عدالت جو بھی فیصلہ دے، اسے سبھی کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے: آر ایس ایس

نئی دہلی، 31؍ اکتوبر: ایک طرف دلی میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے مرکزی عہدیداروں کی میٹنگ جاری ہے، وہیں دوسری طرف سنگھ نے بابری مسجد تنازعہ کے ممکنہ فیصلہ کے پیش نظر ملک میں امن و امان اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ سنگھ نے سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلہ کے مد نظر یہ اپیل کی ہے کہ اس معاملے میں جو بھی فیصلہ آئے اس کو کھلے دل سے قبول کیا جانا چاہیے۔ فیصلے کے بعد ملک میں ہم آہنگی اور امن و امان برقرار رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

امن اور ہم آہنگی کی یہ اپیل آر ایس ایس کے آفیشیل ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کی گئی ہے۔ ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ’’آنے والے دنوں میں ’’رام جنم بھومی‘‘ پر مندر کی تعمیر سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی توقع ہے۔ جو بھی فیصلہ ہو اسے سبھی کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ فیصلے کے بعد ملک کا ماحول پر امن اور ہم آہنگ رہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ میٹنگ میں اس موضوع پر بھی تبادلۂ خیال جاری ہے۔ ‘‘

واضح رہے کہ بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے کے مد نظر آر ایس ایس کی تشہیری جماعت کی میٹنگ یہاں بدھ سے شروع ہو گئی ہے، جس میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت، سرکاریوہ سریش بھیاجی جوشی سمیت دیگر اعلی عہدیداران نمایاں طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق سنگھ کی تشہیری جماعت کے سربراہ ارون کمار کے ذریعے جاری کردہ معلومات میں کہا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں بابری مسجد سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلے آنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ جو بھی فیصلہ آئے اسے سبھی کو کھلےدل سے تسلیم کرنا چاہیے اور فیصلے کے بعد ملک میں ماحول کو پر امن اور ہم آہنگ بنائے رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

سولہویں صدی کی بابری مسجد کے 134 سال پرانے کیس میں رام کی جائے پیدائش کے دعوے کے تنازعے پر سپریم کورٹ میں سماعت ۱۶؍ اکتوبر کو مکمل ہو گئی۔ اس میں ہندو اور مسلم دونوں فریقین چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے ۴۰؍ دن تک یومیہ سماعت میں اپنی دلیلیں مکمل کر رہی تھیں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی مدت کار کے آخری دن یعنی 17 نومبر سے پہلے فیصلہ سنائے جانے کی توقع ہے۔

بابری مسجد کی تعمیر 1526ء میں مغلیہ دورِ حکومت میں ہوئی تھی۔ اس وقت ملک پر پہلے مغل حکمراں بابر کی حکمرانی تھی۔ 1857ء میں کچھ مقامی ہندوؤں نے مسجد میں رام کی جائے پیدائش کا دعوی کرتے ہوئے مسجد کو بند کرنے کی کوشش کی، تاہم اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔ 1885ء میں ہندوؤں نے قبضے کا دعوی کرتے ہوئے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اس لیے تکنیکی اعتبار سے یہ مقدمہ پچھلے 134؍ سال سے عدالت میں زیر التوا ہے۔ اسی درمیان ۶؍ دسمبر 1992ء کو بی جے پی کے اعلی رہنماؤں کی موجودگی میں ہندوتوا جماعتوں کے ہجوم نے مسجد کو توڑ دیا۔ 2010ء میں الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازعہ اراضی کو اتر پردیش سنی وقف بورڈ، رام لال اور نرموہی اکھاڑہ کے مابین تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم ان تمام فریقوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

دوسری طرف بابری مسجد انہدام کیس نچلی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ الزامات کا سامنا کرنے والے بی جے پی کے سینئر رہنماؤں میں ایل کے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی شامل ہیں۔

(بشکریہ انڈیا ٹومارو)