احتشام الحق آفاقی، رامپور
ادب و صحافت سے ادنیٰ ذوق و شوق رکھنے والے احباب میں سے شاید ہی کوئی ہو جو عبدالمجید سالکؔ کے نام سے واقف نہ ہو۔ عبدالمجید سالکؔ فطری شاعر، نثّار، ادیب اور مترجم کی حیثیت سے ادب اردو میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والے اکابرین ملت اور خیرخواہانِ قوم کے کاندھوں سے کندھا ملا کر چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی پیدائش 13؍ دسمبر 1894 کو بٹالہ گرداسپور پنجاب میں ہوئی۔ ان کا گھرانہ علمی وادبی گھرانہ تھا۔ ان کے والد اور چچا بھی شاعر تھے۔ ان کے والد غلام قادر عاصیؔ تخلص کرتے تھے۔ سالکؔ خود نوشت سوانح عمری ’سرگزشت‘ میں لکھتے ہیں: ’’مجھے بچپن سے پڑھنے کا ہوکا تھا اس لیے جو چیز سامنے آجاتی اس کو پڑھے بغیر نہ رہتا۔ میرے ہم عمر بچے میرے مقابلے میں نہایت بے خبر اور قلیل المعلومات تھے‘‘ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ ان کے والد ادب سے کافی شغف رکھتے تھے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں و کانفرنسوں وغیرہ میں شامل ہوتے اور باضابطہ انجمن سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد گھر پہنچتے۔ اس وقت کے بڑے شعرا حالی، شبلی، اقبال، حسین احمد آزاد وغیرہ کے دیوان الماریوں میں آویزاں ہوتے جن کے مطالعے سے وہ حد درجہ متاثر ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک فطری شاعر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ ان کے والد نے ان کی پرورش اسلامی نقطہ نظر سے کی تھی جو ان کی ادبی و صحافتی خدمات کے ساتھ مسلمانوں کے ملی و سیاسی مسائل میں حد درجہ نظر آتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی آواز اقتدار سلطنت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلمانوں کے تعلیمی و ملی اور سیاسی معاملوں میں ہمیشہ کھل کر اظہار خیال کرتے رہے۔
بارہ تیرہ برس کی عمر میں انہوں نے مولانا الطاف حسین حالیؔ کو شرف تلمذ کے لیے لکھا۔ لیکن مولانا نے ضعیفی کا عذر پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال کا نام پیش کیا۔ جب علامہ مرحوم کو اس متعلق لکھا تو انہوں نے جوابی خط میں لکھا ’’آپ کے اشعار اچھے ہیں اگر شوق قائم رہا تو آپ بہت اچھے شاعر ہوں گے۔ یاد رکھیے طبیعت انسان کو آسمان سے ملتی ہے اور زبان زمین سے۔ اگر آپ کی طبیعت شاعرانہ ہے تو آپ خود بخود شعر گوئی پر مجبور ہوں گے۔ باقی رہی زبان تو اس میں مَیں موزوں استاد نہیں ہو سکتا۔ ………اور اگر آپ شاگردی پر مصر ہی ہیں تو منشی حیات بخش رسا رامپور ی یا سید محمد احسن مارہروی میں سے کسی سے رجوع کیجیے۔ یہ دونوں مرزا داغؔ کے شاگردوں میں ممتاز درجہ رکھتے ہیں‘‘ (سرگزشت صفحہ ۲۳) الغرض صنف شاعری میں انہوں نے رسا رامپوری سے شرف تلمذ حاصل کی اور یہ سلسلہ خود سالکؔ کے بقول ڈیڑھ سال تک قائم رہا۔ بعد ازاں رساؔ مرحوم نے خود انہیں اصلاح سے فارغ کر دیا۔
بیس سال کی عمر میں سالکؔ کے ادبی ذوق نے انگڑائی لی اور انہوں نے پٹھان کورٹ سے ’’فانوس خیال‘‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ کا اجرا کیا۔ اس سے قبل وہ مولوی سید ممتاز علی کے دار الاشاعت سے وابستہ رہے اور یہاں بھی انہیں ادبی ذوق کو پروان چڑھانے کا بھر پور مواقع فراہم ہوئے۔ یہیں سے سید امتیاز علی تاج کے ساتھ ان کی دوستی ہوئی اور ان کے ساتھ ساتھ آپ بھی کہکشاں، پھول، اور تعلیم نسواں میں مسلسل مضامین و مقالات لکھتے رہے۔ لیکن یہ مضامین ان کے اصل نام سے نہیں بلکہ ’گمنام‘‘ کے نام سے شائع ہوتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ادبی و صحافتی افق پر روشن ستارہ بن کر ابھرے۔ ملک کی نامور شخصیات ان کی صحافیانہ قدروں سے متاثر تھیں۔ ان کے مضامین و مقالات مقتدر رسائل و جرائد میں شائع ہوتے تھے۔ ادب اطفال اور تعلیم نسواں پر ان کی گرفت مضبوط تھی۔ اس کا سہرا سالکؔ نے خود مولوی ممتاز علی کے سر باندھا ہے۔ سالکؔ کی ادبی و صحافتی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اور ان کاموں سے حد درجہ متاثر ہو کر مولوی ظفر علی خاں ناظم” زمین دار“ نے انہیں طلب کر کے”زمین دار“ کی ادارت ان کے سپرد کی۔ زمین دار میں اپنی سیاسی تحریروں کی وجہ سے انگریزی حکومت کے جبر و استبداد سے نبرد آزما رہے اور قید و بند کی صعوبتوں سے گزرتے رہے۔ ایک سال کی قید کے بعد جب واپس لوٹے تو زمین دار میں غلام رسول مہر کی معاونت حاصل ہوئی اور انہوں نے اپنے مشہور زمانہ کالم ’افکار و حوادث‘ لکھنے کا آغاز کیا۔ یہ کالم ان کا مزاحیہ قسم کا کالم تھا۔ ’’افکار و حوادث‘‘ کی خصوصیتیں یہ تھیں کہ اس کالم کی زبان نہایت ہلکی پھلکی اور ٹکسالی ہوتی تھی۔ ادب لطافت سے بھر پور۔ اس کالم کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ زیادہ تر لوگ صرف اسی کالم کو پڑھ کر اخبار پھینک دیتے تھے۔ حکیم اجمل خاں اور مفتی کفایت اللہ بحر بیکراں جیسی شخصیات اس کالم کے منتظر رہتیں۔ علامہ اقبال ہمیشہ اس کالم کے متعلق شکایت کرتے کہ ’’اس کالم کی سب سی بری بات یہ ہے کہ یہ بہت مختصر ہوتا ہے، آدمی پڑھ کر تشنہ رہ جاتا ہے اس لیے اسے دو کالم میں لکھا جائے‘‘ جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو سالکؔ نے انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہیں۔ چنانچہ انہوں نے انقلاب کے مزاحیہ کالم ’’افکار و حوادث‘‘ میں لکھا: ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘ زمین دار سے فراغت کے بعد انہوں نے غلام رسول مہر کی مشارکت میں روزنامہ انقلاب کا اجرا کیا۔ انقلاب کے نام کی تجویز علامہ اقبال کے گھر پر بیٹھ کر پاس ہوئی۔ انہیں دنوں علامہ نے نظم : ’’انقلاب اے انقلاب، اے انقلاب، اے انقلاب‘‘ لکھی تھی۔ وہی نظم اخبار کے نام ’’انقلاب‘‘ رکھنے کا باعث بنی۔ اور اس نظم کو اخبار کے پہلے شمارے میں صفحہ اول پر جگہ دی گئی۔ اس اخبار نے بھی قلیل مدت میں ہی ملت ہندیہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ عبدالمجید سالکؔ کو ایک بار کسی دل جلے نے لکھا: ’’آپ اپنے روزنامہ میں گمراہ کن خبریں چھاپتے ہیں اور عام لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔‘‘ سالکؔ نے نہایت حلیمی سے اسے جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’ہم تو جو کچھ لکھتے ہیں ملک و قوم کی بہبودی کے جذبہ کے زیر اثر لکھتے ہیں اور اگر ہزاروں قارئین میں آپ جیسا ایک آدمی بھی ہمارے کسی مضمون سے متاثر ہو کر نیک راہ اختیار کر لے تو ہم سمجھیں گے ہمارا الو سیدھا ہوگیا۔‘‘
عبد المجید سالکؔ اپنے صحافتی خدمات کے دوران علامہ اقبال کے ساتھ ہی دوسرے مسلم دانشوروں و لیڈروں کے پسندیدہ بن گئے تھے۔ مولانا آزاد سے ان کی خط و کتابت ہوتی تھی۔ مولانا جب رانچی جیل میں بند تھے تو انہوں نے سالکؔ کو لکھا تھا کہ آپ کلکتہ آجائیں اور ’الہلال‘ دوبارہ نکالیں گے تو آپ اس میں کام کریں اور وہاں سے زیادہ پیسے ہم آپ کو یہاں دیں گے۔ مولانا کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ مولانا کی اس خواہش سے سالکؔ بہت خوش تھے کہ انہیں مولانا ابو الکلام آزاد جیسی شخصیت کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا اور ساتھ ہی ان سے کلام پاک کے تراجم سیکھیں گے اور دنیا و آخرت سنواریں گے۔ اسی طرح ان کی مولانا الطاف حسین، مولوی محمد حسین آزاد سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی سے بھی ان کے دیرینہ تعلقات رہے۔ مولوی ظفر علی خاں، مولوی غلام رسول مہر، مولوی چراغ حسن حسرتؔ، آغا حشر کاشمیری، سید امتیاز علی تاج کی رفاقت بھی انہیں حاصل رہی۔ علامہ راشد الخیری، خواجہ حسن احمد نظامی کی دعائیں اور نیک خواہشات ملتی رہیں اور وہ برابر ملت کے کاموں میں اپنے قلم کا استعمال کرتے رہے۔
علامہ اقبال سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے۔ شاعری کے لیے انہوں نے علامہ اقبال سے درخواست بھی کی تھی لیکن وہ قبول نہیں ہوئی اور انہی کے مشورے پر سالکؔ نے رسا ؔرامپوری کو استاد بنایا تھا۔ چنانچہ جب سالکؔ نے 1914 میں پٹھان کوٹ سے رسالہ ’فانوس خیال‘ نکالا تو اس میں علامہ کی ایک مختصر نظم نقل کرلی گئی۔ اس پر انہوں نے نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا اور اس کے ازالہ کا کہا۔ لیکن یہ معاملہ سالکؔ کے والد کے دوست کے ذریعہ رفع دفع ہوگیا۔ اگلی بار جب آپ کہکشاں میں امتیاز علی تاج کے ساتھ ادارت کے فرائض انجام دے رہے تھے اس وقت بھی یہ معاملہ در پیش ہوا لیکن اس بار نوٹس سالکؔ کے نام نہیں بلکہ امتیاز علی تاج کے نام تھا۔ امتیاز علی تاج اس نوٹس کو دیکھ کر بے حد پریشان ہوئے اس کا ذکر انہوں نے عبد المجید سالکؔ سے کیا تو سالکؔ اس نوٹس کو لے کر علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت تلخ کلامی کی اور کہا :’’آپ اپنی بیرسٹری کا استعمال اپنے نیاز مندوں پر نہ کیا کیجیے، اس سے قبل آپ میرے نام بھی نوٹس جاری کرچکے ہیں‘‘
عبد المجید سالکؔ میدان صحافت کے شہ سوار ہونے کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کے میدان کے بھی رہ گزر تھے۔ انہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں، تراجم کیے، ترتیب دیے جو خاص و عام میں بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کی تصنیف و تالیف میں میراث اسلام، مسلم ثقافت ہندوستان میں، ذکر اقبال (اقبالیات)، سرگزشت (آپ بیتی)، راہ و رسم منزلہا (شاعری)، چمپا اور دوسرے افسانے (افسانے)، یاران کہن (خاکوں کا مجموعہ) تشکیلِ انسانیت (ترجمہ)، اسلام اور تحریکِ تجرّد مصر میں (ترجمہ)، تاریخ بھی مزے کی چیز ہے (ترجمہ)، انڈونیشیا اور اس کے لوگ، امداد باہمی، بوڑھا بگولا (ترجمہ)، مسئلے کیوں کر حل ہوں (ترجمہ)، خود کشی کی انجمن، ایجادات، قدیم تہذیبیں، کاریگری، آئین حکومت ہند، چترا (ترجمہ) وغیرہ شامل ہیں۔
عبد المجید سالکؔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے فطری شاعر تھے۔ اقبال کی خدمت میں جب اصلاح کے لیے غزل پیش کی تو کہا آپ کی شاعری اصلاح سے پاک ہے۔ آپ خود مشق سخن جاری رکھیں۔ جب رساؔ رامپوری کو استاد بنایا تو انہوں نے ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں ہی انہیں پختہ گو شاعر قرار دے کر رسمِ اصلاح سے بری کر دیا۔ کم عمر ہی سے وہ مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے اور استاد شعرا کے درمیان کلام پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہے۔ ان کی شاعری کلام کی جدت و ندرت، الفاظ کی شگفتگی اور شیریں لب و لہجہ سے پر ہے۔ عمدہ اشارات و کنایات کے بر محل استعمال نے شاعری کو پر کیف بنا دیا ہے۔ ان کے چند اشعار نذرِ قارئین ہیں:
چراغ زندگی ہوگا فروزاں ہم نہیں ہوں گے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں ہم نہیں ہوں گے
جوانو اب تمہارے ہاتھ میں تقدیر عالم ہے
تمہیں ہوگے فروغ بزم امکاں ہم نہیں ہوں گے
جئیں گے جو وہ دیکھیں گے بہاریں زلف جاناں کی
سنوارے جائیں گے گیسوئے دوراں ہم نہیں ہوں گے
خرد میں مبتلا ہے سالکؔ دیوانہ برسوں سے
نہیں آیا وہ مے خانے میں بیباکانہ برسوں سے
نہ محتسب کی نہ حور و جناں کی بات کرو
مئے کہن کی نگار جواں کی بات کرو
کسی کی تابش رخسار کا کہو قصہ
کسی کے گیسوئے عنبر فشاں کی بات کرو
جو مشت خاک ہو اس خاکداں کی بات کرو
زمیں پہ رہ کے نہ تم آسماں کی بات کرو
مری سر نوشت میں تھا وہی داغ نامرادی
جو ملا مری جبیں کو ترے سنگ آستاں سے
نہیں کچھ سمجھ میں آتا یہ عجیب ماجرا ہے
کہ زمیں کے رہنے والوں کو ہدایت آسماں سے
غم کے ہاتھوں مرے دل پر جو سماں گزرا ہے
حادثہ ایسا زمانے میں کہاں گزرا ہے
دشت جنوں میں ہو گئی منزل یار بے سراغ
قافلہ کس طرف گیا بانگ درا کو کیا ہوا
بہر کیف عبد المجید سالکؔ کی شخصیت ایک ادارہ، ایک انجمن کی تھی۔ ان کا دل قوم ملت سے محبت، باہمی یگانگت، اسلام کی نشر و اشاعت، تعلیم و تعلم کی انسیت سے لبریز تھا۔ جب تک زندہ رہے اسلام کی روشن تعلیمات، بزرگان دین کے روشن افکار کے راستے پر مسلمانوں اور اسلام کی فلاح وبہبود کے لیے علمی و ادبی میدان میں چراغ سے چراغ جلاتے رہے۔ 27؍ستمبر 1959 کو 65 برس کی عمر میں مسلم ٹاؤن لاہور پاکستان میں ہمیشہ کے لیے پناہ گزین ہوگئے۔