اداریہ

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

روس کے یوکرین پر حملے کے بعد یوکرین کے مختلف شہروں بالخصوص سومی اور کیف میں پھنسے ہوئے ہندوستانی طلبا اور شہریوں کی وطن واپسی کے معاملے میں حکومت کا رویہ ان دنوں تنقید کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ ایک جانب خود وطن لوٹنے والے طلبا اور ان کے متعلقین حکومت اور یوکرین میں واقع بھارتی سفارت خانے کے عدم تعاون اور بد انتظامی کے شاکی ہیں تو دوسری طرف حکومت کے وزراء اور پارٹی کے پیروکار یوکرین سے ہندوستانی شہریوں کے وطن واپسی کے کام کی شاندار انجام دہی پر پیٹھ تھپتھپارہے اور تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں۔ قارئین کے علم میں ہوگا کہ دنیا کے سو سے زائد بیرونی ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کا تقریباً ۲ فیصد حصہ یوکرین کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتا ہے۔ میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات کم ہونے کی وجہ سے یوکرین بہت سارے ہندوستانی طلبا کی پسندیدہ منزل ہے۔ جنگ سے قبل تک یوکرین کے مختلف شہروں میں تقریباً بیس ہزار ہندوستانی طلبا و دیگر شہری مقیم تھے۔ حاصل شدہ اطلاعات کے مطابق کے جنگ کے آغاز کے بعد سے دس دنوں کے دوران سولہ ہزار بھارتی شہریوں کو وطن واپس لایا جاچکا ہے جب کہ ابھی تین سے چار ہزار طلبا یوکرین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وطن واپس لانے کی یہ کارروائی جہاں بدنظمی اور افراتفری کا شکار رہی ہے وہیں حکومت اس کا کریڈٹ لینے اور جاری انتخابات میں اس کا فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر غلط معلومات پیش کر کے حکومت کی کامیابی کو مبالغے کے ساتھ پیش کرنے کی مہم جاری ہے۔
ہندوستان پہنچنے کے بعد کئی پریشان حال طلبا نے یوکرین کے بھارتی سفارت خانے کی بے حسی اور عدم تعاون کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے کوئی مدد نہیں ملی یہاں تک کہ تمام فون نمبرات غیر کارکرد تھے۔ ممبئی کی اکیس سالہ اشونی منجریکر کے اہل خاندان اس وقت سخت غصے میں آگئے جب انہوں نے یکم مارچ کو بھارت کے خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرینگلا کا یہ اعلان سنا کہ کیف سے تمام ہندوستانی طلبا کو باہر نکال لیا گیا ہے۔ یکم مارچ کو جب شرینگلا یہ بیان دے رہے تھے اشونی منجریکر کیف ہی میں موجود تھی۔ وہ دو مارچ کو سفارت خانے کی مدد کے بغیر ہی ایک نجی کار کے ذریعے وہاں سے نکل آئی۔ اس طرح کے بے شمار واقعات اس پورے معاملے میں سامنے آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود غلط بیانی کے ذریعے قوم کے سامنے اپنی ‘شاندار’ کارکردگی کا ڈھنڈورا پیٹنا اور کچھ کیے بغیر ہی بہت کچھ کرنے کا کریڈٹ لینے کی یہ کوشش حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
جنگ سے پیدا شدہ صورت حال نے ہمارے سامنے ایک اور سوال یہ بھی کھڑا کر دیا ہے کہ آخر اتنی بڑی تعداد میں طلبا ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کیوں جاتے ہیں۔ خود اپنے ملک میں اس تعلیم کے حصول کے مواقع اس قدر کم کیوں ہیں؟ ۲۰۲۱ء میں ۸ لاکھ ۷۰ ہزار طلبا نے ایم بی بی ایس کا انٹرنس ٹسٹ یعنی نیٹ کامیاب کیا لیکن اس سال کے اواخر تک پورے ہندوستان کے تمام میڈیکل کالجوں میں صرف ۸۸ ہزار ۱۲۰ نشستیں ہی دستیاب تھیں۔ گویا نیٹ کامیاب ہونے والے طلبا کی صرف دس فیصد تعداد کو ہی ملک کے کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل پائے گا اور سات تا آٹھ لاکھ خواہش مند طلبا یہاں میڈیکل کی تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اگرچہ ۲۶ فروری کو وزیر اعظم مودی نے اپنی ایک تقریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ ہندوستان کے طلبا بالخصوص میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لیے چھوٹے چھوٹے ملکوں کو جاتے ہیں اس لیے انہوں نے نجی شعبے سے وابستہ لوگوں کو متوجہ کیا کہ وہ بڑے پیمانے پر اس میدان میں آئیں۔ نیشنل میڈیکل کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق ہندوستان میں ۴۳ ہزار سے زائد ایم بی بی ایس کی نشستیں ۲۸۴ سرکاری میڈیکل کالجوں میں ہیں جب کہ ۴۲ ہزار نشستیں ۲۶۹ نجی میڈیکل کالجوں میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں دستیاب کل نشستوں میں سے بھی صرف نصف نشستیں ایسی ہیں جن کے اخراجات یہاں کے عام شہری برداشت کر سکتے ہیں اور دوسری جانب ان "چھوٹے چھوٹے ملکوں” میں تعلیمی اخراجات یہاں کے نجی اداروں کے تعلیمی اخراجات سے کافی کم ہوتے ہیں۔ شاید ہمارے وزیر اعظم اس فرق سے واقف نہیں ہیں ورنہ وہ ان ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے کو اس طرح حقارت سے نہیں دیکھتے۔ کیا نجی ادارے میڈیکل کی تعلیم کی ان ناکافی سہولتوں کو پورا کرسکتے ہیں اور اگر نجی اداروں ہی کو یہ کام کرنا ہے تو پھر حکومت کیا کرے گی؟ اور اگر نجی ادارے بڑے پیمانے پر اس شعبے میں داخل ہو جائیں گے تو کالجوں کے معیار کا تعین اور ان کی جانچ کا کام کیسے ممکن ہو گا جب کہ موجودہ تعلیمی ڈھانچہ اس وقت موجود نجی اداروں ہی کی جانچ کے معاملے میں پوری طرح موثر ثابت نہیں ہو رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو نہایت ہی سنجیدہ غور وفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ چلتے چلتے کوئی جملہ کہہ دینے، آپدا میں اوسر (آفت میں موقع) تلاش کرنے اور ہر واقعہ کوانتخابات کی عینک لگا کر دیکھنے والوں سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس طرح کے اہم اور پیچیدہ مسائل پر سنجیدہ غور وفکر کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں گے اس کے لیے عوام ہی کو متبادل تلاش کرنا ہو گا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022