سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پھنسانے کی سازش؟

بھیما کورے گاؤں تشدد کی جانچ میں نیا موڑ!

برماور سید احمد سالک ندوی، بھٹکلی

 

کیا سناتن دھرم کے ٹھیکیداروں کو ہضم ہو گا؟
اظہار رائے کی آزادی اور انصاف کے خلاف آواز بلند کرنا اس ملک میں روز بروز دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ ذات پات کے نظام پر یقین رکھنے والوں نے سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف ایسے حربے آزمائے ہیں کہ دیکھ کر روح کانپ جاتی ہے لیکن پھر بھی ’’دیوانہ بہر صورت زنجیر کا عادی ہے‘‘ کے مترادف ہر زمانہ میں کچھ لوگ ایسے پائےجاتے ہیں جو ان سب سازشوں سے بے پروا ہو کر حق و انصاف کی آواز بلند کرتے ہیں۔ ہم یہاں دو ڈھائی سال قبل مہاراشٹر کے بھیما کورے گاوں تشدد کے بعد گرفتار ملزمین کے ساتھ کیا کچھ ہوا اور ان کو پھنسانے کی سازش کس طرح رچی گئی اس کی وضاحت کریں گے لیکن اس واقعہ کے مختصر پس منظر سے بھی آگاہی ہو جائے تو مدعا کی وضاحت اچھے طریقے سے ہوگی۔
رواں سال 30 جنوری کو مہاراشٹر کے شہر پونے میں یلغار پریشد کی ایک کانفرنس سے خطاب کے دوران شرجیل عثمانی نے سڑا ہوا ہندو سماج کہہ کر برہمن وادیوں کو آڑے ہاتھوں لیا جس کے بعد ہنگامہ برپا ہو گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ مہاراشٹر دیویندر پھڈنویس نے شرجیل عثمانی گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔ ممکن ہے اسے بھی اپنے پیشرووں کی طرح حق و صداقت کی آواز اٹھانے کی سزا بھگتنا پڑے۔
یلغار پریشد ہے کیا؟
یلغار پریشد دراصل مہاراشٹر کے بھیما کورے گاوں میں برہمن واد کے خلاف 203 سال پہلے ملنے والی عظیم فتح کے لیے پروگرام کرنے اور بہادروں کی یادگاروں کو باقی رکھنے والے منتظمین کا ایک ادارہ ہے جس کے ذریعے 2018 سے ہر سال ایک کانفرنس کا انعقاد کر کے سناتن ہندو دھرم کے خلاف دلتوں کی جیت اور بہادری کے تذکروں کے ذریعہ لوگوں کے حوصلے بڑھائے جاتے ہیں۔ گویا یہ قدم دلتوں اور بہوجن سماج کی طرف سے برہمنی سماج کے خلاف ایک یلغار ہے۔ اسی لیے اسے یلغار پریشد کہا جاتا ہے۔
تاریخی پس منظر :
203 سال پہلے پونے کے بھیما کورے گاوں تعلقہ میں ہندوستان کے برہمن حکمراں پیشوا سے انگریزوں کی جنگ میں دلت افواج نے انگریزوں کا تعاون کیا تھا جس میں انگریزوں کے ہاتھوں پیشوا کو شکست ہوئی تھی۔ پیشوا کے ظلم و جبر اور نا انصافی سے پریشاان دلت سماج اس کو ایک بڑا تاریخی اور بہادری کا واقعہ سمجھتے ہیں۔ انگریزوں کے ہاتھوں دلت افواج کے تعاون سے پیشوا کی شکست کے جشن میں بھیما کورے گاوں میں ’’وجے استمبھ‘‘ یا ’ستونِ ظفر‘ قائم کر کے دلتوں کو ان کی روشن تاریخ کی طرف ابھارا جاتا ہےاور اس کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔ بھیما کورے گاوں میں دو سو سالہ اسی جشن کے موقع پر یلغار پریشد کی طرف سے ایک کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ ان میں عام لوگ، دانشوران اور سماجی کارکنوں کی ایک قابل ذکر تعداد شریک رہی۔ بطور خاص پونے سے تعلق رکھنے والے بامبے ہائی کورٹ کے جج کولسے پاٹل، جسٹس پی بی ساونت، سماجی کارکن ورورا راو، قبائلی جہد کارسدھا بھردواج، اور ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کے وارث مصنف، دلت رائٹر اور مشہور دانشور ڈاکٹر آنند تلتمبڑے، عیسائی پادری اسٹین سوامی وغیرہ شامل تھے۔ جسٹس پی بی ساونت نے یلغار پریشد کے بارے میں کہا کہ تھا پریشد فرقہ پرستی کے خلاف لڑائی کے لئے قائم کی گئی ہے۔ اس پروگرام میں سماجی نا انصافیوں پر اٹھنے والی آوازکے خلاف برہمن وادیوںنے دوسرے دن اشتعال انگیز تقریریں کیں جس کے بعد بھیما کورے گاوں میں تشدد برپا ہو گیا۔ اس تشدد کے پیچھے ضلع سانگلی کے آر ایس ایس کے مدبر، سینئر لیڈر سمبھاجی بھڈے اور پونے کے مِلند ایکبوٹے کی تقریریں ماحول کو بگاڑنے میں زیادہ کام کر گئیں۔ سمبھا جی بھڈے کی فسادی ذہنیت اور اشتعال انگیزی اس فساد کا سبب بنی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نریندر مودی نے ایسے فسادی ذہن رکھنے والے شخص کی تعریف کرتے ہوئے اسے اپنا گرو بتایا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جب فساد برپا ہوا تو کارروائی کے نام پر مہاراشٹر اور ملک کی مختلف ریاستوں میں بڑے پیمانے پر یکے بعد دیگرے گرفتاریاں ہوئیں جن میں زیادہ تر سماجی جہد کار، انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے اور یلغار پریشد پروگرام میں شریک ہونے والےکچھ بڑے چہرے بھی گرفتار شدگان میں شامل تھے۔ پولیس نے ان کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے مختلف دفعات کے تحت گرفتار کیا۔ ان کے پاس سے لیپ ٹاپ اور دستاویزات بھی ضط کیے۔ گرفتار شدگان میں سودھا بھردواج، گوتم نولکھا، ارون فریرا، وروراراو ،ورنن گونسالویس وغیرہ تھے۔ اس وقت مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے سناتن فسادیوں کی اشتعال انگیزی پر پردہ ڈالتے ہوئے انہیں بچانے کے لیے اربن نکسل کا کارڈ کھیلا۔ نتیجے میں مذکورہ تمام دانشوران کو گرفتار کیا گیا۔ ایک سال قبل مہاراشٹر میں بی جے پی کا تختہ پلٹ جانے کے بعد جب ادھو ٹھاکرے نے اقتدار سنبھالا تو مرکزی حکومت نے بھیما کورے گاوں تشدد کی تحقیقات کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی مگر اسی وقت این سی پی لیڈر شرد پوار نے پولیس کو جانچ سونپنے پر اعتراض کرتے ہوئے دلتوں کی خاموش حمایت کی۔ دبے الفاظ میں پوار نے خدشہ ظاہر کیا کہ تحقیقات صحیح رخ پر نہیں جائیں گی۔ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کے خود مختار ادارے حق و انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر کس طرح حکومت کی مرضی کے مطابق کام کرنے لگے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اس معاملے میں بھی مرکزی حکومت نے جب جانچ این آئی کو سونپ دی تو گویا اس کے بعد تحقیق کا رخ ہی پلٹ گیا اور پھر وقفہ وقفہ سے قبائلی آدیواسی اور بائیں بازو کے مفکرین اور دانشوروں کی گرفتاریاں عمل میں آنے لگیں۔
ایک بڑا انکشاف!
کچھ روز قبل امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک بڑا انکشاف کرتے ہوئے ہندوستانی سیاست میں تہلکہ مچا دیا۔ رونا ولسن کے لیپ ٹاپ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو قتل کرنے کی مبینہ سازش رچنے والے خط کو بنیاد بنا کر این آئی اے نے جسے سب سے بڑے ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا واشنگٹن پوسٹ کی تحقیقی خبر نے اس ثبوت کی ہوا نکال کر رکھ دی۔ اخبار نے یلغار پریشد معاملے میں گرفتار رونا ولسن کی طرف سے وزیر اعظم کے قتل کی مبینہ سازش کا پردہ فاش کرتے ہوئے امریکہ کی ڈیجیٹل فارینسک فرم آرسنیل کنسلٹنگ کی ایک رپورٹ میں ان خطوط کی صداقت پر سنگین سوالات اٹھائے۔ ڈیجیٹل فارینسک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہیکرز کی مدد سے ولسن کے لیپ ٹاپ کو ہیک کر کے مشتبہ دستاویزات ولسن کے لیپ ٹاپ میں محفوظ کیے گئے تھے۔ اخبار کے مطابق ولسن کے گھر پر چھاپے ماری سے قبل ہی ان کے لیپ ٹاپ سے چھیڑ چھاڑ ہوئی اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مشتبہ ڈاکیومنٹ ان کے لیپ ٹاپ میں رکھے گئے اس طرح سناتنی متشدد لوگوں کو بچا کر یہ سارا ٹھیکرا سرکار نے اربن نکسل کے سر پر پھوڑ دیا۔
یلغار پریشد کی دوسری کانفرنس اور شرجیل عثمانی کی تقریر
یلغار پریشد کی پہلی کانفرنس کے بعد تشدد کے واقعات اور گزشتہ سال کورونا وبا کی نذر ہو جانے سے اس سال 30 جنوری کو کورونا کی تحدیدات کی وجہ سے اس سال بھیما کورے گاوں کے وجئے استمبھ پر پروگرام نہیں کیا گیا بلکہ پونے کے ایک فنکشن ہال میں یہ دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس کولسے پاٹل، سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کے مرکزی وزیر رام داس آٹھولے، نائب وزیر اعلیٰ مہاراشٹر اجیت پوار وغیرہ شریک تھے۔
اس کانفرنس میں جہاں بہت سے دانشور مدعو تھے وہیں ایک سماجی جہد کار کے طور پر شرجیل عثمانی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ شرجیل نے اپنی تقریر سے پہلے ملک میں ہو رہی نا انصافیوں پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون اور زرعی قانون کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اپنے خطاب کے دوران برہمنی اور سناتنی ہندو دھرم کی چال بازیوں اور مکاریوں پر ’سڑا ہوا ہندو سماج‘ کہہ کر تنقید کی جس کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اب ان کی گرفتاری کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ ممکن ہے کہ حکومت سنگھیوں کے دباو میں آکر اسے بھی پابند سلاسل کر دے۔ حالانکہ خود کئی بار ہندووں میں سے انصاف پسند، سائنسی نقطہ نظر رکھنے والے افراد ہندو سماج کے غلط نظریات اور توہم پرستی پر سخت تبصرے کر چکے ہیں۔ ماضی میں مہاراشٹر کے موجودہ وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے کے دادا اور بال ٹھاکرے کے والد سماجی مصلح اور پر بودھن رسالے کے مدیر بھی ہندو سماج پر سخت نکتہ چینی کر چکے ہیں۔
شرجیل کو یہ تبصرہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
شرجیل کے اس بیان پرکچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت ایسے بیان سے احتیاط کرنا چاہیے تھا لیکن اگر یلغار پریشد کی تاریخ اور دلتوں، قبائلیوں کے نزدیک اس کانفرنس کی اہمیت کی بات کی جائے تو شرجیل کے اس بیان کا دوسرا پہلو بھی سامنے آ جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ملک میں جاری سناتن اور برہمنی نظام کی بالا دستی کی کوشش اور دبے کچلے طبقات کے خلاف محاذ آرا ارباب اقتدار کے رویہ کے بعد اس قسم کی باتیں زبان سے نکلنا خلاف توقع نہیں ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی سماجی نا برابری اور عدم برداشت کے ماحول نے یہاں اب بولنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی زبانوں کو بے لگام کر دیا ہے۔ جانب دار میڈیا سے دست کش صحافی اور اہل قلم اب مظلوموں کی آواز بن رہے ہیں اور یہ لوگ ہر سطح پر سرکاری مظالم کے خلاف آواز اٹھار ہے ہیں۔
کیا ان حالات میں تبدیلی ہو گی؟
ملک میں معاشی ابتری، سماجی ناانصافی اور حق وصداقت کی آواز کو کچلنے کی کوششوں کے دوران بار بار یہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ کیا ان حالات میں تبدیلی ممکن ہے؟ ایک ایسے وقت جب کہ دنیا 20 فروری کو عالمی سماجی انصاف کا دن منانے جا رہی ہے ہمارے ملک میں سماجی انصاف کے لیے کام کرنے والے شدید مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب سرکاریں دقیانوسی اور سناتنی روایات کا سہارا لے کر لوگوں کو پھنساتی تھیں اب جدید زمانے میں کبھی سائبر حملوں کے ذریعہ تو کبھی نقلی اور خود ساختہ شواہد کو بنیاد بنا کر معصوموں پر شکنجہ کسنے لگی ہے۔ ذات پات کی سیاست اور منوسمرتی کی دین طبقاتی نظام کی کشمکش سے اب لوگ اوب چکے ہیں۔ اب دنیا مزید ظلم و جبر کی تاریکیوں کی متحمل نہیں ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر داعیان امن و انصاف کی ذمہ داری ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کا شفاف نظامِ زندگی بطور متبادل پیش کریں تاکہ اہل عالم بالعموم اور اہل وطن بالخصوص اس کی اہمیت کے قائل ہو جائیں اور ایک نیا نظامِ زندگی اس ملک کی تقدیر بن جائے۔ جہاں محبت، بھائی چارے اور ایک دوسرے کے جذبات کی لوگ قدر کریں اور یہ ملک امن وامان کا گہوارہ بنے۔ حالات میںتبدیلی صرف سوچتے رہنے سے نہیں بلکہ بڑھ کر کام کرنے سے ہی آسکتی ہے۔
***

ذات پات کی سیاست، اور منوسمرتی کی دین طبقاتی نظام کی کشمکش سے اب لوگ اوب چکے ہیں۔ اب دنیا مزید ظلم و جبر کی تاریکیوں کی متحمل نہیں ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر داعیان امن و انصاف کی ذمہ داری ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کا شفاف نظامِ زندگی بطور متبادل پیش کریں تاکہ اہل عالم بالعموم اور اہل وطن بالخصوص اس کی اہمیت کے قائل ہو جائیں اور ایک نیا نظامِ زندگی اس ملک کی تقدیر بن جائے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 21 فروری تا 27 فروری 2021