سچا تاجر

عبدالعزیزصائب مظاہری

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سچے اور امانت دار تاجر کو نبیوں، صدیقوں اور شہدا کی معیت و رفاقت نصیب ہوگی‘‘۔(مشکوۃ رواہ لترمذی و الدارمی)
بشارت ہے، ایک بڑی عظیم بشارت، جو دنیا کے عام بازاروں کا ماحول ہی پلٹ کر رکھ دیتی ہے۔اس ارشاد کی اولین زَد تو دین کے اس محدود تصور پر پڑتی ہے جس میں یہ باور کرلیا گیا ہے کہ دین کا تعلق مسجد سے ہے اور بازار دنیا داروں کی بھیڑ بھاڑ اور آزادانہ کاروبار کا میدان ہے۔بخلاف اس تصور کے یہ حدیث بازار میں تاجر کو اعلیٰ کردار عطا کرتی ہے اور ایک بہت بلند روحانی افق پر بٹھاتی ہے کہ وہ نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کا رفیق بن سکتا ہے اس حدیث سے بازار عبادت اور رضائے الٰہی کے حصول کا ایک عظیم تر میدان قرار پاتا ہے۔ ’’صدق و امانت‘‘ جیسی صفات سے متصف سوداگر بازار کی سخت امتحان گاہ میں بیٹھ کر عظیم کارنامہ انجام دے رہا ہے جو انبیا، صدیقوں اور شہدا کے مبارک مشن اور دین کی اصل حاصل و مطلوب ہے۔اس کا قول سچا، اس کی تول سچی، اس کا مال کھرا، نفع نقصان کے خطرے میں اپنی پونجی کو لگاکر مناسب نفع پر بنی نوع کی خدمت میں لگا ہوا ہے۔
اس کاعمل شہادت دے رہا ہے کہ وہ حساب کے دن کا یقین رکھتا ہے۔
وہ اپنے رسولﷺ کے اسوہ کو مضبوطی اور اعتماد کے ساتھ اپنائے ہوئے ہے۔ اس کا سر بازار عمل میں اس کے عقیدہ ، اس کے فکر و نظر اس کے اپنے رب سے کیے ہوئے عہد بندگی کی تصدیق کررہا ہے۔بنی نوع انسان کے ساتھ محبت و مروت کا سلوک اور معاملہ وحدت الہ اور وحدت آدم کے نظریہ کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ زمین پر ایک عبد امین ہے مالک و مختار اور شتر بے مہار نہیں۔وہ چاہے تو جھوٹی قسم سے کھوٹے مال کو کھرا بتا کر بیچ سکتا ہے۔ وہ ترازو اور باٹ میں کمی کرسکتا ہے، وہ ڈنڈی اس ہوشیاری سے مارسکتا ہے کہ چالاک گاہک کو ذرا بھی شبہ نہ ہو مگر امانت اس کا شعار اور سچ اور سچائی اس کی شرافت کا عیار ہے۔ ایسے ٹھوس، سچے اور قول و عمل کے پکے تاجر کو زمرہ صالحین میں رب اگر شمار فرماتا ہے تو یہ اس کے عمل خیر کی واقعی قدر دانی ہے۔