صحت اور ادویہ سازی کے میدان میں ریسرچ ایک ترجیحی ضرورت

دواؤں کے اجزاء کی عالمی مانگ میں اضافہ۔بھارت کو چین سے سخت مسابقت کا سامنا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

گزشتہ ستر سالوں تک شعبہ صحت کی بہتری کے لیے کسی طرح کی کوشش کی گئی نہ شعبہ پر ضروری توجہ مرکوز کی گئی۔ملک کی جی ڈی پی پر کافی توجہ رہتی ہے جو اہم بھی ہے لیکن شہریوں کی اچھی صحت میں ہی معیشت کی بہتری ہے کیونکہ ناقص صحت کے ساتھ کوئی ملک ہمہ جہتی ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکتا۔ اب گزشتہ چند سالوں سے حکومت نے اسے ترجیحات میں شامل کیا ہے کیونکہ کووڈ ۱۹ کی دوسری لہر نے جہاں معیشت کو متاثر کیا اس سے کہیں زیادہ آکسیجن کی کمی ، ہسپتالوں میں بستروں کی قلت اور ادویات کی کالا بازاری نے لاکھوں انسانوں کی جانیں لی ہیں ۔ صحت اور تعلیم، معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں۔ لمبے عرصہ تک صحت کے بجٹ میں جی ڈی پی کا محض 1.3فیصد ہی ہوا کرتا ہے جس میں سے تقریباً نصف حصہ خاندانی منصوبہ بندی میں خرچ ہوجایا کرتا تھا۔ ایسے حالات میں صحت عامہ کی ریسرچ کرنا ممکن نہیں تھا۔اس شعبہ میں جی ڈی پی کا کم از کم دو تا ڈھائی فیصد مختص کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ دیگر ممالک کم از کم صحت پر اپنی جی ڈی پی کا چھ فیصد خرچ کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں شعبہ صحت ہمیشہ سے ہی ناقابل اعتنا ہی رہا ہے اسی وجہ سے وزارت صحت ایسے شخص کو دی جاتی رہی ہے جسے زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا۔
اب وقتاً فوقتاً میڈیا میں بھی کورونا کی دوسری لہر کے بعد تسلسل کے ساتھ یہ مسئلہ بحث کا موضوع بن رہا ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے بھی حکومت کو تحقیق و تفتیش کے لیے اچھی خاصی رقم دینی پڑرہی ہے ۔ ریسرچ کے کئی زینے ہوتے ہیں جن پر خطیر رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مثال کے طور پر تجربہ گاہوں میں ریسرچ کے دوران ایک درجن سالمے (مالیکیولس) کی تیاری کے بعد ایک دو ہی موثر ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں فارما کمپنیاں اس پوزیشن میں نہیں ہوتیں کہ اتنے اخراجات کو برداشت کرسکیں اس لیے حکومت کو ہی آگے بڑھ کر ریسرچ کے ایجنڈہ کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ ہم غیر ممالک میں کیے گئے ریسرچ کو اپنا کر دوائیاں سستے داموں میں بازار میں لاتے ہیں۔ اس طرح بھارت میں تیار شدہ دوائیں تقریباً 190ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں۔ اس لیے زیادہ تر غریب ممالک کے لوگ ان ادویات کو ضرورتاً سستے داموں خرید پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارت کو ’’فارمیسی آف دی ورلڈ‘‘ کہا گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی بھارت میں تیار شدہ دواوں کو مستند مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ دوائیں دنیا کی کسی کمپنی کے مقابلے ابتر نہیں ہیں۔ یہاں جو کمیاں اور خامیاں ہیں وہ اس میدان میں تحقیق کی ہے۔ اگر حکومت آگے بڑھ کر فنڈ مہیا کرائے اور دیگر فارما کمپنیاں جوش و خروش سے آگے بڑھیں تو دوائی صنعت کا دائرہ کافی بڑھ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دوا سازی کے میدان میں محض اسرائیلی کمپنیوں کو ہم پر کچھ فوقیت حاصل ہے۔ ہمارے یہاں بھارتی میڈیسن ریسرچ لیباریٹریز بھی ہیں اس کے علاوہ بائیو ٹکنالوجی کے میدان میں بھی اچھا کام ہورہا ہے۔ مگر تحقیقی کام ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ اس لیے اب ضروری ہوجاتا ہے کہ وزرات صحت ریسرچ اداروں کو خطیر مقدار میں مالی مدد کرکے ان کو فعال بنائے۔ وزیر صحت مانڈویا نے بھی زور دے کر کہا ہے کہ دواؤں کے میدان میں ریسرچ کو بڑھانے کی ضرورت ہے ہم فارمولا بنانے میں آگے ہیں مگر ریسرچ میں پچھڑ رہے ہیں۔ ریسرچ اداروں اور دوائی صنعتوں کے درمیان بہتر تال میل کے ذریعے دوا سازی کے میدان میں ہم اپنا دبدبہ قائم رکھیں گے۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ہمارے ملک میں علم طب نے اچھی خاصی ترقی کی ہے۔ ریاستوں میں میڈیکل کالجوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ میڈیکل کے میدان میں طلبا کی ہمت افزائی کی ضرورت ہے کہ وہ ریسرچ کو خصوصاً دواوں کے میدان میں اپنی قوت اور صلاحیت صرف کریں۔ اس میدان میں کلینکل شاخوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ فی الحال فارما کے میدان میں تربیت یافتہ طلبا کے لیے دوا سازی کی صنعتوں میں طلب بڑھ رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں طویل مدتی منصوبہ بنانا ہوگا تاکہ اچھے محقق ہمارے اداروں کو مل سکیں اور ریسرچ میں ہمارا مقام ہو۔ ہمارے اسپتالوں میں ریسرچ یا تجربہ کا عمل بہت سست ہے۔ ایسے حالات میں انتظامی امور کو عملی جامہ پہنانے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اس لیے حکومت کو ایسی انتظامی خامیوں کو دور کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔
واضح رہے کہ ہمارا ملک دوا سازی کے میدان میں قیمت کی بنیاد پر چوتھے اور کمیت (Quantity) کی بنیاد پر تیسرے مقام پر ہے ۔ امریکہ جیسے ملک میں ہماری دواؤں کی حصہ داری 34فیصد ہے۔ عام بیماریاں ملیریا، وٹامن ، ایچ آئی وی ، ذیابیطس، دمہ، کینسر، دل کے امراض جیسے مہلک بیماریوں کے لیے بھارتی دوائی صنعتیں دوائیں سپلائی کرتی ہیں مگر گزشتہ چند سالوں سے چینی دوا ساز کمپنیوں کا دبدبہ زبردست رہا ہے۔ سال2000ء سے پہلےبھارتی دوا ساز صنعتیں دنیا کی سپلائی چین میں اپنی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ملک میں بنے ایکٹیو فارما سیوٹیکل انگریڈینٹس (اے پی آئی) یعنی دواؤں کے اجزاء کی دنیا بھر میں زبردست طلب تھی۔ مگر کچھ عرصے سے اے پی آئی کی مینو فیکچرنگ ہم سے چِھن کر چین کے حصہ میں چلی گئی ہے۔ چین نے اے پی آئی کی پیداوار میں محیر العقل ترقی کی ہے حتیٰ کہ بھارت بھی وہیں سے اجزاء کی درآمد پر مجبور ہے۔ اس کے علاوہ چین ہی دیگر ممالک کو اے پی آئی اکسپورٹ کرتا ہے جس نے چالاکی سے مختلف ذرائع اختیار کرتے ہوئے جیسے کم شرح سود پر قرض، طویل مدتی قرض، شائنو شیور نامی چینی ادارہ کے ذریعہ قرض کی ضمانت، ریسرچ پر مدد، ایکسپورٹ اور مارکیٹنگ کی ہمت افزائی اور سستی بجلی کی فراہمی کے ذریعہ اپنی حریف بھارتی اے پی آئی صنعت کو تباہ کردیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس طرح کا انفراسٹرکچر بہت کمزور ہے ۔ اس لیے ہمیں فوراً منصوبہ بند طریقےسے اے پی آئی کے لیے چین پر انحصار کو ختم کرنے کے لیے بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔ حالیہ دنوں میں حکومت نے اے پی آئی کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ہمت افزائی کے طور پر پی ایل آئی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 12ہزار کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو چین سے مسابقت میں کافی نہیں ہوگی۔ چین کی ’’پرائس وار‘‘ (قیمتوں کی جنگ) میں فتح حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اے پی آئی کے معاملہ میں سبھی مطلوبہ اقدامات کرنے ہوں گے نیز اینٹی ڈمپنگ فیس کے اطلاق، تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) ڈپارٹمنٹ کا قیام، ٹسٹنگ آلات کی درآمدات پر فیس سے استثنا اور ماحولیات سے متعلق قواعد میں رعایت اور سستی قیمتوں پر زمین کی فراہمی جیسے اقدام کرتے ہوئے ہم چین سے مسابقت کی دوڑ میں برقرار رہ سکتے ہیں۔
***

 

***

 ہمارا ملک دوا سازی کے میدان میں قیمت کی بنیاد پر چوتھے اور کمیت کی بنیاد پر تیسرے مقام پر ہے ۔ امریکہ جیسے ملک میں ہماری دواؤں کی حصہ داری 34فیصد ہے۔ عام بیماریاں ملیریا، وٹامن ، ایچ آئی وی ، ذیابیطس، دمہ، کینسر، دل کے امراض جیسے مہلک بیماریوں کے لیے بھارتی دوائی صنعتیں دوائیں سپلائی کرتی ہیں مگر گزشتہ چند سالوں سے چینی دوا ساز کمپنیوں کا دبدبہ زبردست رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021