سوشل میڈیا پر وزیراعظم کے خلاف پھوٹا غصہ

ہیش ٹیگ ’ریزائن مودی‘ کو ’بلاک‘ کروانے کی کوشش ناکام

حسن آزاد

 

انتخابی تشہیر میں رات دن مصروف رہے وزیر اعظم اسپتالوں کے دورہ کے لیے کیوں نہیں نکال سکے وقت؟
پہلے جب انسان ذہنی طور پر تھک جاتا تھا تو تھوڑا وقت سوشل میڈیا پر صرف کرتا تھا تاکہ اس طرح سے ارد گرد کی خبروں کے ساتھ ساتھ کچھ لطف اندوز بھی ہوا جائے۔ لیکن اب حالات بالکل برعکس ہیں۔ سوشل میڈیا پر جاتے ہی دل بھاری ہو جاتا ہے۔ ہر طرف سے اموات کی خبریں آ رہی ہوتی ہیں۔ سڑکوں پر تڑپتے لوگ، اسپتالوں کے باہر قطار میں کھڑے مریض اور ان کے خاندان، ہر طرف آکسیجن کی کمی درپیش، ایک ایک سانس کے لیے بھاگم بھاگ، ماں باپ کی آنکھوں کے آگے مرتی ہوئی اولاد اور والدین کو تڑپتا دیکھ کر اولاد کا پھٹتا ہوا سینہ،، یہ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ ایسے موقع پر نہ پیسہ کام آ رہا ہے نہ جاہ ومنصب انسان بس لاچاری ومجبوری کی تصویر بن کر کھڑا ہے۔ ظاہر ہے مشیت ایزدی کے آگے انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن جان بچانے کے لیے جو اسباب میسر ہیں اسے استعمال میں لانے سے حکومت نا کام رہی ہے اور عوام سر تا پا مجبور ولاچار تو پہلے سے ہی تھے۔ لیکن کورونا وائرس کے اس دور میں سوشل میڈیا کا مثبت پہلو کافی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہر شخص سوشل میڈیا پر مریض کا نام اور پتہ لکھ کر شیئر کر رہا ہے تاکہ مریض کو آکسیجن کی ضرورت پوری ہو سکے اور صارفین مدد کے لیے آگے بھی آ رہے ہیں اور سیکڑوں مریضوں کی سوشل میڈیا کے ذریعے مدد بھی ہوئی ہے۔
سوشل میڈیا پر سوال یہ بھی اٹھا کہ آکسیجن کی وجہ سے موت کو قتل کا نام کیوں نہیں دیا جائے۔ مشہور ہندی کے شاعر ڈاکٹر کمار وشواس کرناٹک میں آکسیجن کی قلت کی وجہ سے چوبیس مریضوں کی موت پر لکھتے ہیں کہ ”اسے موت کیوں بلکہ قتل کیوں نہ کہا جائے”۔
خاص طور پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف غصہ ابل پڑا۔ پہلی بار دیکھنے میں آ رہا ہے کہ پی ایم مودی کے خلاف کئی ٹرینڈس مستقل گردش میں ہیں۔
جیسے ٹرینڈس کے ذریعے صارفین مستقل اپنے غم وغصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک خبر یہ بھی آئی کہ بھارتی حکومت نے ٹویٹر کو کورونا وبا سے صحیح طریقے سے نہ نمٹنے پر وزیر اعظم کے خلاف 50 سے زائد ٹویٹس ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک اور انسٹاگرام نے حکومت کے کہنے پر مودی کے خلاف پوسٹس کو بلاک کیے تھے۔ فیس بک نے ہیش ٹیگ ’ریزائن مودی‘ سے کی گئی پوسٹس چند گھنٹوں تک غائب کر دی تھیں، انٹرنیشنل میڈیا پر خبر آنے پر فیس بک نے اپنے اقدام کو غلطی قرار دیتے ہوئے ہیش ٹیگ 3 گھنٹے بعد بحال کر دیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی ناکامی جگ ظاہر ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ناکامی کے نگاڑے بج رہے ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر نریندر مودی کو ایک ناکام وزیر اعظم کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
نیو یارک سے شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالہ ٹائم میگزین کے کور پیج پر بھارت کی بدحالی دکھائی گئی۔ اس کا سر ورق، بھارت بحران میں INDIA IN CRISIS) اور مودی نے ہمیں کیسے ناکام کیا (HOW MODI FAILD US) کے عنوان سے شائع ہوا۔
اپنے ٹویٹر ہینڈل پر آشا پریا (Asha priya) نامی صارف نے ایک تصویر شیئر کی جس میں ایک کھنبے کے طور پر آکسیجن سلینڈر کو استعمال کیا گیا تھا جس کے ایک جانب مندر کے ساتھ ایک ہندو اور دوسری جانب مسجد کے ساتھ ایک مسلم بیماری کی حالت میں آکسیجن لے رہے ہیں۔ اسی تصویر کے کیپشن میں آشا پریا لکھتی ہیں کہ ’’اس تصویر میں لاکھوں الفاظ پوشیدہ ہیں۔ کیا ہمیں واقعی میڈیکل کی ضرورت نہیں ہے؟ کم سے کم اب تو مذہب کی بنیاد پر ووٹ مت مانگیے!‘‘۔
نامو تلنگانہ (NaMo Telangana) نامی صارف ٹویٹر پر وزیر اعظم مودی سے مخاطب ہو کر لکھتے ہیں کہ ’’سر! آپ ہی وہ شخص ہیں جو اس ملک کو کورونا وبا سے محفوظ رکھ سکتے ہیں لہٰذا آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ آپ ملک کی خاطر استعفیٰ دے دیں‘‘۔
حیرت کی بات تو یہ ہے مشہور اینکر روہت سردانا جو حکومت کے حامی کے طور پر جانے جاتے تھے ان کی کورونا سے ہوئی موت پر بھی #ResignModi ہی ٹرینڈ کیا۔ کیوں کہ صارفین کا ماننا تھا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر میں پی ایم مودی بری طرح نا کام ثابت ہوئے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی مودی حکومت یا وزیر اعظم کی شبیہ خراب کرنے والے ٹرینڈ چلتے تھے تو بھگوا ٹولہ پورے لاؤ لشکر کے ساتھ حکومت کی حمایت میں میدان میں کود پڑتا تھا لیکن اس بار معاملہ تھوڑا الگ رہا کیوں کہ کورونا وائرس زعفرانی ٹولے کو بھی نہیں بخش رہا تھا وہ بھی بیمار ہو کر مر رہے تھے۔ کئی نجی چینلوں پر تو آن کیمرہ بی جے پی کارکنوں کو سنا گیا کہ وہ کبھی پی ایم مودی کی حمایت میں سڑکوں پر نہیں اتریں گے۔ پھر بھی بی جے پی لیڈر مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ کیوں کہ وہ پارٹی سے بندھے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ #IStandWithModi ٹرینڈ کے تحت کرناٹک کے اڈوپی چکمگلورو سے بی جے پی کی لوک سبھا رکن شوبھا کرندلاجے نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا کہ’’ان کے خلاف اپوزیشن، لوٹیئنز (Lutyens) اور بدعنوان لوگ ہیں۔ ایسے بے شمار افراد ہیں جو مودی کو شکست خوردہ دیکھنا چاہتے ہیں مگر ہر محب وطن پی ایم مودی کے ساتھ ہے۔‘‘
ممبئی کو پی او کے (POK) کہنے والی مشہور ادکارہ کنگنا رناوت مودی حکومت کی حمایت میں فیس بک پر لکھتی ہیں کہ’’مرکز نے ریاستی حکومتوں کو مفت ویکسین دی مگر بالی ووڈ کے کچھ افراد بدترین متاثرہ ریاستوں کی حکومت کی تعریف کرنے میں مصروف ہیں‘‘۔
اگر وزیر اعظم مودی نے ویکسین مفت دی بھی تھی تو انہوں نے عوام کے پیسے سے خریدی گئی ویکسین ہی دی تھی۔ بہار اسمبلی انتخابات جیتنے کے لیے تو پہلے مفت ویکسین کا اعلان کر چکے تھے۔ اگر وزیر اعظم ایک سال پہلے ملک میں ہزاروں آکسیجن پلانٹ نصب کروادیتے تو ان کی ستائش کی جاسکتی تھی۔ جب چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس کا علاج کرنے کے لیے چند دنوں میں ایک ہسپتال کی تعمیر مکمل کر لی جاتی ہے تو بھارت میں ایک سال میں کوئی نیا اسپتال کیوں نہیں تیار ہوا؟
اس دوران ادکار سدھارتھ نے ٹویٹر پر مرکزی حکومت کے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ ان کے ہر ٹویٹ میں مودی حکومت پر تنقید و تبصرے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ادکارہ کنگنا رناوت اور انوپم کھیر کو جواب دیتے ہوئے وہ نہیں تھکتے۔ ایک مرتبہ انوپم کھیر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’’آئے گا تو مودی ہی ‘‘یعنی ایسے پر آشوب دور میں بھی صاحب کی ’مودی بھکتی‘ عروج پر ہے جس کا جواب دیتے ہوئے سدھارتھ نے لکھا کہ ’’اگر ہم آئے گا تو مودی ہی کے بجائے جائے گا تو کووڈ ہی پر زور دیتے تو ہم ایک اچھے مقام پر ہوتے‘‘۔
سوال یہ بھی کیا گیا کہ وزیر اعظم مودی نے بہار میں 12اور مغربی بنگال میں 18ریلیاں کیں، کیرالا میں 5 انتخابی جلسے کیے اور تمل ناڈو اور آسام میں سات سات عوامی انتخابی جلسوں سے مخاطب ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ اس دوران انہوں نے ایک بار بھی کسی بھی کووڈ اسپتال کا جائزہ
کیوں نہیں لیا؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 9 مئی تا 15 مئی 2021