ان عالمی تصورات سے کس طرح ممتاز اور مختلف ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے لیے انسان کی تخلیق کا دن یاد کرنا ہوگا۔ سورہ بقرہ کی آیت ۳۰ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں اپنا خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں‘‘ یہ لفظ بنیاد ہے قیادت کے اسلامی فلسفے کا۔ گویا اس زمین پر انسان کا فطری منصب ایک بالکل خود مختار ہستی کا نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ کا ہے اور اسے اسی خاص دائرے میں تصرف حاصل ہے۔ یہ اختیار اس کا ذاتی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ اس لیے اس کا وہی عمل جائز ہے جو مقررہ حدود کے اندر ہو۔ گویا حاکمیت یا قیادت کا اصل منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کی اساس قوم ووطن، نسل و نسب پر نہیں بلکہ آفاقیت پر ہے۔ دنیا میں انسان کی قیادت خدا کی دی ہوئی محدود ذمہ داری ہے، چونکہ اس ذمہ داری کے حدود اللہ کے متعین کردہ ہیں اس لیے یہ ایک کٹھن اور نازک ذمہ دار ی ہے۔ اس طرح اسلامی نظریہ قیادت کی رو سے قیادت حکمرانی نہیں بلکہ خدمت ہے۔ شان وشوکت نہیں بلکہ ایثار و ذمہ داری ہے، بوجھ ہے، دشوار مراحل ہیں۔ یعنی قائد اگر مسلمان اور مومن ہے تو وہ ایک کٹھن امتحان میں مبتلا ہے اور وہ عام انسانوں کی بہ نسبت اپنے خالق حقیقی کے سامنے زیادہ جواب دہ ہے۔ سورۃ احزاب کی ۶۶ سے ۶۸ تک کی آیتیں صاف بیان کرتی ہیں: ’’جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اُس وقت وہ کہیں گے کہ ’’کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی‘‘ اور کہیں گے ’’اے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں گمراہ کیا، اے رب ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر‘‘۔ سورہ بقرہ آیت؍۱۲۴ میں ارشاد ربانی ہے: ’’یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیمؑ نے عرض کیا: اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟ اس نے جواب دیا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے‘‘۔ پھر سورۃ النور کی ۵۵؍ ویں آیت میں ہے: ’’جو لوگ تم میں ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ انہیں ملک کا حاکم بنائے گا‘‘
مذکورہ آیات کریمہ سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ قیادت ایک ایسی جاں سوز اور کٹھن ذمہ داری ہے جس کے لیے ایمان اور عمل صالح شرط ہے اور حضرت ابراہیمؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کو بھی آزمائش کے بغیر عطا نہیں ہوئی۔ یہ ایسے ایثار اور دشوار اعمال کا نام ہے جس کی ذمہ داری اس دنیا تک ہی محدود نہیں، بلکہ جس کی جواب دہی آخرت کے دن تک ہے۔
تاریخ اسلامی کے حوالے سے ہمیں قیادت کی انتہائی روشن اور تاب ناک مثالیں نظر آتی ہیں۔ نبی اکرمﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے قیادت کی وہ عملی نظیر پیش کی جس سے رہتی دنیا تک روشنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ خلفائے راشدین کے بعد بھی مسلم حکمرانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے اپنی قیادت کو علی منہج الخلافہ انجام دینے کی پوری کوشش کی۔ جب قیادت اپنی منزل کمال کو پہنچتی ہے تو سرور کونین حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات میں ایک بقعۂ نور، ایک رحمت، ایک مقناطیسی کشش اور ایک بامقصد اجتماعی سپردگی، ایک وحدت، ایک فکر، ایک محرک، متحد، منسلک، مربوط اور کامیاب ترین جدوجہد بن جاتی ہے۔ جس کی نوعیت آفاقی اور اثرات لامحدود ہیں اور جو "The Greatness of Muhammad” کے مصنف ’’سر فلپ گیز‘‘ کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ’’انسانی تہذیب اور اخلاق کے فروغ کے لیے آج تک اتنا کام کسی نے نہیں کیا، جتنا محمد(ﷺ) نے کیا ہے‘‘
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ مسلم قائد کا دائرہ کار احکام خداوندی کے اندر ہے۔ اس لیے اسلام حکمرانی کو ایک امانت کا مقام دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک صحیح اسلامی ماحول میں منصب چاہنے اور طلب کرنے کی چیز نہیں بلکہ اس سے بچنے کی چیز ہے۔ سنن ابو داؤد کی ایک حدیث ہے: حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کے ساتھ دو آدمی حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حکومت کے منصب کی خواہش کی تو حضور پاکﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ہمارے نزدیک تم میں سب سے بڑا خیانت کرنے والا وہ ہے جو کوئی عہدہ طلب کرے۔ یہ کہہ کر ان میں سے کسی کو کوئی کام نہیں سپرد کیا گیا، یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ اسی طرح حضرت عبد الرحمن بن سمرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’ اے عبد الرحمن امارت کے طالب نہ بنو، اگر بن مانگے ملے تو اللہ کی طرف سے تمہاری مدد کی جائے گی اور اگر مانگ کر لو گے تو تم اس کے حوالے کر دیے جاؤ گے‘‘
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام قیادت کی نفی نہیں کرتا بلکہ اسے لازم جانتا ہے یہاں تک کہ حکم ہے کہ اگر دو آدمی نماز پڑھ رہے ہوں تو ایک کو امام بنالیں۔ سفر میں ہوں تو ایک کو قائد بنالیں۔ گویا یہ عین فطرت ہے کہ نظم و ضبط کے لیے قائد اور قیادت یقینی امر ہیں، لیکن یہ ذمہ داری ہے، پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر ہے۔
اختصاراً ان خصوصیات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ایک اسلامی معاشرہ اپنے قائد میں تلاش کرتا ہے، جن خصوصیات کے بغیر وہ قائد بار قیادت اٹھانے کا اہل نہیں سمجھا جا سکتا۔ وہ خصوصیات یہ ہیں: ایمان داری، عدل ومساوات، احساس ذمہ داری، خود احتسابی، قناعت، لچک، حلم وبردباری، نکتہ چینی برداشت کرنے کی صلاحیت، علم، قوتِ فیصلہ، ارادے کی مضبوطی، بلند نگاہی، عمل پسندی، عفو و درگزر۔ ایسی کتنی ہی صفات اور گنوائی جاسکتی ہیں اور یہ صفات اسلامی تاریخ کے صفحات میں جیتی جاگتی شکل میں موجود ہیں۔ صرف تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی۔ علامہ اقبال مرحوم نے ایک آئیڈیل مسلم قائد کا نقشہ یوں کھینچا ہے:
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رخت سفر، میرِ کارواں کے لیے
دورِ حاضر میں قیادت ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب قائدین کی بہتات ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ صحیح قیادت کا فقدان پیدا ہو گیا ہے۔ قائدین کی کثرت ملت کو تقسیم کر کے راستے کے تعیّن کو دشوار بنا دیتی ہے۔ وحدتِ مقصد ختم ہو جائے تو کثیرالمقصدیت پیدا ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منزل کا مفہوم ہی مبہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہر قائد اپنے گروہ کو الگ الگ سمت دکھاتا ہے، الگ الگ شعور عطا کرتا ہے، الگ الگ ضرورتیں پیدا کرتا ہے اور علاج کے الگ الگ طریقے ایجاد کر کے ذہنوں کو الجھا دیتا ہے۔ الگ الگ کنارے کی نشان دہی کرتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کشتی منجدھار میں پھنسی رہتی ہے۔ بہر حال اسلامی قیادت کا تصور یہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ، اللہ کے رسولؐ اور اولی الامر کی اطاعت ہی کو لازم سمجھنا چاہیے۔
ایسا نہیں ہے کہ آج کے سیاسی قائد بلند واعلیٰ باتیں نہیں کرتے، باتیں تو آج بھی دل خوش کرنے والی ہوتی ہیں۔ در اصل آج کے سیاست داں میں اور ایک آئیڈیل اسلامی قائد میں جو فرق ہے وہ عمل کا ہے۔ آج کے سیاست دانوں کو یہ احساس نہیں کہ اگر یہاں نہیں تو عالم لا فانی میں اس کا احتساب ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے: ’’تم میں سے ہر ایک (قائد) چرواہا ہے اور ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں محاسبہ ہوگا‘‘ یہ ایک ایسی ذمے داری ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر قیادت کو اس کااحساس ہوجائے تو فتنہ طرازی سے بچی رہتی ہے۔ اسلامی قیادت کا ایک اور طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ اس کے ہر عمل میں نیت کو دخل ہے۔ اگر نیت صالح ہے تو عمل بھی صالح ہوگا۔ عمل صالح کی شرط یہ ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے اللہ تعالیٰ کی خاطر کیا جائے۔ خود غرضی یا ذاتی منفعت اس کا محرک نہ ہو۔ دین اسلام میں ہر عمل کے ثواب کا دار ومدار نیت پر رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فطرت کی پاکی چاہتا ہے، وہ ہماری افتاد فکر کو صاف ستھرا کر کے ہمارے کردار کو جلا بخشتا ہے، پھر ہم اس کی آلائشوں سے خود بخود اجتناب کرتے ہیں اور اس معاملے میں ہمارا ضمیر بذات خود ہمارا قائد بن جاتا ہے۔
***

اسلام قیادت کی نفی نہیں کرتا بلکہ اسے لازم جانتا ہے یہاں تک کہ حکم ہے کہ اگر دو آدمی نماز پڑھ رہے ہوں تو ایک کو امام بنالیں۔ سفر میں ہوں تو ایک کو قائد بنالیں۔ گویا یہ عین فطرت ہے کہ نظم و ضبط کے لیے قائد اور قیادت یقینی امر ہیں، لیکن یہ ذمہ داری ہے، پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 31 جنوری تا 6 فروری 2021