سیاسی بھگدڑ کا دائرہ یوپی کی طرح دوسری ریاستوں تک پھیلنے کے آثار
نتیش اور تیجسوی میں بڑھتی قربتیں۔ بہا رسے بی جے پی کی بے دخلی کی تیاری؟
ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی
ذات پر مبنی مردم شماری، حکمراں جےڈی یو اور حزب اختلاف دونوں کے یکساں سر
اتر پردیش کا انتخاب فی الحال عوام و خواص کے اعصاب پر سوار ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ یوپی کا یہ حال ہے کہ تین دنوں تک لگاتار تین ریاستی وزراء نے استعفیٰ دے کر ہیٹ ٹرک مکمل کرلی اور اپنے ساتھ اتنے ارکان اسمبلی کو لے گئے کہ ایک اچھی خاصی کرکٹ ٹیم بن سکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ہرکوئی اس بھگدڑ کے اثرات پر غور و خوض کررہا ہے اور درمیان میں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے چونکہ دہلی کا راستہ لکھنو سے ہوکر گزرتا ہے اس لیے حالیہ پیش رفت آئندہ قومی انتخاب پر بھی اثرا نداز ہوگی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یوپی پر ہی بی جے پی کا سب سے زیادہ انحصار ہے۔ وہاں سے اگر کمل کو بے دخل کردیا جائے تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی وہ گھٹنوں پر رینگنے کے لیے مجبور ہوجائے گا ۔ ایسے میں آر ایس ایس کی لاٹھی بھی اس کے کسی کام نہیں آئے گی۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے بی جے پی کو اترپردیش میں کسی مثبت بنیاد پر قائم نہیں کیا اور منفی رجحان پر قائم ہونے والی عمارت پائیدار نہیں ہوتی ۔ اس کو گرانے کے لیے ہوا کا ایک تیز جھونکا کافی ہوتا ہے۔ بی جے پی نے یوپی میں جو خیالی مفروضہ گھڑا تھا اس کے تار وپود بکھرنے لگے ہیں اور جھوٹ کا پردہ فاش کرکے حقیقت نمودار ہونے لگی ہے بقول ندا فاضلی؎
کہانی میں تو کرداروں کو جو چاہے بنا دیجیے
حقیقت بھی کہانی کار ہو ایسا نہیں ہوتا
اتر پردیش میں بی جے پی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کی آڑ میں کہانی گھڑی کہ سماجوادی پارٹی کے راج میں غیر یادو پسماندہ طبقات کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اسی طرح بی ایس پی نے غیر جاٹو دلتوں کو نظر انداز کیا۔ یہ خوف پھیلا کر اس نے سماج کے ایک بڑے طبقہ میں ناراضی کے جذبات پیدا کیے اور کا فائدہ اٹھاکر اپنے آپ کو مضبوط کرلیا۔یہ ناراضی کا شور شرابا ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ماضی میں جس طرح بی جے پی نے غیر یادو پسماندہ برادری میں ایس پی اور غیر جاٹو دلتوں کے اندر بی ایس پی سے ناراضی کو بھُنا کر اپنے وارے نیارے کیے اسی طرح فی الحال ان طبقات کے اندر بی جے پی کے تئیں پائی جانے والی بیزاری سے اکھلیش یادو مستفید ہور ہے ہیں ۔ پچھلے ریاستی انتخاب سے قبل بی جے پی اقتدار میں نہیں تھی اس لیے اس کے پاس عوام کو سبز باغ دکھا کر گمراہ کرنے کی جو آزادی تھی وہ اس بار نہیں ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں عوام اس کی چال ڈھال دیکھ چکے ہیں ۔ سماجوادی پارٹی بی جے پی کے خلاف پائی جانے والی بے چینی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ ہر بار بی جے پی ہی اس کھیل میں بازی مار لے ایسا تو نہیں ہوسکتا ؎
جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک ہی سے پیار ہو ایسا نہیں ہوتا
اتر پردیش کی موجودہ سیاسی اتھل پتھل کے پیچھے کوئی نظریاتی اختلاف کارفرما نہیں ہے۔ بی جے پی نے اپنی حکمت عملی میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی جس سے این ڈی اے میں شامل جماعتوں کو کوئی نئی پریشانی پیش آرہی ہواور ان کے لیے کمل کے ساتھ چلنا مشکل ہوگیاہو۔ تین سال قبل سرجیکل اسٹرائیک کے بعد سے بی جے پی نے جو رخ اختیار کیا اس پر مسلسل آگے بڑھتی جارہی۔ اس کے اندر سے کسی نے اس پر کوئی اختلاف نہیں کیا لیکن اب اچانک کئی لوگوں نے اپنی راہ کیوں بدل دی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے ان رہنماوں کی بی جے پی میں شمولیت یا ان جماعتوں کا این ڈی اے سے الحاق کسی نظریاتی بنیاد پر نہیں تھا۔ ان کو بی جے پی کے اقتدار کی کشش کھینچ کرلائی تھی اور وہ لوگ اقتدار میں حصے دار بن کر اپنے ذاتی یا قومی (نسلی) مفاد کی خاطر آئے تھے ۔ وقت کے ساتھ پارٹی اورمودی کی قیادت سے رائے دہندگان بیزار ہونے لگے اور ان دونوں کی عدم مقبولیت نے بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان مفقود کردیا اس لیے جو موقع پرستی ان چھوٹی موٹی جماعتوں کو بی جے پی کے قریب لائی تھی انہیں دور لے کر جارہی ہے۔ اس میں حیرت و تعجب کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ بی جے پی سے مایوس ہوکر پالا بدلنے والوں کی حالت اس شعرکی مصداق ہے؎
کہیں تو کوئی ہوگا جس کو اپنی بھی ضرورت ہو
ہر اک بازی میں دل کی ہار ہو ایسا نہیں ہوتا
اتر پردیش میں فی الحال جو کچھ ہورہا ہے 2024 سے قبل اسی طرح کی بھگدڑ کا دائرہ وسیع تر ہوسکتا ہے یعنی جس طرح پہلے ٹی ایم سی کے لوگ لوٹ گئے اور اب بی ایس پی کے واپس جارہے ہیں اس طرح مختلف ریاستوں میں دیگر جماعتوں سے بی جے پی میں آنے والے رہنما گھر واپسی کر سکتے ہیں۔ اس کی شروعات اتراکھنڈ میں ہوچکی ہے ۔ وہاں پر وزیر ٹرانسپورٹ یشپال آریہ نے وزرات اور بی جے پی سے استعفیٰ دے کر کانگریس میں لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یشپال آریہ پانچ مرتبہ کانگریس اور ایک بار بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب جیت چکے ہیں ۔ پچھلی بار جب کانگریس پارٹی نے ان کے بیٹے
سنجیو آریہ کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تو موروثیت کی مخالفت کرنے والی بی جے پی نے باپ بیٹے دونوں کو ٹکٹ سے نواز کر اپنی منافقت کا ثبوت دیا ۔ اس کے بعد یشپال آریہ کو وزیر بھی بنایا گیا لیکن اب انہیں احساس ہوگیا کہ دوبارہ انتخاب جیتنے کی خاطر اس ڈوبتے جہاز سے نکل کر بھاگنا ضروری ہے اس لیے وہ اپنے بیٹے سمیت کانگریس میں لوٹ آئے۔
ملک کی کچھ ریاستوں میں تو بی جے پی نے اپنے بل پر حکومت بنا رکھی ہے ان میں اس کو خطرہ نہیں ہے لیکن یہ چل چلاو ان صوبوں میں مشکلات کھڑی کرسکتا ہے جن میں اس نے دوسری پارٹیوں کے ارکان کو خرید کر مثلاً گوا ، کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں حکومت بنارکھی ہے۔ اس کے علاوہ ہریانہ اور بہار جیسے صوبوں میں بھی اس کی نیا ڈوب سکتی ہے جہاں اس نے دوسری جماعتوں سے الحاق کرکے حکومت سازی کی ہے۔ گوا میں بی جےپی نے اقتدار گنوانے کے بعد کانگریس کے لوگوں کو توڑ کر حکومت بنائی ۔ ان میں سے دیہی ترقی کے وزیر مائیکل لوبو بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں لوٹ چکے ہیں۔ وہاں تو خیر بہت جلد انتخابات ہوں گے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن اگر کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں آئندہ سال انتخاب سے قبل کانگریسی لوٹ گئے تو بی جے پی کو بہت بڑا جھٹکا لگے گا اس لیے کہ جو لوگ اقتدار کی خاطر کانگریس سے بی جے پی میں جانے والے لوٹ کر بھی آسکتےہیں۔
ہریانہ کی صورتحال تھوڑی سی مختلف ہے۔ وہاں پچھلا انتخاب دشینت چوٹالہ کی جے جے پی نے بی جے پی اور کانگریس کے خلاف لڑا تھا۔الیکشن کے بعد جب بی جے پی نے اکثریت گنوادی تو اپنے والد اوم پرکاش چوٹالہ کو جیل سے چھڑانے کی خاطر دشینت نے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ کسان تحریک کے بعد مغربی اترپردیش سے لے کر پنجاب تک بی جے پی کی کیا درگت بنے گی۔مرکزی حکومت کے تئیں کسانوں کے اندر پائی جانے والے شدید غم وغصے نے دشینت چوٹالا کی چولیں ہلادی ہیں ۔ وہ اپنے آبائی گاوں میں نہیں گھس پارہے ہیں، ہر بار جب اپنے لیے ہیلی پیڈ بنواتے ہیں کسان اس کو کھود کر چلے جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو زیادہ دنوں تک نہیں جھیلا جاسکتا۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت بی جے پی کی ناو ڈبو کر کانگریس کی کشتی میں سوار ہوجائیں ورنہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ ویسے چوٹالا کی قسمت آزمائی اس شعر کی مانند ہوسکتی ہے؎
ہر اک کشتی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے دریا میں
سفر میں روز ہی منجدھار ہو ایسا نہیں ہوتا
ہریانہ کا شمار بھی ملک کی نسبتاً چھوٹی ریاستوں میں ہے لیکن بہار کے بارے میں ایسا نہیں کہا جاسکتا۔
گزشتہ صوبائی انتخاب کے بعد سے بی جے پی اور نتیش کمار کے تعلقات کشیدہ ہیں اس لیے جنتا دل یو کا تیر کسی بھی وقت کمل کے آر پار ہوسکتا ہے۔ فی الحال بہار کی سب سے بڑی حزب اختلاف جماعت آر جے ڈی کی طرف سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو ریاستی مفادات کے معاملات میں حمایت کی پیشکش اس جانب اہم اشارہ ہے ۔
پچھلے دنوں آر جے ڈی ترجمان مرتیونجے تیواری کی جے ڈی یو کے سینئر لیڈر اور نتیش کے مقرب اوپیندر کشواہا سے ملاقات کی جانب بھی ذرائع ابلاغ نےتوجہ نہیں کی۔ یہ خبریں چونکہ بی جے پی کے خلاف ہیں اس لیے ان سے صرفِ نظر کرنا گودی میڈیا کی مجبوری ہے لیکن دیگر لوگوں کا بھی اس کی جانب دھیان نہ دینا حیرت انگیز ہے۔ فی الحال میڈیا کا المیہ یہ ہے کہ وہ انہیں موضوعات کو زیر بحث لاتا ہے جو بی جے پی آئی ٹی سیل کی جانب سے اچھالے جاتے ہیں۔ اپنے طور سے کوئی بیانیہ مرتب کرکے دوسروں کو اس پر گفتگو کے لیے مجبور کرنے کا کام ہی کم ہوتا ہے۔
آر جے ڈی رہنما مرتیونجے تیواری پچھلے ہفتہ اچانک اوپیندر کشواہا کے پٹنہ میں واقع رہائش گاہ پہنچے اور وہاں دونوں لیڈروں کے درمیان طویل گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد جے ڈی یو لیڈر اوپیندر کشواہا کا توکوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے، لیکن تیواری نےاسے ذاتی ملاقات بتا دیا ۔ مرتیونجے تیواری کا بیان شکوک و شبہات کو جنم دینے والا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ نئے سال کے موقع پر کشواہا کو مبارکباد دینے کی بات کرتے ہیں مگر ساتھ ہی سیاسی گفتگو کو فطر ی قرار د یتے ہیں ۔ آگے چل کر تیواری جی نے جوکہا اس سے بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ انہوں نے ذات پر مبنی مردم شماری کرائے جانے کےموقف کا شکریہ ادا کرکے اس دراڑ کا ذکر کردیا جو بی جے پی اور جنتا دل یو کے درمیان پڑی ہوئی ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے کہ جس کے سہارےوہ پھر سے جے ڈی یو کی حمایت کا بہانہ نکال سکتے ہیں۔ تیواری کے مطابق تیجسوی یادو کا واضح پیغام ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کی خاطر ہرکسی کا استقبال کیا جائے گا۔
اس معاملے میں آر جے ڈی نہ صرف ساتھ لینے بلکہ تعاون کرنے کی خاطر بھی تیار ہے۔ ابھی حال میں آر جے ڈی کے ریاستی صدر جگدانند سنگھ نے کہا تھا کہ ذات پر مبنی مردم شماری پر نتیش کمار کے ساتھ آر جے ڈی کھڑی رہے گی۔ انہوں نے ایسا کرنے کا جواز یوں پیش کیا تھا کہ نتیش کی معاون پارٹی یعنی بی جے پی مردم شماری پرالگ رائے رکھتی ہے۔ جگدانند سنگھ نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو اس پالیسی کی مخالفت کرنے والوں کو ہٹا دینے کا مشورہ دیا کیونکہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے یہ ان کے اختیار میں ہے۔ نتیش کمار اگر مردم شماری کے معاملے میں بی جے پی سے مخالفت مول لیں گے تو ظاہر ہے وہ حمایت واپس لے کر صدر راج نافذ کردے گی اور اس صورت میں وزیر اعلیٰ کو اپنا اقتدار بچائے رکھنے کی خاطرآر جے ڈی کی حمایت لازمی ہوجائے گی۔ اس تناظر میں جگدانند کی یہ یقین دہانی بہت بامعنی ہوجاتی ہے کہ بہار کے مفاد کی بات جہاں بھی ہوگی وہاں ان کی پارٹی نتیش کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ بہر حال، آر جے ڈی ترجمان اور جنتا دل یو کے درمیان ہونے والی ان ملاقاتوں اور بیانات کو محض اتفاق کہہ کر نظر انداز کردینا سیاسی بصیرت کے خلاف ہے کیونکہ مرتیونجے تیواری تو کھرماس یعنی 14 جنوری کے بعد بہار کی سیاست میں ’کھیلا ہونا‘ طے ہے کا اعلان کرچکے ہیں۔
آر جے ڈی کے قومی نائب صدر شیوانند تیواری نے آئی اے این ایس سے کھل کر اس بات کا اعتراف کرلیا کہ جو پہلے پسِ پردہ ہوا کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا ’’نتیش کمار اگر بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر چلے آئیں تونجی طور پر انہیں خوشی ہوگی‘‘ شیوانند کے مطابق اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ تیجسوی یادو نے انہیں ایوان کے باہر اور ایوان کے اندرحمایت کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کی بابت تیواری کاخیال ہے کہ یہ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے۔ ماضی میں لالو پرساد، شرد یادو اور ملائم سنگھ یادو بھی اسے اٹھاتے رہے ہیں۔اسی زمانے سے نتیش کمار اس مردم شماری کے حامی ہواکرتے تھے ۔ وہ آج بھی مختلف مواقع پر ذات پر مبنی مردم شماری کا ملک کے مفاد میں ہوناتسلیم کر چکے ہیں ۔ اسی لیے بہار کے کل جماعتی نمائندہ وفد کے ساتھ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ اب اگر وہ بی جے پی کی ناراضی کے سبب ایسا نہیں کر پاتے ہیں تو یہ افسوسناک ہے۔
ان سیاسی قیاس آرائیوں کے درمیان آر جے ڈی رکن اسمبلی بھائی ویریندر نے تو یہاں کہہ دیا کہ بہار این ڈی اے میں کھیلا ہوچکا ہے اور تیجسوی ہی 15 اگست کو گاندھی میدان میں پرچم لہرائیں گے حالانکہ پچھلے سال بھی اس طرح کی پیشنگوئی کی گئی تھی جو غلط ثابت ہوئی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مارچ میں جب اوپیندر کشواہا آر ایل ایس پی کو جنتا دل یو میں ضم کرنے کی تیاری کر رہے تھے تو اس سے قبل پارٹی کے ریاستی صدر ویریندر کشواہا اور جنرل سکریٹری نرمل کشواہا سمیت بیشتر پارٹی لیڈر آر جے ڈی میں شامل ہو گئے۔ اس طرح گویا اوپیندر کشواہا کو چھوڑ کر تمام عہدیداروں نے پوری پارٹی کو آر جے ڈی میں ضم کر دیا اور تیجسوی یادو نے بذاتِ خود پٹنہ میں ان کاا ستقبال کیا۔ اس موقع پر تیجسوی یادو نے طنز کرتے ہوئےکہا تھا کہ آر ایل ایس پی میں اب صرف سابق مرکزی وزیر اوپیندر کشواہا بچ گئے ہیں کیونکہ بہار کے علاوہ جھارکھنڈ آر ایل ایس پی کے ریاستی صدر نے بھی آر جے ڈی کی رکنیت اختیار کرلی ہے۔ تیجسوی کا خیال تھا ان کے آنے سے آر جے ڈی مضبوط ہوگی لیکن بعد میں ہونے والی ضمنی انتخاب میں اس کا فائدہ نہیں نظر آیا۔
بہار کی سیاست میں بی جے پی کے سشیل مودی سمیت تمام بڑے رہنما جئے پرکاش نارائن کی تحریک سے نکلے ہیں ۔ یہ سب جنتا پارٹی میں ایک ساتھ تھے لیکن سشیل مودی بی جے پی میں شامل ہوگئے ۔ ان کے علاوہ باقی سب جنتا دل میں بھی تھے ۔ لالو نے اس سے الگ ہوکر آر جے ڈی اور نتیش نے جارج فرنانڈیز کے ساتھ سمتا پارٹی بنائی ۔ رام ولاس پاسوان نے لوک جن شکتی پارٹی بنالی۔ اس طرح شرد یادو کے پاس جنتا دل بچ گئی جس کو انہوں نے سمتا میں ضم کرکے جنتادل (یو) کا نام دے دیا۔ پاسوان کے علاوہ یہ سارے پسماندہ ذاتوں سے ہیں کوئی یادو ہے تو کوئی کرمی اور کیوری ہے۔ لالو کی بی جے پی دشمنی کے سبب زیادہ تر مسلمان ان کے ساتھ رہے۔ اس تقسیم در تقسیم کا فائدہ اٹھا کر بی جے پی نے بہار میں اپنے قدم جمالیے اور ایل جے پی کی مدد سے جے ڈی یو کو کمزور کردیا۔ آر جے ڈی کے علاوہ یہ سب حسبِ سہولت اقتدار کی خاطر این ڈی اے اور یو پی اے میں گردش کرتے رہے۔
اوپیندر کشواہا نے نتیش کمار کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے آر ایل ایس پی تشکیل دی تھی۔ گاؤں گاؤں جا کر پارٹی کارکنوں کو اس کا حلف دلوایا تھا، لیکن پھر ان عزائم کوپس پشت ڈال کرانہوں نے نتیش کمار کے ساتھ جانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس کے خلاف ویریندر کشواہا جیسے لوگوں نے تیجسوی یادو کی قیادت میں نتیش کمار کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کمر کس لی۔ ایک زمانے میں اوپیندر کشواہا کہا کرتے تھے کہ اگر نتیش کمار جیسا دوست ہو تو دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی ہے اب وہ دونوں دوست بن کر تیجسوی کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ ابن الوقتی سیاست کا یہ بہت بڑا نمونہ ہے۔ ان سب میں تو خیر کوئی نظریاتی اختلاف نہیں ہے لیکن مہاراشٹر میں تو شیوسینا جیسی کٹر ہندوتوا وادی نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس کا ہاتھ تھام لیااور اس میں این سی پی گھڑی باندھ لی۔ جمہوری سیاست میں اقتدار کی خاطر اگر یہ سب ہوسکتا ہے تو بہار میں کمل خزاں رسیدہ کیوں نہیں ہوسکتا؟
بہار کی سیاست میں یہ الٹ پھیر نیا نہیں ہے۔ نتیش کمار کا این ڈی اے سے نکل کر آر جے ڈی کے ساتھ انتخاب میں کامیابی درج کرانا اور پھر بی جے پی کا کمل تھام لینا کسے یاد نہیں؟ 2014انتخاب سے ایک سال قبل جو کچھ نتیش کمار نے کیا وہی کام 2019میں قومی انتخاب سے ایک سال پہلے اوپیندر کشواہا نے دوہرایا۔ انہوں نے مرکزی وزارت سمیت این ڈی اے کو چھوڑ کر آرجے ڈی سے اتحاد کرلیا ۔ اس وقت پٹنہ میں ایک تقریب کے دوران اوپیندر کشواہا نے کہا تھا کہ اگر، ’’یدوونشی (یادو) کا دودھ اور کش ونشی (کوری) کا چاول مل جائے تو کھیر اچھی ہوگی اور اس ذائقہ دارپکوان کو بننے سے کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ اس کے جواب میں تیجسوی یادو نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ٹویٹ کیاتھا کہ ، ’’بلا شبہ ذائقہ دار اور غذائیت کے پُر کھیر محنت کش لوگوں کی ضرورت ہے۔‘‘ بعید نہیں کہ اس مرتبہ دودھ اور کھیر میں جے ڈی یو کے شکر کی مٹھاس بھی شامل ہوجائے۔ ایسا اگر ہوجاتا ہے تو بی جے پی کو اس سے بہت بڑا جھٹکا لگے گا۔ بی جے پی اگر اترپردیش انتخاب ہار جائے تو آئندہ پارلیمانی انتخاب میں اس کی شکست تقریباً یقینی ہوجائے گی مگر اس سے قبل وہ بہار جیسی کئی ریاستوں میں اقتدار سے بے دخل ہوسکتی ہے۔بی جےپی سے بھاگنے والے رہنماوں اور حلیف جماعتوں نے اس کی جو حالت بنادی ہے اس کو دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
ہر قدم دور منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے
***
اتر پردیش میں فی الحال جو کچھ ہورہا ہے 2024 سے قبل اسی طرح کی بھگدڑ کا دائرہ وسیع تر ہوسکتا ہے یعنی جس طرح پہلے ٹی ایم سی کے لوگ لوٹ گئے اور اب بی ایس پی کے واپس جارہے ہیں اس طرح مختلف ریاستوں میں دیگر جماعتوں سے بی جے پی میں آنے والے رہنما گھر واپسی کر سکتے ہیں۔ اس کی شروعات اتراکھنڈ میں ہوچکی ہے ۔ وہاں پر وزیر ٹرانسپورٹ یشپال آریہ نے وزرات اور بی جے پی سے استعفیٰ دے کر کانگریس میں لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 23 جنوری تا 29جنوری 2022