شادی کی مسرفانہ رسوم

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی

 

نکاح ایک سماجی عمل ہے۔ نسلِ انسانی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ مرد اور عورت کی یکجائی سے خاندان وجود میں آئے۔ ان کے درمیان جنسی اتصال سے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری رہے، دونوں مل کر صحیح خطوط پر اولاد کی پرورش و پرداخت کریں اور اسے زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھائیں۔ اس طرح تمدن کی ترقی ہو اور صالح معاشرہ وجود میں آئے۔ نکاح انسانوں کی بنیادی ضرورت اور فطری تقاضا ہے۔ جس طرح بھوک مٹانے کے لیے کھانا پینا، تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے پہننا اور رہائش اختیار کرنے کے لیے گھر بنانا ہر انسان کا فطری داعیہ ہے، اسی طرح بلوغ کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد نکاح کرنا بھی انسانی زندگی کا لازمہ ہے۔ تاریخ میں ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب رہبانیت یعنی جنسی تعلق سے اجتناب کو انسانیت کی معراج اور اس کی نجات و فلاح کا ذریعہ قرار دیا گیا اور انسانیت کو وہ دن بھی دیکھنا پڑا جب اباحیت اور جنسی آزادی کی وکالت کی گئی، یا بغیر نکاح کے مرد و عورت کے ایک ساتھ رہنے اور جنسی خواہش پوری کر لینے کے فوائد گنائے جانے لگے، لیکن انسانوں کی اکثریت نے اسے کبھی تسلیم نہیں کیا اور ان کے درمیان نکاح کو ایک مستقل ادارہ (Institution) کی حیثیت حاصل رہی۔
اسلام نے نکاح کو محض ایک سماجی ضرورت کی حیثیت نہیں دی، بلکہ اسے عبادت کا درجہ دیا ہے۔ اس کے نزدیک اس سے صرف جسمانی تسکین اور نفسانی خواہش کی تکمیل ہی نہیں ہوتی، بلکہ انسان اللہ تعالیٰ کی خوش نودی سے بھی بہرہ ور ہوتا ہے۔ نکاح کو وہ عفت و پاک دامنی کے حصول کا یقینی ذریعہ اور بے حیائی و بے راہ روی پر روک لگانے کا مؤثر ہتھیار قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسو ل ﷺنے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے نوجوانو کے گروہ! تم میں سے جو نکاح کے مصارف برداشت کر سکتا اور اس کی ذمے داریاں اٹھا سکتا ہو اسے ضرور نکاح کر لینا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ نگاہوں کی پاکیزگی اور شرم گاہ کی حفاظت میں بہت کارگر ہے۔ (بخاری:1905، مسلم:1400)اسلام کی روٗ سے انسان نکاح کرکے دین کے اہم مطالبات پر عمل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا نصف ایمان مکمل کر لیتا ہے۔‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان: 5486)
اسلام کے نزدیک نکاح کو رواج دینا اور اس کے لیے سہولیات فراہم کرنا پورے سماج کی ذمے داری ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سماج کا کوئی بھی فرد چاہے مرد ہو یا عورت، اگر اسے نکاح کی ضرورت ہو اور وہ اس کی خواہش رکھتا ہو توجلد از جلد اس کی ضرورت پوری کی جائے اور اس راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے: ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کرادو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے۔‘‘ (النور: 23)
اس آیت میں ’ایامیٰ‘ کا لفظ آیا ہے، جس کا واحد ’ایّم‘ ہے۔ اس کا اطلاق ہر اس مرد یا عورت پر ہوتا ہے جو بغیر جوڑے کے ہو۔ کوئی نوجوان، جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو، کوئی مرد جس کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہو، یا اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہو، یا بیوی نے خلع کے ذریعے اس سے علیٰحدگی حاصل کرلی ہو،کوئی لڑکی جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہو، کوئی عورت جو مطلقہ ہو یا بیوہ ہوگئی ہو، سب اس میں شامل ہیں۔ قرآن ان سب کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ انھیں بے جوڑے کے نہ رہنے دیا جائے، بلکہ ان کے نکاح کا انتظام کیا جائے۔ زمانہ ٔ نزول ِ قرآن میں غلام اور لونڈیاں بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھے، ان سے جانوروں کی طرح کام لیا جاتا تھا اور ان کے فطرتی انسانی تقاضوں سے غفلت برتی جاتی تھی۔ ان کے بارے میں بھی حکم دیا گیا کہ ان میں سے جن کے بارے میں توقع ہو کہ وہ نکاح کا بار اٹھا سکتے ہیں اور اس کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں، انھیں نکاح کے بندھن میں باندھ دیا جائے۔
خانگی زندگی مصارف کا تقاضا کرتی ہے، نکاح کے بعد بیوی کا نان و نفقہ، رہائش کے انتظامات، بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی پرورش کے اخراجات کا انتظام شوہر کے ذمے ہوتا ہے۔ اس بنا پر لڑکوں یا ان کے سرپرستوں کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ جب تک انھیں مالی آسودگی نہ ہوجائے ،وہ کمانے نہ لگیں، یا اچھی ملازمت نہ مل جائے اس وقت تک نکاح نہ کریں۔ اسی طرح لڑکیوں کے سرپرست سوچ سکتے ہیں کہ جب تک کسی دولت مند گھرانے سے رشتہ نہ آئے وہ انھیں بٹھائے رکھیں اور ان کا نکاح نہ کریں۔ اس لیے تنبیہ کی گئی کہ مالی آسودگی کے انتظارمیں نکاح میں تاخیر نہ کی جائے، بلکہ وقت آجانے پر جلد نکاح سے فارغ ہوجائیں۔
اسلام میں نکاح کو بہت آسان طریقے سے اور سادگی کے ساتھ انجام دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’بہترین نکاح وہ ہے جو بہت آسانی سے انجام پائے۔‘‘ (صحیح الجامع:3300) آپؐ نے تلقین و ترغیب کے ساتھ ایسے عملی اقدامات بھی کیے جن سے آسان نکاح کو فروغ ملا۔ کتبِ حدیث و سیرت میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن میں آپؐ نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا بہت سادگی سے نکاح کرادیا۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ آپؐ ایک مجلس میں موجود تھے۔ ایک عورت آئی اور اس نے نکاح کی خواہش ظاہر کی۔ اس مجلس میں موجود ایک نوجوان نے رضا مندی کا اظہار کیا کہ میں اس سے نکاح کر سکتا ہوں۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’تمہارے پاس مہر دینے کے لیے کچھ ہے؟ انھوں نے جواب دیا: کچھ نہیں ہے۔اس کے باوجود آپؐ نے دونوں کا نکاح کر دیا اور نوجوان سے فرمایا: تمھیں جو قرآن یاد ہے وہ اسے بھی یاد کرادو۔ یہی اس کا مہر ہے۔ (بخاری:5030، مسلم: 1425)
اسلام میں نکاح کے انعقاد کو بہت آسان رکھا گیا ہے۔ دو گواہوں کی موجودگی میں کسی ایک طرف سے ایجاب یعنی نکاح کی پیش کش ہو اور دوسرا اسے قبول کرلے، بس نکاح ہوگیا۔ مہر عورت کی عزت افزائی کا اظہار ہے۔ اس لیے نکاح کے موقع پر مہر طے کرنے اور اسی وقت یا جلد از جلد ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے لیکن بہت زیادہ مہر طے کرنے کو پسند نہیں کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! خبردار! عورتوں کے مہر بہت زیادہ نہ باندھو، اس لیے کہ اگر مہر کی زیادتی کسی دنیاوی یا دینی فضیلت کی بات ہوتی تو نبی ﷺ ایسا ضرور کرتے، جب کہ آپؐ کی بیویوں اور آپؐ کی بیٹیوں میں سے کسی کا مہر بارہ (12) اوقیہ سے زیادہ نہ تھا۔ (ابو داؤد: 2106، ترمذی:1114) نکاح کے بعد ولیمہ خوشی کا اظہار ہے۔ اسے مسنون کہا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے خود بھی اپنے ہر نکاح کے بعد ولیمہ کیا ہے اور اپنے اصحاب کو بھی اس کی ترغیب دی ہے، لیکن اس میں فضول خرچی، نام ونمود اور دکھاوے سے منع کیا گیا ہے۔ آپؐ کے بعض نکاح ایسے ہوئے کہ صحابہ اپنے اپنے گھر سے کھانے کی چیزیں لے آئے، انھیں اجتماعی طور پر بیٹھ کر کھا لیا گیا، بس ولیمہ ہوگیا۔
ایک طرف نکاح کو سادہ بنانے اور آسانی سے منعقد کرنے کی یہ تعلیمات ہیں، دوسری طرف مسلم معاشرہ میں اسے بہت مشکل بنا دیا گیا ہے اور اتنی مسرفانہ رسوم اس سے جوڑ دی گئی ہیں کہ ایک غریب اور متوسط آمدنی والا شخص جلد اس کی ہمّت نہیں کر پاتا۔ لڑکی کی پیدائش پر اس کا دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اس لیے کہ اسی وقت سے اسے اس کے لیے جہیز اکٹھا کرنے کی فکر ستانے لگتی ہے۔ جہیز سراسر ہندوانہ رسم ہے، اس لیے کہ ہندو مذہب میں لڑکیوں کو وراثت کا مستحق نہیں قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے شادی کے وقت ہی انھیں کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔ یہی چیز مسلم سماج میں بھی در آئی ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی عورتوں(لڑکیوں اور بہنوں)کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا، اس کے بجائے جہیز کا لین دین بڑے پیمانے پر ہونے لگا ہے۔ منگنی کی رسم بہت دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔ اس موقع پر بھی خوب لین دین ہوتاہے اور دعوتیں کی جاتی ہیں۔ اسے ’چھوٹی شادی‘ کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ حالاں کہ اسلامی نقطۂ نظر سے منگنی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ شادی دھوم دھام سے کرنے کے لیے ضروری سمجھ لیا گیا ہے کہ دولہا کے ساتھ بارات ہو۔ چنانچہ سینکڑوں کی تعداد میں باراتی جلوس کی شکل میں لڑکی کے گھر جاتے ہیںاور لڑکی کے گھر والے ان کی ضیافت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اگر ان کی ضیافت میں ذرا بھی کوتاہی ہوجائے اور پکوانوں کے آئٹمس کچھ کم رہ جائیں تو سخت ناگواری کا اظہار کرتے ہیں، یہاں تک کہ بسا اوقات نوبت رشتہ ختم ہونے تک پہنچ جاتی ہے۔
شادی کی ان مسرفانہ رسوم نے مسلم سماج میں بھی نکاح کو مشکل بنا دیا ہے۔ اس بنا پر بہت سی لڑکیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کے نکاح نہیں ہوپاتے۔ اس چیز نے مسلم معاشرہ میں برائی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ مایوسی کا شکار ہوکر بعض لڑکیاں یا ان کے سرپرست خود کشی تک کر بیٹھتے ہیں۔ بہت سی لڑکیاں ارتداد کی راہ پر چل پڑتی ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے واے لڑکے ان کے رابطے میں آتے ہیں تو ان سے شادی کر لیتی ہیں۔
خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا ایک منصب یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’آپؐ لوگوں سے وہ بوجھ اتارتے ہیں جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتے ہیں جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔‘‘( الاعراف:157) افسوس کہ مسلم سماج نے اپنی مرضی اور پسندسے نکاح کے سلسلے میں بہت سے بوجھ اپنے اوپر لاد لیے ہیں اور بہت سی بندشوں میں خود کو جکڑ رکھا ہے۔ ضرورت ہے کہ ملّت کے باشعور اور سنجیدہ لوگ آگے بڑھیں اور ملّت کو ان مسرفانہ رسوم سے نجات دلانے کی کوشش کریں۔ll

اسلام کے نزدیک نکاح کو رواج دینا اور اس کے لیے سہولیات فراہم کرنا پورے سماج کی ذمے داری ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سماج کا کوئی بھی فرد چاہے مرد ہو یا عورت، اگر اسے نکاح کی ضرورت ہو اور وہ اس کی خواہش رکھتا ہو توجلد از جلد اس کی ضرورت پوری کی جائے اور اس راہ کی تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 14 فروری تا 20 فروری 2021