مسلمان حالات سے پریشان نہ ہوں، داعی امّت کا کردار ادا کریں

جبری تبدیلی مذہب کے نام پر گرفتاریوں کی مذمت۔حکومت سے ہراسانیوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ

ظلم و نفرت سے دنیا بھر میں ملک کی نیک نامی متاثر۔ اداروں کے بے جا استعمال پر اظہار تشویش
مجلس نمائندگان جماعت اسلامی ہند کی قراردادیں

نئی دلّی میں مورخہ ۷؍ تا ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو منعقدہ مجلس نمائندگان جماعت اسلامی ہند کے اجلاس میں درج ذیل قراردادیں منظور کی گئیں۔
1.مسلمانوں کی جان و مال اور دین و ایمان پر حملے
جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کایہ اجلاس گزشتہ چند سالوں سے مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور ان کے دین و ایمان پر ہونے والے حملوں اور پارلیمنٹ و ریاستی اسمبلیوں کی قانون سازیوں کے ذریعہ ان کے آئینی و بنیادی حقوق کی پامالی کی کوششوں کو تشویش کی نظرسے دیکھتا ہے۔ بدقسمتی سے حالیہ چند برسوں سے منصوبہ بند حملوں، اشتعال انگیزی، نفرت آمیز پروپیگنڈے اور اقدامات میں غیر معمولی تیزی آگئی ہے۔مجلس نمائندگان ان حالات میں مسلمانانِ ہند کو تلقین کرتی ہے کہ وہ حالات سے ہرگز پریشان نہ ہوں، اللہ پر بھروسے اور صبرو استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں۔ اپنے دین و ایمان، اسلامی و ایمانی شناخت اور دستوری حقوق سے ہرگز دستبردار نہ ہوں کیوں کہ اللہ صبرو استقامت کے ساتھ اپنے دینی و شرعی موقف پر ڈٹے رہنے والوں کو پسند کرتا ہے اور انہیں کبھی حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا۔ اسی طرح مجلس نمائندگان مسلمانانِ ہند کو یہ بھی یاد دلانا چاہتی ہے کہ اپنے دین وایمان، جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت اور دفاعی اقدامات ان کا قانونی و دستوری حق ہے۔
مجلس نمائندگان مسلمانان ہند کو یہ یاد دلانا چاہتی ہے کہ وہ ایک داعی امت ہیں، قرآن مجید انہیں خیر امت اور انسانیت کے بہی خواہ کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ حق کی گواہی،امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور سماج میں عدل و قسط کا قیام ان کا اصل فریضہ ہے۔لیکن ہم اپنے اس منصب سے غافل رہے اور اپنے ارد گرد کے سماج سے مضبوط رشتہ قائم نہ کرسکے۔ اسی طرح ملکی سماج کی تشکیل و تعمیر اور بنی نوع انسان کو پریشانیوں سے بچانے کی کوششوں سے بھی ہم نے غفلت برتی ہے۔اجلاس کا احساس ہے کہ ہندوستانی سماج میں ظلم و استحصال، قانون کی پامالی، غربت، مرض اور جہالت، ذات پات کا ظالمانہ نظام، فرقہ وارانہ بغض وعناد،خواتین کے ساتھ ذلت آمیز سلوک اور ہر جگہ پھیلے کرپشن میں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم انسانیت کی خیر خواہی کی عملی جدو جہد میں حصہ لیں اور ایک پاکیزہ اور عدل و احسان پر مبنی سماج کی تعمیر کے لیے سب کے ساتھ مل کر کوشش کریں۔
مجلس نمائندگان ملک کے باضمیر، عدل و انصاف پر یقین رکھنے والے انسانوں کو آواز دیتی ہے کہ وہ مسلمانوں اور سماج کے کمزور و مقہور طبقات کے ساتھ کھڑے ہوں اور ان کے حقوق کو پامال نہ ہونے دیں نیز اپنی اخلاقی و انسانی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوں۔اس طرح مجلس نمائندگان برسراقتدار طبقہ کو متنبہ کرتی ہے کہ وہ اقتدار کے نشے میں یہ نہ بھول جائے کہ اس کی اصل ذمہ داری ملک میں عدل و انصاف، امن و سلامتی کا قیام اور قانون کی بالادستی ہے نہ کہ نفرت اوربغض و عناد پیدا کرکے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا۔لیکن اس نے ملک میں ظلم و زیادتی، نفرت اور بغض و عناد اور بدامنی پیدا کرکے دنیابھرمیں ملک کی شبیہ اور نیک نامی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
2.جمہوری اقدار اور مذہبی آزادیوں کی پامالی
جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا احساس ہے کہ حالیہ برسوں میں ملک کے جمہوری نظام، اظہار خیال کی آزادی اور جمہوری اقدار کو شدید اور غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔مجلس نمائندگان کا یہ شدید احساس ہے کہ ملک کی پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر بحث و تمحیص کے بغیر اور عوام کی رائے کے علی الرغم جس طرح کی قانون سازی ہورہی ہے وہ نہ صرف ظالمانہ اور غیر جمہوری ہے بلکہ اس نے مختلف طبقات اور گروہوں میں عدم تحفظ کا شدید احساس اور غیریقینی کیفیت پیدا کردی ہے۔ جمہوریت کے تینوں ستونوں کا توازن اور استحکام بری طرح بگڑ گیا ہے۔اسی طرح ملک کے بعض آئینی آزاد و خود مختار جمہوری ادارے جیسے الیکشن کمیشن آف انڈیا، ریزرو بینک آف انڈیا،یو جی سی، مرکزی خفیہ ایجنسیاں اور سینٹرل یونیورسٹیاں بھی برسراقتدار طبقہ کی استحصالی ذہنیت، بدنیتی اور فسطائی عزائم کی زد پر ہیں۔اختلاف رائے اور حکومتی فیصلوں و اقدامات پرصحت مند اور تعمیری تنقید جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اب حکمرانوں کی جانب سے ان جمہوری روایتوں کی بری طرح پامالی ہورہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے جس طرح صحافیوں، سماجی کارکنوں، دانشوروں اور حزب اختلاف کے نمایاں افراد کو ڈرایا دھمکایا، زد و کوب کا نشانہ اور قیدو بند کی سختیوں سے گزارا جارہا ہے وہ ایک کلیت پسندانہ رجحان ہے اس پر فوری روک لگنی چاہیے۔ اظہار خیال کی آزادی نہ صرف ایک بنیادی آئینی حق ہے بلکہ ایک پائیدار جمہوری نظام کے لیے استحکام کے لیے از حد ضروری ہے۔
مجلس نمائندگان کا احساس ہے کہ جمہوریت کے بعد ملک کے دستور کا دوسرا بنیادی ستون یہ ہے کہ ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور وہ تمام مذاہب کے تئیں غیر جانبدار ہوگی، ملک کے تمام طبقات کو یکساں مذہبی آزادی اور تہذیبی تشخص حاصل ہوگا۔ تاہم مجلس نمائندگان محسوس کرتی ہے کہ گزشتہ سات سال سے برسراقتدار طبقہ ایک خاص مذہب، مذہبی روایات اور کلچر کی نہ صرف سرکاری طور پر سرپرستی کررہا ہے بلکہ دیگر مذاہب اور مذہبی تشخص کے لیے دشواریاں کھڑی کررہا ہے۔ان دنوں پولیس اور خفیہ اداروں کا بے جا استعمال کرکے جس طرح مسلم نوجوانوں اور اقلیتوں کی مذہبی شخصیات کو بے جا الزامات کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ دستور میں دیے گئے مذہبی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ جبری تبدیلی مذہب کے نام پر ہونے والی حالیہ گرفتاریوں کو بھی یہ اجلاس اسی تناظر میں دیکھتا ہے اور اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ اس سلسلے کو فوراًختم کیا جائے اور پولیس و انتظامیہ کو ایسے تمام اقدامات سے روکا جائے جو دستور میں دیے گئے بنیادی مذہبی حقوق کو پامال کرنے والے اور اقلیتوں، خصوصاًمسلمانوں کو ہراساں کرنے والے ہیں۔یہ نہ صرف بنیادی حقوق کے منافی ہے بکہ ایک تکثیری اور مخلوط معاشرے کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ حکومت ہند کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستان ایک کثیر مذہبی، کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی وفاقی ملک ہے اور اس میں استحکام اور پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مذہبی غیرجانب داری اور مذہبی آزادی کے اس اصول پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔
3.ملک کی معاشی صورت حال
مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی ہوش ربا مہنگائی پر اپنی سخت تشویش کا اظہا رکرتا ہے۔ اجلاس کا احساس ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں جس تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے اوراس مہنگائی کو روکنے میں حکومت جس طرح نااہل ثابت ہوئی ہے اس نے عام انسانوں، بالخصوص غریب انسانوں کی زندگی کو بے انتہا مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ مجلس نمائندگان کا یہ بھی احساس ہے کہ مرکزی حکومت کی غلط اور سرمایہ دارانہ استعماری پالیسیوں نے مہنگائی کی اس صورت حال کو سنگین بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے،جس کے سبب پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں پہلی مرتبہ سوروپے، خوردنی تیل کی قیمت دوسوروپے اور رسوئی گیس کی قیمت ایک ہزار روپے تک جاپہنچی ہے۔ اجلاس کو اس امر پربھی شدید تشویش ہے کہ مہنگائی کی مارسہنے والے غریب عوام کو حکومتوں نے بھی حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا ہے اور ان کی فلاح و بہبود کی تمام اسکیمیں محض کاغذ کی زینت اور اشتہارات کی چکاچوند تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے روزگار پیدا کرنے کے بلند و بانگ دعوووں کے باوجود بے روزگاری کی شرح جو سال 2015 میں 5.56 فیصد تھی 2021 میں بڑھ کر7.75 فیصد ہوگئی ہے، شہری علاقوں میں تو یہ شرح اور بھی زیادہ ہیاور ہر سال لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہورہے ہیں۔جس زرعی شعبے نے وبا و لاک ڈاؤن کی سنگین صورت حال میں بھی ملکی معیشت کو سہارا دیا تھا، حکومت اپنی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے سبب اسے بھی تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔اس شعبے کو نجی ہاتھوں میں جانے اور تباہی سے بچانے کے لیے احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ حکومت نے جو طرز عمل اختیار کیا ہے مجلس نمائندگاناس کی شدید مذمت کرتی ہے۔
مجلس نمائندگان کے نزدیک اس وقت ملک کی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہی ہے۔ قومی پیداوار میں تیزرفتار گراوٹ، فی کس آمدنی میں بنگلہ دیش سے بھی نیچے گرجانا اور بھوک کے عالمی اشاریہ میں اپنے پڑوسی ممالک سے بھی پچھڑ جانا اس بدترین صورت حال کی نمایاں علامات ہیں۔ حکومت ان مسائل کو حل کرنے کے نام پر ملک کے بیش قیمت اثاثوں کو فروخت کرنے اور مختلف عوامی خدمات کو نجی اداروں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرکے صورت حال کو مزید خرابی کی طرف لے جارہی ہے۔مجلس نمائندگان کی نظر میں یہ صورت حال معاشی مسائل سے نمٹنے میں حکومت کی نااہلی کو ظاہر کرتی ہے۔ مجلس نمائندگا ن کو یہ اندیشہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک کے لیے مرکزی حکومت کے یہ فیصلے اس کی معیشت کو مزید تباہی سے دوچار کرکے عوام کو نجی اداروں کے استحصالی شکنجے کا شکار بنادیں گے۔اور ہندوستان میں آزادی کے بعد اختیار کیے گئے فلاحی ریاست کے تصور کا خاتمہ کردیں گے۔ جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان ملک کی اس معاشی صورت حال کو ملک کے مستقبل اور اس کی ترقی کے لیے نہایت ہی نقصان دہ اور مہلک سمجھتی ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور تمام سیاسی جماعتوں، سماجی تنظیموں و تحریکوں اور معاشی ماہرین کے ساتھ مشاورت کے ذریعے ملک کو اس بدترین صورت حال سے نکالنے کی سنجیدہ کوشش کرے۔
4.خواتین کا تحفظ
ملک عزیز میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خواتین پر تشدد، ان کی عفت و عصمت پرحملوں اور ان پر ظلم و ستم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اور مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے جاری کردہ کرائم ریکارڈبھی صورت حال کی اس سنگینی کو ظاہر کررہے ہیں۔ ریکارڈ پر نہ آنے والے مظالم کے واقعات اس کے علاوہ ہیں ۔اس معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مجرموں کے خلاف نہ صرف قرار واقعی کارروائی نہیں کی جاتی بلکہ کئی معاملات میں متعلقہ حکومتوں کی خاموش تائید محسوس کی جا سکتی ہے۔ اس طرح اقتدار، دولت، سیاسی پشت پناہی اور حکومت کی بے حسی نے خواتین پر مظالم اور ان کے استحصال کی صورت حال کو اور بھی سنگین بنادیا ہے۔ حالیہ دنوں میں دہلی، ہاتھرس اور ممبئی میں ہوئے وحشتناک واقعات نے عورت کے تئیں معاشرے کے رویے کو پوری طرح آشکار کردیا ہے۔ متاثرہ خواتین کی داد رسی نہ ہونے کے سبب ان میں سے ایک نے عدالت عالیہ کے سامنے خودسوزی کرلی۔جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ملک میں خواتین کے تحفظ و ترقی کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے، عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم پر سخت روک لگائے اور مجرموں کے لیے سخت اور عبرت ناک سزائیں مقرر کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ خواتین کی نفسیاتی اور سماجی بازآبادکاری کے لیے مناسب پالیسی بھی وضع کرے۔یہ اجلاس حکومت اور سماج کواس خوفناک اخلاقی بحران کے اسباب و محرکات کی جانب بھی متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ بے لگام جنسی بے راہ روی، مردوزن کا مخلوط ماحول، روحانی و اخلاقی قدروں کا زوال، اور بے حیائی اس کے بنیادی اسباب ہیں۔ ان اسباب و محرکات کے ازالے کے بغیر تحفظ نسواں کے لیے کی جانے والی تمام تدبیریں بے سود ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان کا یہ اجلاس ملک کی عوام سے بھی اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ان واقعات پر حساسیت کا مظاہرہ کرے اور خواتین کے خلاف ہو نے والے جرائم کوروکنے میں اپنا بھرپور حصہ ادا کرے۔کیوں کہ خواتین کی عصمت و عفت اور حقوق کے تحفظ ہی سے ایک صحت مند اور بااخلاق سماج کا وجود ممکن ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021