صلاحیت اورعبقریت کی تلاش
امت میں باصلاحیت بچوں کی کمی نہیں ہے، بس تلاش کرنے کی ضرورت ہے
ابوفہد،دلی
اپنی قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں عبقریت اور صلاحیت کی تلاش میں رہیں، اگر وہ کسی میں مل جائے تو اسے آگے بڑھنے میں سہارا دیں اور زندگی کی مشکلات سے نکلنے میں اس کی مدد کریں، خواہ وہ آپ کا بھائی ہو، دوست ہو، رشتہ دارہو ، ماتحت ہو،ملازم ہو یاملاز م کا بچہ ہو، حتیٰ کہ آپ کے دشمن ہی کا بچہ کیوں نہ ہو ، ہر قیمت پر اسے آگے بڑھانے کی کوشش کریں، یا کم از کم نیت ہی رکھیں۔پھر اگر شرط ہی رکھنا چاہیں تو یہی ایک شرط رکھ لیں کہ وہ احسان شناس ہو اور محبت کرنے والا ہو۔
امت میں باصلاحیت بچوں اور نوجوانوں کی کمی نہیں ہے، بس ایسے بچوں اور نوجوانوں کوتلاش کرنے اور ان کی صلاحیت کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور پھر ایک بار جب آپ ایسے کسی بچے کو ، طالب علم کو یا کسی نوجوان کو تلاش کرلیں اور پہچان بھی لیں تو اس کے دوست اور ہم درد بن جائیں۔ اپنے اردگرد کا جائزہ لیتے رہیں، ایسا کوئی طالب علم، بچہ یا نوجوان جہاں کہیں بھی ہو، جیسا بھی ہو اور جس کا بھی ہو اس کی عزت کریں، اسے وہی مقام دیں جو اس کا حق ہے، اس کا ساتھ دیں اور اسے آگے بڑھانے کی فکر وکوشس کریں اور یہ سب کسی طرح کے لالچ یا ابن الوقتی اور ہوس کی تحریک پر نہ کریں بلکہ اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ کریں۔اور اگر کسی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دےسکتے، تعصبات کی وجہ سے، عصریاتی چپقلش کی وجہ سے ، تنگ نظری وتنگ ذہنی کی وجہ سے ، یااس وجہ سے کہ وہ آپ کا ہم مسلک نہیں ہے، ہم زبان نہیں ہے، ہم وطن نہیں ہے اور ہم رشتہ وپیوستہ نہیں ہےیا اور کوئی وجہ ہے ، کسی قسم کی عداوت ہے، رنجش ہے یا آپ کے ذہن کا فتور ہے کہ آپ اپنے علاوہ کسی کو کچھ گردانتے ہی نہیں یا اپنی افتاد طبع کے باعث کسی کے ساتھ چل ہی نہیں سکتے، چاہ کر بھی نہیں ، تو کم از کم اتنا ضرور کریں کہ اس کی راہ کا روڑا نہ بنیں، اپنی زبان سے، اپنے عمل سے اور اپنے کسی اور ذریعہ سے ایسا ہرگز نہ کریں کہ اس کی راہیں مسدود ہوجائیں اور اس کی منزلیں دور ہوجائیں۔بہتر تو یہ ہے کہ ہمارے پاس تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی بعض ایسے ادارے ہوں جو عبقری ذہن رکھنے والے بچوں کو تلاش کریں اور پھر انہیں اپنی تربیت میں لے کر اسی طرح پال پوس کر اور کاٹ چھانٹ کر بڑا کریں جس طرح پودوں کی نرسری میں پودوں کو پال پوس کر بڑا کیا جاتا ہے اور انہیں کاٹ چھانٹ کر مرضی کے مطابق روپ وآکار دیا جاتا ہے۔
اگر آپ مدرسہ کا پس منظر رکھتے ہوں تو آپ ایسے کئی بچوں کو جانتے ہوں گے جنہوں نے چند ماہ یا سال بھرمیں قرآن حفظ کرلیا۔ اور اس عمر میں کرلیا جس عمر کے بچے اپنی مادری زبان کے حروف ابجد کو بھی ٹھیک سے ادا نہیں کرپاتے۔ کیا یہ سب بغیر ذہانت کے اور بنا ٹیلنٹ کے ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔ مگر پھر ان کا کیا ہوا، شاید ان میں سے ایک دو ہی دینی یا دنیاوی اعتبارسے کسی بڑی پوسٹ تک پہنچے ہوں گے اور ایک دو نے ہی کوئی بڑا کام کیا ہوگا۔ ان میں سے بیشتر ہمارے سڑے گلے معاشرے اور غیر منظم تعلیمی وتربیتی نظام کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اور اگر اس سے بچ بچاکر نکلنے میں کامیاب ہوئے تو روز گار اور معاش کی تلاش میں ایسے انجان راستوں پر جانکلے جہاں محنت زیادہ تھی اور معاوضہ کم تھا یا پھر سکوں کی کھنک تو تھی مگر دینی وتعمیری سوچ نہیں تھی ۔ نہیں تو اور کہاں گئے؟ آخر ایسی کیا چیز ہے جو ہمارے بچوں کی ذہانتوں اور عبقریتوں کو کھارہی ہے؟
ہماری مسلم سوسائٹی کی بہت سی سرکردہ شخصیات اور پیش روافراد کا یہ عجیب المیہ ہے کہ وہ نئی نسل کے دشمن بنے ہوئے ہیں، بیشتر لوگ بچوں کی صلاحیتوں کو اور ان کے وقت کو کھارہے ہیں۔ان سے بیگار لے رہے ہیں اور آگے بڑھنے کی ان کی راہیں مسدود کررہے ہیں۔قوم کے بیشتر معصوم بچے معاش کی دوڑ دھوپ میں برباد ہورہے ہیں،خاص کر پچھڑے علاقوں کے بچے۔ پھر ان میں سے جو تھوڑے بڑے ہوگئے ہیں وہ غلط عادتوں اور غلط صحبتوں میں پڑ کرناکارہ بن رہے ہیں، کچھ بچے تعلیم گاہوں کی طرف آرہے ہیں، عصری اور دینی تعلیم گاہوں کی طرف اور یہاں دوسری طرح سے بچوں کا مستقبل ان سے چھینا جارہا ہے۔مسلمان بچوں کا مستقبل دین اور دنیا دونوں سے مل کر بنتا ہے، اگر مسلمان بچے ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی ناکارہ رہ گئے تو ان کا ایک مستقبل تو برباد ہی ہے۔
***
***
بیشتر لوگ بچوں کی صلاحیتوں کو اور ان کے وقت کو کھارہے ہیں۔ان سے بیگار لے رہے ہیں اور آگے بڑھنے کی ان کی راہیں مسدود کررہے ہیں۔قوم کے بیشتر معصوم بچے معاش کی دوڑ دھوپ میں برباد ہورہے ہیں،خاص کر پچھڑے علاقوں کے بچے۔ پھر ان میں سے جو تھوڑے بڑے ہوگئے ہیں وہ غلط عادتوں اور غلط صحبتوں میں پڑ کرناکارہ بن رہے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021