شکر گزاری‘امن و سکون اورخوشی کا ذریعہ

نعمتوں کے گہرے احساس اورصحیح استعمال ہی سے شکرادا ہوتا ہے

بنت الاسلام

شکر کی تین اقسام ہیں:ایک قلبی شکر ، دوسرا قولی شکر اور تیسرا عملی شکر۔
قلبی شکر یہ ہے کہ دل میں اس منعم حقیقی کے بے پایاں انعامات کا احساس گہرا رہے، یہ زندگی اور زندگی کے سارے لوازمات جو اس نے محض اپنی رحمت و رافت کے باعث ہمیں عطا فرمائے اور وہ بے شمار مہلکات جن سے وہ ہمیں بچائے رکھتا ہے اور انہیں معاف بھی فرماتا ہے، اس کی ان سب عنایات کا دل میں گہرا احساس ہونا قلبی شکر ہے۔
اس قلبی شکر کے ساتھ زبان سے شکر کے کلمات ادا کرنے بھی ضروری ہیں۔ دل کے جن جذبات کو ہم زبان سے بھی ادا کرتے رہیں، وہ دل میں زیادہ گہرے ہوتے ہیں!
عملی شکر میں پہلی بات یہ آتی ہے کہ جو نعمتیں اس منعم حقیقی نے عطا کی ہیں، وہ ٹھیک انہیں راہوں میں صرف ہوں جنہیں وہ پسند فرماتا ہے۔ مثلاً خدا نے اگر دولت دی ہے اور وہ جائز اور خدا کی رضا حاصل کرنے والے کاموں پر صرف ہورہی ہے تو یہ اس نعمت کا عملی شکر ہے۔ اسی طرح دل دماغ، آنکھیں اور دوسری قوتیں اور صلاحیتیں جو اس نے عطا کی ہیں، اگر اس کی اطاعت اور تابعداری کی راہوں پر صرف ہورہی ہیں تو یہ ان صلاحیتوں کی عملی شکر گزاری ہے۔
عملی شکر گزاری کی دوسری شکل یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا کی ہیں، ان میں ان محتاج اور مستحق انسانوں کو شامل کیا جائے جنہیں کسی وجہ سے اس نے وہ نعمتیں عطا نہیں کیں۔ مثلاً خدا نے دولت کی نعمت دی تو غریبوں کی امداد کی جائے۔ صحت کی نعمت دی تو بیماروں کی تیمار داری کی جائے۔ علم کی نعمت دی تو بے علموں کی رہنمائی کی جائے۔ وغیرہ۔
ایک شکر گزار انسان کے لیے شکر کی ان تینوں قسموں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یعنی دل بھی شکر سے معمور اور زبان بھی شکر سے تر رہے اور عمل پر بھی شکر گہرے طور پر اثر انداز ہے۔
جذبہ شکر پیدا کرنے کے ذرائع
رسول مقبول ﷺ نے مسلمانوں کے لیے شاکر بننا جس قدر ضروری سمجھا وہ آپؐ کے پاک اسوہ اور آپؐ کے ارشادات سے واضح ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی آپؐ نے جذبہ شکر پیدا کرنے کا ذریعہ بھی بتادیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے سے اوپر والے کو دیکھنے کے بجائے اپنے سے نیچے والے کو دیکھے تو اس کے دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ میرے پاس جوتا نہ تھا اور نہ جوتا خریدنے کے لیے پیسے تھے۔ میں سخت دل تنگ ہوکر مسجد میں جا بیٹھا تو وہاں ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے سرے سے پاوں ہی نہ تھے۔ اس سے میرے دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوا کہ چلو، اگر جوتا نہیں تو نہ سہی، میرے پاوں تو سلامت ہیں۔
جذبہ شکر پیدا کرنے کا ایک اور ذریعہ یہ ہے کہ جو نعمتیں حاصل ہوں، دل میں ان کا گہرا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ کوئی غریب آدمی کسی شخص کے پاس گیا اور اپنے افلاس کا بہت زیادہ رونا رویا کہ بالکل ہی تہی دست ہوں۔ اس شخص نے کہا کہ میں تمہیں ایک لاکھ روپیہ دوں گا بشرطیکہ تم اپنا ایک پاوں کاٹ کر مجھے دے دو۔ سوالی یہ سن کر سخت ناراض ہوا اور صاف جواب دے دیا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس شخص نے کہا ’’چلو دوست پاوں نہ سہی، ایک ہاتھ ہی کاٹ دو۔ تم دوسرے ہاتھ سے بہت سے کام کرسکتے ہو۔ مانگنے والے نے یہ بات بھی نہ مانی۔ اس شخص نے کہا ’اچھا ایک ہاتھ نہ سہی ایک آنکھ ہی نکال دو۔ اس سے تو تمہیں کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ ایک آنکھ سے بھی تم دنیا کے کام کاج کرسکتے ہو، سوالی نے جواب دیا کہ ہرگز نہیں آنکھ بھی نہیں دے سکتا۔ اس شخص نے کہا اچھا اب میں تم سے آخری بات کرتا ہوں، اور وہ یہ کہ تم مجھے اپنا کان کاٹ کر دے دو۔ اس سے تو قعطی کوئی حرج واقع نہیں ہوگا۔ اوپر کان کٹ بھی جائیں تو بھی تم سب باتیں برابر سنتے رہو گے۔ سوالی بگڑ کر بولا: ایسے بھی میں نہیں کروں گا۔
اس شخص نے کہا : ’’میاں ! پھر ذرا غور کرو کہ اتنے لاکھوں کا مال تمہارے پاس ہے اس کے باوجود تم روتے ہو کہ میں مفلس ہوں۔ اب تمہارا ہر عضو جو میں نے ایک ایک لاکھ روپے کے عوض مانگا تھا، لاکھ سے زیادہ قیمتی تھا۔ تبھی تو تم نے مجھے دینا منظور نہیں کیا۔ اب بتاو تم مفلس ہو یا لکھ پتی!
پھر اس عقل مند انسان نے اس مفلسی کا رونا رونے والے کو سمجھایا کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے بنیادی دولتیں عطا کر رکھی ہوں وہ فی الحقیقت دولت مند ہی ہوتا ہے۔ اس کی اس حالت میں، جس میں اس کے پاس روپے پیسے ریل پیل ہو اور اس حالت میں جس میں اس کے پاس روپے کی کمی ہو، بس اتنا ہی فرق ہے کہ ایک انسان کے پاس ایک لاکھ روپیہ ہے اور دوسرے کے پاس ایک لاکھ روپیہ اور ایک آنہ۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جس کے پاس ایک لاکھ روپیہ اور ایک آنہ ہو۔ وہ ایک لاکھ روپیہ رکھنے والے سے زیادہ امیر ہے؟ بنیادی دولتوں کی موجودگی میں دنیاوی دولتوں کا ہونا در حقیقت ایک آنے ہی کا فرق ڈالتا ہے۔
ایک مقامی اسکول کی بارہ تیرہ سالہ بچی اسکول میں اپنی ہم جولیوں کے پاس بیٹھی باتیں کررہی تھی۔ باتوں باتوں میں وہ کہنے لگی کہ میرے دل میں بڑی حسرت ہے کہ میں کبھی اسکول سے گھر دیر کرکے جاوں تو گھر میں مجھے کوئی ڈانٹے اور مارے اور کہے کہ خالدہ! تم دیر کرکے کیوں آئی ہو۔ میں جلدی گھر چلی جاوں یا دیر کرکے جاوں مجھے کوئی نہیں جھڑکتا۔ کاش مجھے کوئی جھڑکنے والا ہوتا۔
بات یہ تھی کہ بچی کی ماں فوت ہوچکی تھی۔ باپ اپنے کام سے دیر سے واپس آتا تھا اس لیے اگر وہ دیر سے بھی گھر جاتی تھی تو گھر میں کوئی تھا ہی نہیں جو اسے ٹوکتا۔ یہ روک ٹوک اس کی ایک حسرت بن کر رہ گئی تھی۔
اب ذرا خیال کریں کہ کتنے بے شمار نوجوان بچے اور بچیاں ہیں جن کے گھروں میں روکنے ٹوکنے والے ماں باپ موجود ہیں، مگر انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ روک ٹوک جو ہم پر کی جاتی ہے، یہ کوئی نعمت ہے اور جنہیں حاصل نہیں ہوتی ان کے لیے یہی شے حسرت بن جاتی ہے۔
حضرت رابعہ بصریہؒ کے متعلق ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک دن ایک شخص کے سر میں درد تھا۔ وہ سر کو پٹی باندھ کر ہائے وائے کرتا ان کے پاس پہنچا کہ دعا کیجیے، بڑا سخت درد ہورہا ہے۔ حضرت رابعہ بصریہ نے فرمایا ’اے شخص ! اتنی دیر خدا نے تمہیں صحت دے رکھی، کبھی شکر کی پٹی باندھی تھیجو آج ذرا سر کو درد ہوا تو نا شکری کی پٹی باندھ کر آگئے ہو!‘‘
ایک خاتون کو دانت کے درد کی تکلیف تھی، تکلیف کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ لیٹنا ممکن نہ تھا۔ اگر درد تھما ہوتا تو لیٹتے ہی شدید ہوجاتا، پوری پوری رات ان کی بیٹھے بیٹھے گزر جاتی انہوں نے بیان کیا کہ زندگی میں پہلی دفعہ مجھے شدید طور پر یہ احساس ہوا کہ یہ جو ہم دن بھر کا کام کرکے رات کو مزے سے بستر پر لیٹ جاتے ہیں، یہ بھی خدا کی نعمت ہے۔ زمانہ جنگ میں جب ایک ایک رات کے دوران میں کئی کئی بار خطرے کا سائرن ہوتا ہو اور لوگوں کو بستروں سے اٹھ اٹھ کر پناہ گاہوں میں جانا پڑتا ہو، تو خیال کیجیے کہ وہ رات کی نیند بھی کتنی بڑی نعمت ہے جو آپ پہلے پہر شروع کرتے ہیں اور آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ انشا اللہ صبح تک سوتے رہیں گے۔
غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے چاروں طرف اپنے انعامات اس کثرت سے بکھیرے ہوئے ہیں کہ ایک دیکھنے والی آنکھ اور احساس کرنے والا دل کبھی شکر گزاری کے جذبے سے معمور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جذبہ شکر کے پیدا کرنے کا ایک اور ذریعہ، قناعت ہے۔ قناعت کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ انسان روزی کی فراخی کے لیے کوشش نہ کرے بلکہ قناعت سے یہ مراد ہے کہ ٹھیک ٹھیک حلال ذرائع سے جتنا مل جائے اس پر خوش و خرم اور شکر گزار رہا جائے اور حرام ذرائع کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص زیادہ کی حرص میں گرفتار نہیں ہوگا، اسے جتنا بھی اللہ تعالیٰ پاک ذرائع سے دے گا، اس پر شکر گزار رہنا اس کے لیے زیادہ آسان ہوگا۔
آخر میں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اپنے بندے کے لیے شکر گزار رہنے کو اتنا پسند فرمایا ہے اور حضورﷺ نے جو مسلمانوں کو ایک عبد شکور (بہت زیادہ شکر کرنے والا بندہ) بن کر دکھایا اور ان کے لیے بھی شکر گزار بندہ بننے کو پسند فرمایا ہے، تو یہ اس لیے کہ شکر گزار بنے رہنے میں خود انسان ہی کا فائدہ ہے، جس انسان کو اپنے مولا کی بخشی ہوئی نعمتوں کا احساس رہے، اس کے دل میں امن، سکون اور خوشی اس شخص کے دل کی بہ نسبت بہت زیادہ ہوگی جسے ان نعمتوں کا احساس نہ ہوگا۔ حالاں کہ ہوسکتا ہے کہ درحقیقت یہ نعتمیں اس ناشکرے کے پاس شکر گزار بننے کی بہ نسبت زیادہ ہوں۔ دل کی یہ خوشی اور سکون بہت بڑی دولت ہے اور دنیاوی دولتیں سمیٹنے سے بھی لوگوں کا اصل مقصود یہ دل کی خوشی حاصل کرنا ہی ہوتا ہے، اگر چہ وہ یہ نکتہ نہیں سمجھتے ہیں کہ دنیا کے ساز و سامان کی حرص در حقیقت دل کو خوشی سے محروم کیے رہتی اور ایک مستقبل بے چینی میں مبتلا کیے رکھتی ہے۔
پھر اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے نعمتوں میں زیادتی ہوتی ہے جیسا کہ سورہ ابراہیم کی مندرجہ بالا آیت میں بیان ہوچکا ہے۔
اللہ رب العالمین کو نہ تو ہمارے شکر کی حاجت ہے اور نہ ہمارے کفران نعمت سے اسے نعوذ باللہ کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے یہ تو ہمارا پنا فائدہ ہے جس کے باعث شکر گزار رہنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
سورہ النمل آیت نمبر 40میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّىْ ۗ لِيَبْلُوَنِىْۤءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُ ۗ وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّىْ غَنِىٌّ كَرِيْمٌ۔
جوں ہی کہ سلیمانؑ نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، وہ پکار اٹھا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کافر نعمت بن جاتا ہوں اور جو کوئی شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے۔ ورنہ کوئی نا شکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ بزرگ ہے)
حضرت صدیق اکبر ؓ نے ارشاد فرمایا ہے جو مومن شکر گزار ہوتا ہے وہ عافیت سے بہت نزدیک ہوتا ہے۔
حب الٰہی کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ محبوب کی طرف سے جو انعام واکرام عطا ہو، دل ان کے احساس سے معمور اور زبان ان کے اظہار میں مصروف رہے۔
(کتاب’حبِّ الہٰی‘ سے ماخوذ)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  31 جولائی تا 07 اگست 2022