روس کی امریکا اور ناٹو کو جنگجوانہ دھمکی

مشرقی یورپ میں سوویت دور کا اثر و رسوخ دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش!

اسد مرزا

روس نے ایک مرتبہ پھر یوروپ میں نئے سیکیوریٹی نظام کو قائم کرنے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں اور ایک طریقے سے امریکا اور ناٹو کو دھمکی بھی دے دی ہے کہ اگر اس کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تو پھر ایک نئی جنگ کی شروعات ہوسکتی ہے۔ دفاعی اور خارجی امور کے ماہرین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ صدر پوتن کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اپنے کج فہم مطالبات کی بنیاد پر وہ یوکرین پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو دیگر ماہرین کی رائے ہے کہ وہ مغربی دنیا کو نئے طریقے سے تقسیم کرواکے یوروپ کے سیکوریٹی نظام کوایک نئی شکل دینا چاہتے ہیں جو زیادہ تر روسی مفادات کی حمایت کرے۔
روسی وزارتِ خارجہ نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوروپ سے اپنے جوہری نگہداشت اور حملے کرنے کے نظام کو یکسر ختم کردے یعنی روس چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر مشرقی یورپ پر روس کا تسلط قائم ہو۔ اپنے مطالبات کو روس نے غیر سفارتی طریقے سے پچھلے ماہ 17 دسمبر کو پیش کیا تھا۔ روسی وزارتِ خارجہ نے یکطرفہ طور پر دو نئے معاہدوں کا مسودہ شائع کیا ہے، ایک مسودہ امریکا کے لیے تھا اور دوسرا نیٹو کے لیے، جس میں سب سے عجیب بات یہ تھی کہ عملاً کوئی بھی معاہدہ دو ملکوں کے درمیان باہمی بات چیت کے بعد عمل میں آتا ہے نہ کہ یکطرفہ طور پر کوئی ملک کسی معاہدے کا اعلان کرکے اسے حتمی شکل دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ درحقیقت ان دونوں معاہدوں کو معاہدے کے بجائے مطالبات کی فہرست کہا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا۔
مطالبات کی پہلی فہرست کو ’’امریکا اور روسی فیڈریشن کے درمیان سیکیوریٹی کی ضمانت‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں امریکا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے جنگی طیارے اور جنگی بحری جہاز، فوجیں یا فوجی اسلحہ اپنے ہوائی ، بحری یا زمینی حدود سے باہر تعینات نہیں کرے اور نہ ہی وہ انہیں یورپ میں کسی ایسے مقام پر تعینات کرے جہاں سے وہ روس پر مار کرسکیں۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو روس ان اقدامات کو اپنے خلاف حملہ تصور کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی امریکا سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ یورپ سے اپنے تمام جوہری ہتھیار اور زمین سے مار کرنے والے چھوٹے اور درمیانی درجے کے میزائل بھی ہٹا لے اور آئندہ ان کا استعمال صرف اپنے زمینی حدود میں رہ کر ہی کرے۔
مطالبات کی دوسری فہرست کو ’’روسی وفاق اور نیٹو ممبروں کے درمیان سیکیوریٹی معاہدہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس میں نیٹو سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 27مئی 1997 کے بعد آزاد ہونے والے کسی بھی ملک کو نیٹو کا ممبر نہ بنائے، خاص طور سے یوکرین کو ۔مزید یہ کہ نیٹو کو زمین سے داغے جانے والے درمیانی اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو کسی ایسی جگہ پر تعینات کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے جہاں سے وہ روس کے خلاف داغے جاسکیں۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے اعلان کیا کہ دونوں عبارتیں ایک مکمل مسودہ کا حصہ ہیں یعنی آپ انہیں ایک ایسا مینو نہ سمجھیں جہاں آپ کسی ایک یا دوسری ڈش کا انتخاب کر سکتے ہیں یعنی کہ آپ کو ان دونوں پر ایک ساتھ عمل پیرا ہونا ہوگا۔
جب کہ روس توقع کرتا ہے کہ نیٹو اور امریکا اس کے مطالبات کی تعمیل کریں گے، ماسکو نے بدلے میں ایسے حالات یا حالات پیدا نہ کرنے کے لیے صرف ایک مبہم عہد کی پیشکش کی ہے جس سے دوسرے فریقوں کی قومی سلامتی کو خطرہ ہو۔ معاہدے کے مسودے میں ماسکو پر روسی افواج کو دوبارہ تعینات کرنے کے لیے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔
23 دسمبر کو پوتن نے چار گھنٹے کی پریس کانفرنس کے دوران، اپنے اس موقف کو دہرایا کہ ’’مشرق میں نیٹو کی مزید نقل و حرکت ناقابل قبول ہے‘‘ کچھ دنوں بعد، کریملن نے نیٹو کی توسیع کو روس کے لیے ’’ زندگی اور موت کا معاملہ‘‘ قرار دیا۔ 26 دسمبر کو روس نے فن لینڈ اور سویڈن کو نیٹو میں شمولیت کے خلاف خبردار کیا۔ روس کو امید ہے کہ وہ امریکی اور یورپی حکام کے ساتھ آنے والی ملاقاتوں کے سلسلے میں نئی حفاظتی ضمانتیں حاصل کر نے میں کامیاب رہے گا۔
تاہم ہم یہ محسوس کرنے پر مجبور ہیں کہ پوتن نے یہ مطالبات اتنے غیر معمولی انداز میں کیوں رکھے ہیں؟ کیا وہ یوکرین پر کسی ممکنہ حملے میں مغربی ممالک اور امریکا کا ردِ عمل جاننا چاہتے ہیں یا وہ کسی نئی عالمی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں، جس کے بارے میں کسی کو کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔ مزید یہ کہ ان مطالبات پر امریکا کا تاخیری ردعمل بھی عالمی رہنما کے طور پر اس کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
کشیدگی کم کرنے کی سمت مغربی اقدامات
امریکا اور روس نے دس جنوری کو یوکرین اور دیگر سیکیورٹی کے مسائل پر ایک دوسرے سے بات چیت کی جس میں دونوں طرف سے انتہائی متوقع اسٹریٹجک مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دی ۔واشنگٹن اور ماسکو دونوں کی جانب سے جنیوا میں ہونے والے نہایت اہم مذاکرات کے بارے میں بہت کم توقعات پوری ہوئیں کیونکہ دونوں ممالک کے سینئر سفارت کاروں نے کامیابی کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔
تاہم کسی بھی فریق نے اس ملاقات کو مکمل ناکامی کے طور پر بیان نہیں کیا ہے، نہ ہی یوکرین کے ساتھ اس کی سرحد پر روس کی فوج کی تعیناتی پر بڑھتے ہوئے تشویشناک تعطل کو کم کرانے کا کوئی امکان پیش کیا، جسے مغرب یورپی سلامتی کے لیے ایک بنیادی خطرہ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ماسکو نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع کو روکنے اور یہاں تک کہ مشرقی یورپ میں فوجی اتحاد کی تعیناتیوں کو واپس لینے کی ضمانتوں پر اصرار کرتا ہے، جب کہ واشنگٹن ان مطالبات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
دونوں فریقوں کی جانب سے اپنی اپنی پوزیشن اور یوکرین کا مستقبل کے سوال پر روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا کہ نیٹو کی توسیع کے مرکزی مطالبے پر ’’کوئی پیش رفت‘‘ نہیں ہوئی، حالانکہ انہوں نے باصرار کہا کہ ’’ہمارا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘‘ریابکوف نے اپنی امریکی ہم منصب وینڈی شرمین کے ساتھ بات چیت کے بعد یہ بات کہی۔
محترمہ شرمین نے مذاکرات کو ایک ’’صاف اور صریح بحث‘‘ قرار دیا لیکن کسی پیش رفت کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایاکہ اس بات چیت کو آپ مذاکرات قرار نہیں دے سکتے۔ انہوں نے مزید کہا’’تاہم، ہم سیکورٹی کی تجاویز کو پیچھے دھکیلنے پر مضبوطی سے قائم رہے۔ ہم کسی کو بھی نیٹو کی ”کھلے دروازے کی پالیسی” کو بند کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو اس میں شامل ہونے کے خواہاں ممالک تک کھلا رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن خودمختار ریاستوں کے ساتھ دو طرفہ تعاون کو ترک نہیں کرسکتا جو امریکا کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہم یوکرین کے بغیر یورپ، یورپ کے بغیر نیٹو اور ناٹو کے بغیر یورپ کے بارے میں فیصلے نہیں کریں گے۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین اور دیگر سابق سوویت ریاستوں تک نیٹو کی توسیع کو ماسکو کے لیے ایک ”سرخ لکیر” قرار دیتے ہوئے مغرب سے اس بات کی پابند ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس اتحاد کے رکن نہیں بنیں گے۔
تاہم، نہ تو شرمین اور نہ ہی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے یہ کہا کہ کیا امریکا پابندیوں کے ساتھ آگے بڑھے گا، اگر روس حملہ نہ کرنے کا انتخاب کرتا ہے بلکہ سرحد سے اپنی فوجیں ہٹانے سے بھی انکار کرتا ہے؟
اس پورے قضیے میں جس تنظیم کی شمولیت نہیں ہوئی ہے وہ ہے یورپی یونین۔ یورپی یونین کا اپنے ہی گھر کے پچھواڑے میں جنگ اور امن پر بات چیت سے خارج ہونا تکلیف دہ ہے۔ پوتن اور بائیڈن کے درمیان، یورپ کو ایک طریقے سے الگ کر دیا گیا ہے۔ پچھلے ہفتے فرانسیسی اخبار ’لی مونڈے‘ نے ایک سرخی لگائی تھی جس میں یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزف بوریل کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا ’’مجھے پروا نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا جب بی بی سی نے پوچھا کہ کیا امریکا کو جنیوا مذاکرات کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے تھا تو انہوں نے کہا کہ روسیوں نے ’’جان بوجھ کر یورپی یونین کو کسی بھی شرکت سے خارج کر دیا تھا‘‘ لیکن انہیں امریکا کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ’’ہمارے مضبوط تعاون، ہم آہنگی اور شرکت کے بغیر کسی چیز پر اتفاق نہیں کیا جائے گا۔‘‘
نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا کہ یورپی اتحادی میز پر ہیں کیونکہ یورپی اتحادی نیٹو میں ہیں۔ نیٹو روس مذاکرات کے بعد، اسٹولٹن برگ بدھ کی شام شمال مغربی فرانس کے بندرگاہی شہر بریسٹ میں یورپی یونین کے وزرائے دفاع کے اجلاس کو بریفنگ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دونوں تنظیموں میں 21 رکن ممالک مشترک ہیں۔ اس کے بعد رو س نے نیٹو کے 30 رکن ممالک سے بدھ 12جنوری کو بروسلز میں اتحاد کے ہیڈکوارٹر میں ملاقات کی، جو روس اور مغربی ممالک کے درمیان اس ہفتے یورپ میں منعقد ہونے والی تین سفارتی میٹنگوں میں سے دوسری تھی، جو روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ فوجیوں کی تعداد میں اضافے کے خدشات کے درمیان ہوئی ہے۔
بدھ کی بات چیت میں، نیٹو نے روس کو پیشکش کی کہ وہ یوکرین کے ارد گرد کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اسے قائل کرنے کی کوشش میں ہتھیاروں کے کنٹرول اور اعتماد سازی کے دیگر اقدامات پر بات چیت کے لیے کئی اجلاس منعقد کرے۔ اتحاد کے سکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا کہ اس نے میزائلوں کی تعیناتی اور فوجی مشقوں کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ مواصلات اور شفافیت کو بہتر بنانے کے بارے میں بات چیت کی تجویز بھی پیش کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ روس نے کہا کہ اسے اس پیشکش پر غور کرنے کے لیے وقت درکار ہے، لیکن اس نے اسے یکسر مسترد نہیں کیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم مل
بیٹھ کر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان مذاکرات سے کوئی بامعنیٰ نتائج حاصل ہوسکیں گے اور ساتھ ہی وہ جنگ کے خطرے کو بھی کم کرنے میں معاون رہیں گے۔
لیکن نیٹو نے متفقہ طور پر ماسکو کے اس باضابطہ ضمانتوں کے بنیادی مطالبات کو مسترد کر دیا کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو میں شامل نہیں ہو گا اور یہ اتحاد مشرقی یورپ کے ان ممالک سے اپنی افواج کو واپس بلا لے گا جو سرد جنگ کے بعد شامل ہوئے تھے۔
بدھ کی میٹنگ میں روس کے مذاکرات کاروں، نائب وزیر خارجہ الیگزینڈر گرشکو اور نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومین کے دوبارہ وہی مطالبات پیش کرنے کے بعد نیٹو اور امریکا نے کہا کہ وہ اتحاد کے ”بنیادی اصولوں” پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
امریکی وفد کی قیادت کرنے والی امریکی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے ملاقات کے بعد کہا کہ ’’امریکا اور ہمارے نیٹو اتحادیوں نے مل کر واضح کیا ہے کہ ہم نیٹو کی کھلے دروازے کی پالیسی پر دروازہ بند نہیں کریں گے۔‘‘ نیٹو نے روس کا کلیدی مطالبہ ایک بار پھر مسترد کر دیا تاہم امریکی اور نیٹو حکام نے کہا کہ سفارتی حل کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔
روس نے کئی دہائیوں سے ان ممالک میں نیٹو کی توسیع کی شکایت کی ہے جو پہلے سوویت یونین کے ماتحت ماسکو کے زیر تسلط تھے۔ کریملن اب الزام لگاتا ہے کہ یوکرین کو نیٹو کی مدد کا مطلب ہے کہ سابق سوویت ملک اتحاد حقیقتاً (De Facto) حصہ بن رہا ہے۔ امریکا اور نیٹو کا کہنا ہے کہ ماسکو کا مطالبہ مشرقی یورپ پر اپنے سوویت دور کے اثر و رسوخ کو دوبارہ مسلط کرنے کی کوشش ہے اور یہ ممالک کے اپنے سیکیورٹی اتحادوں کا انتخاب کرنے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے۔
جمعرات13جنوری کو، یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (OSCE)کے ساتھ روسی وفد کی تیسری میٹنگ ہوئی۔ OSCEسرد جنگ کے دور کا ایک فورم ہے جس میں براعظم کے تمام ممالک، امریکہ اور کینیڈا اور وسطی ایشیا کے کئی ممالک بھی شامل ہیں۔ تاہم اس اجلاس میں بھی جیسا توقع کی جارہی تھی کوئی نئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔دونوں فریق اپنے پرانے موقف پر قائم رہے اور کسی نے بھی کوئی نرم رخ اختیار کرنے کا اشارہ نہیں دیا ہے۔ تاہم کریملن نے تجویز دی ہے کہ وہ فیصلہ کرے گا کہ آیا اس ہفتے کی میٹنگوں کے بعد بات چیت، جاری رکھنے کے قابل ہے یا نہیں۔ پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے منگل کے روز کہا کہ ماسکو نے اب تک ”امید کی کوئی خاطر خواہ وجہ نہیں دیکھی” لیکن فی الحال وہ کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر رہا ہے۔
مجموعی طور پر یہی تاثر قائم ہورہا ہے کہ دونوں فریق اپنا موقف تبدیل نہیں کریں گے اور اس بات کے قوی امکان ہیں کہ روس اس مہینے کے آخر تک یوکرین پر حملہ کردے کیونکہ اگر وہ اس میں تاخیر کرتا ہے تو پھر موسم تبدیل ہونے کی وجہ سے یوکرین میں برف پگھلنے کے بعد زمین نرم ہوکر دلدل میں بدل جائے گی اور اس حالت میں روس اپنے بھاری ٹینک اور زرہ بکتر کی گاڑیاں استعمال کرنے سے قاصر رہے گا اور اگر وہ حملہ نہیں کرتا ہے تو پھر اسے آٹھ مہینے مزید انتظار کرنا ہوگا جو کہ اس کی مجموعی حکمت عملی کے لیے ناقابلِ برداشت ہوسکتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
www.asad-mirza.blogspot.com
***

 

***

 جس طریقے سے روس نے ناٹو اور امریکہ کو اپنے نئے مطالبات کی فہرست مہیا کرائی ہے اس سے یہی گمان ہوتا ہے کہ روس ان مطالبات کی آڑ میں یوکرین پر حملہ کرسکتا ہے جو کہ یوروپ میں کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022