ماہِ ربیع الاول :موقع کو غنیمت جانیے

مسلمانوں کو قول اور فعل سے دنیا کے سامنے رحمت اللعالمین ﷺ کا تعارف پیش کرنے کی ضرورت

اویس ، پونا

حضرت عیسیؑ کے اوپر اٹھائے جانے کے 571 سال بعد رحمت اللعالمین ﷺ کی دنیا میں آمد ہوئی۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ سیرت کی کتابوں میں وہ حالات بہت تفصیل سے درج ہیں جن میں حضور اقدس ﷺ اس عالم فانی میں تشریف لائے۔
چالیس سال کی عمر مبارکہ تھی، غار حرا میں پہلی وحی آئی تو گھر لوٹ کر حضرت خدیجہؓ سے فرمایا ’’ مجھے اڑھاو۔۔ مجھے اڑھاو‘‘۔ جب آپ کو اوڑھا دیا گیا اور آپ کو سکون ہوا تو آپؐ نے سارا واقعہ بیان فرمایا اور کہا کہ ’’مجھے میری جان کا خوف ہے‘‘۔ یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے آپ کی جو ہمت بندھائی وہ بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ کہا ’’نہیں، ہرگز نہیں! آپ کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو گا۔ خدا آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ قرابت داروں کا حق ادا کرتے ہیں۔ لوگوں کے بوجھ آپ خود اٹھاتے ہیں۔ فقیروں اور مسکینوں کی مدد کرتے ہیں۔ مسافروں کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ انصاف کی خاطر لوگوں کی مصیبتوں میں کام آتے ہیں۔‘‘ یہاں ام المومنینؓ کی باتیں قابل غور ہیں۔ گویا یہی تھی حضور ﷺ کی شخصیت مبارکہ کی جھلک۔ نبوت سے پہلے آپ کی پہچان یہ تھی کہ آپ اپنی ذات سے انسانوں کو فائدہ پہنچاتے تھے، اور ظاہر ہے کہ نبوت ملنے کے بعد یہ جذبہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ محمد ﷺ رحمت اللعالمین ہیں۔ یعنی جتنے عالمین کا اللہ رب ہے، اتنے عالمین کے لیے آپ باعث رحمت ہیں۔ تمام مخلوقات کے لیے رحمت۔ آپ سے انتہائی نفرت کرنے والا شخص ثمامہ بن اثال بھی آپ کے حسن اخلاق کا مشاہدہ کر کے صرف تین ہی دنوں میں پکار اٹھتا ہے کہ سارے عالم میں آپ سے زیادہ مجھے کسی سے نفرت نہ تھی لیکن اب تو آپ ہی مجھے دنیا میں سب سے پیارے معلوم ہوتے ہیں۔ یہی بات انہوں نے شہر مدینہ اور دین اسلام کے بارے میں بھی کہی۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ ثمامہؓ نے جو اپنے قبیلہ کے سردار تھے اپنے شہر نجد پہنچتے ہی اعلان کیا کہ رسول اللہ کی اطاعت میں آجاو ورنہ غلّہ بند کردیا جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی قوم کا غلہ بند کر دیا۔ لوگوں نے رحمت اللعالمین ﷺ سے ہی التجا کی کہ غلہ نہ روکا جائے ۔ پھر رحمت کے پیکر حضور ﷺ نے ثمامہؓ کو لکھ بھیجا کہ غلہ بدستور جاری رہنے دیں- یعنی دیکھیے کہ اہل مکہ جو حضور ﷺ کے جانی دشمن تھے بدر، احد اور خندق میں جنہوں نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا، ایسے لوگوں کے لیے بھی رحمت اللعالمین ﷺ نے پسند نہیں فرمایا کہ ان کا غلہ روک دیا جائے- یہ ہوتی ہے رحمت۔ مومنوں کے لیے بھی اور جانی دشمنوں کے لیے بھی۔
اب آئیے اکیسویں صدی کی دنیا میں، جہاں اب مسلمانوں کے 57 ممالک ہیں اور دنیا میں مسلمانوں کی آبادی ایک سو کروڑ ہے۔ اتنے سارے مسلمان کیا مسلمان رحمت اللعالمین ﷺ کا تعارف دنیا کے سامنے پیش کر پائے؟ وہ تعارف جس نے ثمامہؓ کے دل کی کایا پلٹ دی تھی۔
رحمت اللعالمین ﷺ کا تعارف پیش کرنے میں ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہی آج ہمیں توہین رسالت کے واقعات دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ کبھی فلموں کی شکل میں، کبھی کارٹونوں کی شکل میں، کبھی بیانات کی شکل میں۔ دل تو سبھی کا دُکھتا ہو گا مگر یہ سوچ کر ہم چپ رہ جاتے ہیں کہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ایسے تمام افراد جن کا دل غمگین ہوتا ہے جو توہین رسالت کے واقعات پر تلملا اٹھتے ہیں ان کے لیے اور جو رحمت اللعالمین ﷺ کے نام لیوا ہیں، ان سبھی لوگوں کے لیے ایک ایسا حل بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ چیزیں رک سکتی ہیں اور اس کے لیے ہمیں کوئی منفی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ آج ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ آج محمد ﷺ کی سیرت صرف کتابوں میں محفوظ ہے۔ آج جو چیز دنیا کے سامنے ہے وہ رسول ﷺ کی شخصیت نہیں بلکہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم ان کے نام لیوا ہیں اور ہم جانے انجانے میں اپنے اعمال سے اپنی باتوں سے جو تعارف رحمت اللعالمین کا پیش کر رہے ہیں، وہی ان کے لیے حضور اقدس ﷺ کی شخصیت بنتی جا رہی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی حل ہے کہ ہم زبان اور عمل سے رسولِ رحمت کا تعارف دنیا کے سامنے پیش کریں اور دنیا ہمارے توسط سے رسول اکرم کے بارے میں جان لے۔ یہی ’’ماہ رحمت‘‘ کا اولین ہدف ہے۔
یوں تو یہ تعارف ہمہ وقت پیش کیا جاسکتا ہے لیکن چونکہ ربیع الاول کے مہینہ ہی میں حضور ﷺ پیدا ہوئے تھے اس لیے کیا ہی بہتر ہوگا کہ ہم اس موقع کوغنیمت جانیں اور کمر بستہ ہو جائیں کہ ہم اس پورے مہینے میں اپنی زبان اور عمل سے رسول ﷺ کا تعارف دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ زبانی طور سے پیش کرنے کا مطلب یہ کہ ہم اپنے برادران وطن کو خود رسول ﷺ کی سیرت کے بارے میں بتائیں اور ان کو کتب سیرت تحفہ میں دیں نیز اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کریں۔ رسول ﷺ کی احادیث کی ہورڈنگس لگائیں۔ رکشے کے پیچھے بھی بینرس لگائے جا سکتے ہیں۔
اس طرح جو لوگ ان کے بارے میں نہیں جانتے، وہ جان جائیں گے۔ رسول ﷺ کو جاننا اور نہیں جاننا یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ ان کو جاننے سے رحمت کے اور نہ جاننے سے زحمت اور توہین رسالت جیسے واقعات ہوتے ہیں۔ جہاں زبان سے تعارف پیش کرنا اہمیت کا حامل ہے اس سے کہیں زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم عملی طور پر بھی ان کا تعارف پیش کریں۔
ربیع الاول کے مہینے میں ہم بڑے پیمانے پر خدمت خلق کا کام انجام دیں اور اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ اس کا مطلب دکھاوا ہرگز نہیں ہوگا۔ بات دراصل یہ ہے کہ جب ایک منفی بات دنیا کے اس کونے سے اس کونے تک پہنچ سکتی ہے تو پھر خیر کی بات کی کیوں نہ پہنچے۔
یہ تمام کام سوشل میڈیا پرcompassionmonth# کے ساتھ شئیر کیے جائیں۔
یہاں پورا مہینہ اسی لیے کہا جا رہا ہے تاکہ سبھی لوگ اپنی اپنی سہولت کے مطابق کچھ نہ کچھ خدمت خلق کا کام ضرور انجام دیں اور خاص طور پر ١٢ ربیع الاول کے دن اگر سبھی لوگ ایک ہی کام کریں تو اس دن کا اور بھی زیادہ اظہار ہوگا اور میلادالنبی کا دن آگے چل کر دنیا میں ’’یوم رحمت‘‘ کے نام سے موسوم ہو سکتا ہے۔ انشاء اللہ۔
ہم یہاں پر کچھ ایسی خدمات کا ذکر کر رہے ہیں جو بہت آسانی سے انجام دی جا سکتی ہیں اور اگر انہیں بڑے پیمانے پر کیا جائے تو یقیناً ’’ماہ رحمت‘‘ کے توسط سے حضور ﷺ کا تعارف بڑے پیمانے پر پیش ہو گا۔
پاکی آدھا ایمان ہے۔ اس کے تحت میلادالنبی کے دن اپنے محلہ کی صاف صفائی کرنے والوں کی عزت کریں۔ انہیں شال پیش کریں ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔ جب یہ خبر اخبارات کی زینت بنے گی تو اور بھی لوگوں کو حوصلہ ملے گا۔ اس کے علاوہ اپنے علاقے کے سرکاری اسپتالوں میں ضرورت کی اشیاء تحفے میں پیش کریں۔ یتیم خانوں اور اولڈ ایج ہومس کا دورہ کریں اور ان کو بھی تحائف پیش کریں۔
پورے مہینے میں مسکینوں کو کھانا تقسیم کریں
میڈیکل کیمپس کا انقعاد کریں
پیڑ لگائیں
٣ دنوں کے لیے اسپتال کے باہر رکشا کی مفت خدمات کا انتظام کریں
اپنی دکانوں میں compassionmonth Discount کے بورڈ لگائیں
یہ سبھی کام ’’ماہ رحمت‘‘ یعنی compassionmonth#
کے نام سے کریں۔ جب سبھی جگہ یہ خدمات ایک ہی نام سے انجام پائیں گی تب ہی رحمت کا اظہار واقعی ہو گا اور لوگوں کو محمدﷺ کا صحیح تعارف پیش ہو گا۔
یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ یہ کوئی نیا کام نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمیں ویسے بھی کرنا ہی تھا کہ ہم اپنی زبان و عمل سے رحمت للعالمین ﷺ کا تعارف دنیا کے سامنے پیش کرتے۔ مگر ہم نے کیا ہی نہیں اور ہمیں آج اس کا احساس ہوا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ کسی خاص جماعت یا تنظیم کا کام نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ اسے سبھی تنظیمیں اور جماعتیں اپنے اپنے انداز میں کر سکتی ہیں۔ یہ موقع اگر ہاتھ سے نکل جائے تو معلوم نہیں اگلے سال یہ موقع ہاتھ آئے گا یا پھر کورونا یا کسی اور آفت کی نذر ہو جائے گا۔ لہٰذا آج آپ کے پاس جو وقت ہے کیا آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
***

 

***

 رحمت اللعالمین ﷺ کا تعارف پیش کرنے میں ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے ہی آج ہمیں توہین رسالت کے واقعات دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ کبھی فلموں کی شکل میں، کبھی کارٹونوں کی شکل میں، کبھی بیانات کی شکل میں۔ دل تو سبھی کا دُکھتا ہو گا مگر یہ سوچ کر ہم چپ رہ جاتے ہیں کہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ایسے تمام افراد جن کا دل غمگین ہوتا ہے جو توہین رسالت کے واقعات پر تلملا اٹھتے ہیں ان کے لیے اور جو رحمت اللعالمین ﷺ کے نام لیوا ہیں، ان سبھی لوگوں کے لیے ایک ایسا حل بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ چیزیں رک سکتی ہیں اور اس کے لیے ہمیں کوئی منفی قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 24 تا 30 اکتوبر 2021