بنت الاسلام
بارش ابھی ابھی برس کر تھمی تھی۔ سڑک کے کناروں پر کیچڑ تھا۔ ایک غریب سی عورت میلے کچیلے کپڑے پہنے، موٹی سی پھٹی ہوئی چادر کی بکل مارے گزر رہی تھی۔ اس کے پاوں میں ٹوٹی ہوئی جوتی تھی اور اجڑے اجڑے بال پھٹی ہوئی چادر میں سے باہر جھانک رہے تھے، ماتھے پر پریشانیوں کی لکیریں اور چہرے پر فلاکت! معاً اس کا پاوں رپٹا اور وہ دھڑام سے کیچڑ میں گری۔ اس کی ہیئت ایسی تھی کہ ضبط کے باوجود ہنسی نکل گئی۔
جس کھڑکی میں ہم کھڑے تھے وہ دوسری منزل پر واقع تھی اور جس گھر کی یہ کھڑکی تھی وہ سڑک کے اوپر واقع تھا۔ غریب عورت کے چاروں شانے چت گرنے پر میری سہیلی کے چہرے پر ایسی ندامت اور شرمندگی کے آثار پیدا ہوئے گویا وہ عورت نہیں بلکہ وہ خود بھرے بازار میں گرگئی ہو۔ میرے ہنسنے پر اس نے ملامت آمیز نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بگڑ کر بولی:
’’یہ خوب رہی۔ میں اس طرح گرگئی ہوں اور تم کھڑی ہنس رہی ہو!‘‘
یہ بات اس نے کچھ اس انداز سے کہی کہ ایک لمحے کے لیے میرے دل میں وہم سا گزرا کہ کہیں اس کے حواس پر تو کوئی اثر نہیں ہوچکا۔
’’ہوش کی دعا کرو ۔ ‘‘ میں نے کہا ’’تم کب گری ہو۔ وہ تو کوئی راستہ چلنے والی عورت گری ہے، تم تو یہاں آرام سے کھڑی ہو!‘‘
اتنی دیر میں وہ سنبھل چکی تھی۔ وہ کھسیانی سی ہنسی ہنستے ہوئے بولی: ’’واقعی دیکھو نا میری عقل ۔ گری تو وہ عورت ہے اور میں کہہ رہی ہوں کہ میں گری ہوں!‘‘ اور پھر اس نے جلدی سے بات کا رخ بدل دیا۔
چند دن اور گزرگئے۔ ایک دن پھر میں اس سے ملنے گئی ہوئی تھی ۔ پھر ہم اس کھڑکی میں کھڑے ہوکر باہر سڑک کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک فلاکت زدہ عورت سڑک پر سے گزری۔ کوئی ۵۰ کے قریب سن۔ چہرہ جھریوں سے بھرا ہوا۔ کپڑے جگہ جگہ سے پیوند لگے۔ سر پر بدرنگ پھٹی ہوئی چادر، عصرکا وقت تھا وہ بازار سے کچھ پکانے کی اشیا لے کر آرہی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں مٹی کی کلیا تھی جس میں تھوڑا سا سرسوں کا تیل تھا اور اس نے سرپر ایک پٹلیا رکھی ہوئی تھی جس میں کوئی سبزی بندھی تھی۔
میری سہیلی عجب بے ساختہ پن سے ہنسنے لگی۔
’’اے ذرا مجھے دیکھنا تو‘‘ اس نے مجھے ٹھونکا دیتے ہوئے کہا: ’’دیکھنا تو کہ میں کیسے ہاتھ میں تیل کا کلیا پکڑے اور سر پر سبزی کی پٹلیا رکھے آرہی ہوں !‘‘
میرے دل پر وحشت طاری ہوگئی ، میں نے ہراساں سا ہوکر اس کا ہاتھ پکڑلیا۔
’’خدا کے لیے سلیمہ مجھے بتاو کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تمہارے حواس تو ٹھیک ہیں نا۔ یہ کیا بات ہے کہ تم ہر میلے کپڑوں والی ، اجڑے بالوں والی، فلاکت زدہ، پریشان حال عورت کے لیے لفظ ’’میں‘‘ استعمال کرنے لگتی ہو۔ یہ ہاتھ میں تیل کی کلیا پکڑ کر اور سرپر سبزی کی پٹلیا رکھ کر جانے والی عورت تم تو نہیں، کوئی اور ہے۔ تم تو یہاں کھڑی ہو!‘‘
اس نے پھر اپنےآپ کو سنبھال لیا اور اسی طرح کھسیانی ہنسی ہنس کر بات کو ٹالنے لگی۔ گر اس دفعہ میں نے اس بات کو ٹالنے نہ دیا اور بری طرح اس کے پیچھے پڑگئی کہ وہ مجھے ان بے ربط باتوں کا مطلب بتائے۔ وہ عاجز آکر کہنے لگی:
’’اصل میں بات یہ ہے کہ جب میں راستے میں کسی ایسی عورت کو چلتے دیکھتی ہوں جس کے جسم پر پورے کپڑے اور پاوں میں پوری جوتی نہیں ہوتی، چہرے پر فلاکت اور بد قسمتی کے آثار ہوتے ہیں، طرز عمل اور حالت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم اور آسائش سے کوسوں دور ہے، تو میرے دل میں بے اختیار یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں اصل میں یہ تھی۔ میرے پاس کپڑے بھی نہیں تھے، میں انتہائی غریب تھی، میں نے ایک لفظ بھی نہیں پڑھا ہوا تھا ، میں جاہل مطلق اور شائستگی سے کوسوں دور تھی۔ میں یہ سب کچھ تھی تو پھر دیکھو کہ میرے مالک نے مجھ پر کتنا کرم کیا کہ مجھے اچھا لباس بھی دیا اور مجھے علم کی دولت بھی۔ مجھے گھر بھی اچھا رہنے کے لیے یا اور مجھے ہر طرح کا آرام و آسائش بھی دیا۔ یہ سب کچھ اس نے اپنی مہربانی سے مجھے عنایت کردیا۔ حالاں کہ در حقیقت میں تو وہ غریب عورت تھی جو اپنے اجڑے بالوں کو میلی چادر میں چھپائے، اپنی ٹوٹی ہوئی جوتیوں کو گھسیٹتے کھڑ کھڑ کرتی سڑک پر چلی جارہی ہے!‘‘
اس کی بات سن کر میرے دل پر رعب سا طاری ہوگیا۔ اس ناتجربہ کار لڑکی کو کیسے پتے کی بات معلوم ہوگئی جو بڑے بڑے تجربہ کاروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے یہ کہنے سے کہ ’’درحقیقت میں وہ لڑکی تھی جو کھڑ کھڑ سڑک پر چلی جارہی ہے‘‘۔ اس کی مراد یہ تھی کہ خدا مجھے یہ بھی بناسکتا تھا مگر اس نے مجھے ویسا نہیں بنایا ہے بلکہ ایسا بنایا ہے جیسی کہ میں نظر آرہی ہوں۔
اس نے اپنے طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بات دراصل یہ ہے کہ ہر ان پڑھ، فلاکت زدہ اور محرومیوں میں گھری ہوئی عورت کے بارے میں بار بار یہ سوچنے کے باعث کہ میں یہ بھی ہوسکتی تھی ، اب مجھ پر کچھ ایسا اثر ہوگیا ہے کہ بعض اوقات کسی ایسی عورت کو دیکھ کر مجھے غیر ارادی طور پر یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ میں ہی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ چند بار میں تمہارے سامنے ایسی بات کر گئی ہوں جس سے تم نے یہ سمجھا کہ شاید میں حواس کھو بیٹھی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اتنی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں کہ اگر ہم ان کا صحیح احساس پیدا ہوجائے تو ہمارا ہر بُنِ مو شکر ادا کرتا رہے۔ مگر چوں کہ یہ نعمتیں ہمیں بکثرت ملی ہوئی ہیں، اس لیے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں منعم حقیقی نے اتنے انعامات سے نوازا ہے۔
انسان سے تعلق رکھنے والی جن صفات کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ پسند فرمایا ہے ان میں ایک شکر بھی ہے۔ سورہ نسا آیت نمبر ۱۴۷ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
(آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو، اللہ بڑا قدر داں اور سب کے حال سے واقف ہے)
شکر کے اصل معنی اعتراف نعمت یا احسان مندی کے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کےساتھ احسان فراموشی اور نمک حرامی کا رویہ اختیار نہ کرو بلکہ صحیح طور پر اس کے احسان مند بن کر رہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ تمہیں سزا دے۔
سورہ ابراہیم آیت نمبر میں ارشاد ہوا ہے:
(اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کردیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے)
اس آیت میں بھی شکر کرنے کی فضیلت اور ناشکری کا نقصان واضح کیا گیا ہے
سورہ نحل آیت نمبر ۱۴ میں ارشاد ہوا ہے
(وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے تر و تازہ گوشت لے کر کھاو اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی ہوئی چلتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ تم اپے رب کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو!)
حضور رسول مقبولﷺ خود اللہ تعالیٰ کے انتہائی شکر گزار بندے تھے اور آپﷺ نے اپنی امت کے لیے بھی اسی شے کو پسند کیا کہ وہ شکر گزار بنے رہیں۔
حضرت صہیب ؓسے راویت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ:
’’بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہرمعاملے اور ہر حال میں اس کے لے خیر ہی خیر ہے۔ اگراسے خوشی و راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنےرب کا شکر ادا کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور یہ صبر بھی اس کے لیے سراپا خیر اور موجب برکت ہوتا ہے!‘‘ (مسلم)
ایسے ہی حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے جو کھاتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے!‘‘ (مسلم)
***
***
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اتنی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں کہ اگر ہم ان کا صحیح احساس پیدا ہوجائے تو ہمارا ہر بُنِ مو شکر ادا کرتا رہے۔ مگر چوں کہ یہ نعمتیں ہمیں بکثرت ملی ہوئی ہیں، اس لیے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں منعم حقیقی نے اتنے انعامات سے نوازا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 اکتوبر تا 09 اکتوبر 2021