سیرت صحابیات سیریز(۲۴)

حضرت فاطمہ بنت قیسؓ

صائب الرائے صحابیہ جن کے گھر پر مجلس شوری کے اجلاس ہوا کرتے تھے
فاطمہ نام۔ نسب نامہ اس طرح ہے۔ فاطمہ بنت قیس بن خالد اکبر بن وہب بن ثعلبہ بن وائلہ بن عمرو بن شیبان بن محارب بن فہرؓ۔
والدہ کا نام امیمہ ربیعہ تھا، جو بنی کنانہ سے تھیں۔ ابو عمر و حفص بن مغیرہؓ سے نکاح ہوا۔ دعوت حق کی ابتدا ہی میں شرف اسلام سے بہرہ ور ہوگئیں اور ہجرت کے دور اول میں دوسری خواتین کے ہم راہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
۱۰ ہجری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سرور عالم ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں ایک لشکر لے کر عازم یمن ہوئے۔ اس لشکر میں حضرت فاطمہؓ کے شوہر ابو عمرو حفصؓ بھی شامل تھے۔ روانگی سے پہلے انہوں نے حضرت فاطمہؓ کو طلاق دے دی وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپؐ نے فرمایا: تم عدت کا زمانہ ام شریک ؓ کے ہاں گزارو۔‘‘۔
لیکن حضرت ام شریکؓ کے گھر ان کے اعزہ و اقرب کے علاوہ دوسرے مہمان بھی بہ کثرت آتے تھے اس لیے آپؐ نے اپنے حکم میں ترمیم فرماکر حضرت فاطمہ ؓ کو مشورہ دیا کہ تم عدت کا زمانہ اپنے ابن عم ابن ام مکتومؓ کے ہاں گزارو۔ انہوں نے تعمیل ارشاد کی۔ جب عدت کا زمانہ پورا ہوگیا توحضرت معاویہ بن ابو سفیانؓ ، حضرت ابو جہمؓ اور حضرت اسامہ بن زیدؓ نے حضرت فاطمہؓ سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت فاطمہؓ کا خیال تھا کہ سرور عالم ﷺ خود انہیں شرف ازدواج بخشیں گے لیکن مصلحت خدا وندی اس میں نہ تھی۔ چناں چہ جب حضرت فاطمہؓ نے اپنے نکاح ثانی کے بارے میں حضور ﷺ سے مشورہ کیا تو آپؐ نے فرمایا’’معاویہؓ مفلس ہے، ابو جہمؓ سخت مزاج ہے۔ تم اسامہ بن زیدؓ سے نکاح کرلو‘‘۔
حضرت فاطمہؓ کچھ متامل ہوئیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا تمہیں کیوں عذر ہے۔ اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے‘‘۔
اس پر حضرت فاطمہؓ نے حضورؐ کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت اسامہ بن زیدؓ سے نکاح کرلیا۔ وہ بڑے جلیل القدر صحابیؓ تھے اور حضورؐ نہیں اس قدر عزیز رکھتے تھے کہ وہ حب النبیؐ (نبی ﷺ کے محبوب) کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے صحیح مسلم میں حضرت فاطمہؓ سے روایت ہے کہ اسامہ بن زیدؓ سے نکاح کے بعد میں لوگوں کے نزدیک قابل رشک بن گئی۔
۲۴ھ میں حضرت عمر فاروقؓ نے شہادت پائی تو مجلس شوریٰ کے اجتماع حضرت فاطمہ بنت قیسؓ کے مکان ہی میں ہوتے تھے چوں کہ وہ نہایت زیرک، معاملہ فہم اور صائب الرائے خاتون تھیں اس لیے مجلس شوریٰ کے اراکین ان سے مشورہ لینا بھی مناسب سمجھتے تھے۔
۵۴ ہجری میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے وفات پائی تو حضرت فاطمہؓ کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس کے بعد انہوں نے تا زندگی دوسرا نکاح نہیں کیا اور اپنے بھائی ضحاک بن قیس کے پاس رہنے لگیں۔ یزید بن معاویہؓ نے جب انہیں عراق کا گورنر مقرر کیا تو ان کے پاس کوفہ چلی گئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
صحیح مسلم میں حضرت فاطمہؓ سے متعلق ایک خاص واقعہ بیان کیاگیا ہے۔ وہ یہ کہ مروان بن الحکم کے عہد حکومت میں حضرت سعید بن زیدؓ کی صاحب زادی کو ان کے شوہر عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے طلاق دے دی۔ حضرت فاطمہؓ رشتے میں ان کی خالہ ہوتی تھیں اس لیے انہوں نے بہ مقتضائے ہم دردی ان کو کہلا بھیجا کہ تم میرے گھر آجاو۔ مروان کو علم ہوا تو اس نے قبیصہ کو ان کے پاس بھیجا اور دریافت کیا کہ آپ ایک مطلقہ خاتون کو اس کا زمانہ عدت پورا ہونے سے پہلے گھر سے کیوں نکالتی ہیں؟
حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا کہ رسول ﷺ نے خود مجھے ایام عدت اپنے ابن عم ابن ام مکتومؓ کے پاس گزارنے کی اجازت دی تھی اس لیے میں نے بھی اپنی بھانجی کو عدت پوری ہونے سے پہلے اپنے پاس بلا بھیجا ہے۔
مروان نے ان کی بات کو کوئی وقعت نہ دی اور مطلقہ خاتون کو اپنے گھر میں ہی عدت گزارنے کا حکم دیا۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت عائشہؓ‘‘ میں اس واقعے کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اسلام میں حکم ہے کہ مطلقہ عورتیں عدت کے دن اپنے شوہر کے ہی گھر میں گزاریں اور اس حکم کے خلاف صرف ایک فاطمہ بنت قیس کی شہادت ہے کہ ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی اور وہ آں حضرتﷺ کے ارشاد سے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں جاکر رہیں۔ فاطمہؓ اس واقعے کو بیان کرکے اجازت انتقال مکان پر استدلال کرتی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے عہد میں اسی واقعے کی سند سے ایک معزز باپ نے اپنی مطلقہ بیٹی کو شوہر کے یہاں سے بلوالیا۔ حضرت عائشہؓ نے اس عام حکم اسلامی کی مخالفت پر سخت اعتراض کیا ۔ مروان اس زمانے میں مدینہ کا گورنر تھا، اس کو کہلا بھیجا کہ تم سرکاری حیثیت سے اس معاملے میں دخل دو اور نفس مسئلہ کی نسبت فرمایا کہ اس واقعے سے عام استدلال جائز نہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ فاطمہؓ کے شوہر کا گھر شہر کے کنارہ پر تھا اور رات کو جانوروں کا خوف رہتا تھا اس بنا پر آں حضرت ﷺ نے ان کو اجازت دی تھی (بہ حوالہ بخاری باب قصہ فاطمہ بنت قیسؓ)
اہل سیر نے حضرت فاطمہؓ کے سال وفات کی صراحت نہیں کی البتہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی خلافت مکہ کے زمانے تک زندہ تھیں۔
ارباب سیر نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ صورت اور سیرت ہر لحاظ سے ہمہ صفت موصوف تھیں اور نہایت دانا، ذی علم اور باکمال خاتون تھیں۔ مہمانوں کی تواضع کرنے میں ان کو دلی راحت ہوتی تھی۔ ایک دفعہ ان کے شاگرد شعبیؒ حاضر خدمت ہوئے تو انہوں چھوہاروں اور ستووں سے ان کی تواضع کی۔
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے 34احادیث مروی ہیں۔ ان کے روایان حدیث میں حضرت قاسم بن محمدؒ، ابو سلمہؒ، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیرؒ، سلمان بن یسارؒ اور شعبیؒ جیسے اکابر تابعین شامل ہیں۔
(طالب الہاشمی کی کتاب تذکارصحابیاتؓ سے ماخوذ)

 

***

 ارباب سیر نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ صورت اور سیرت ہر لحاظ سے ہمہ صفت موصوف تھیں اور نہایت دانا، ذی علم اور باکمال خاتون تھیں۔ مہمانوں کی تواضع کرنے میں ان کو دلی راحت ہوتی تھی


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 تا 16 اپریل  2022