دواوں کے کاروبار میں منافع خوری کا بڑھتا رجحان

سخت ضابطہ اخلاق نہ ہونے کے باعث انسانی ہمدردی کے مستحق شعبہ میں بدترین لوٹ کھسوٹ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ہمارے ملک میں جاریہ بدعنوانیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ضروری قوانین بنائے جاتے ہیں مگر بدعنوان انتظامیہ کی وجہ سے وہ کہیں بھی نافذ ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ نیا طبی ضابطہ اخلاق 2002ڈاکٹروں کو دوا بنانے والی کمپنیوں سے رشوت اور گفٹس اور دیگر لین دین کو قانوناً جرم قرار دیتا ہے مگر ہزاروں کروڑ روپیے کا کاروبار کرنے والی کمپنیاں ایسے تمام حرکتوں کی جوابدہی سے بچ جایا کرتی ہیں۔ اس طرح دوا سازی کے لیے یونیفارم کوڈ آف فارما سیوٹیکل مارکیٹنگ پروڈکٹس کے مد نظر2015میں قانون سازی کی گئی۔ مگر اس میں ضابطہ اخلاق پر سختی سے پابندی کا کوئی موثر حربہ نہیں ہے،اس لیے کمپنیاں زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے اس نرمی کا خوب فائدہ اٹھارہی ہیں۔ جنوری 2019میں کرناٹک کے ایک ایم پی نے راجیہ سبھا میں کمپنیوں کے ذریعے کیے جانے والے غیر اخلاقی کاروبار کا مسئلہ اٹھایا تو وزیر صحت نے کہا کہ ہاں کچھ کمپنیوں کے متعلق ایسی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ آر ٹی آئی کے ذریعہ 2019میں حاصل کردہ 20 بدعنوان کمپنیوں کی فہرست متعلقہ وزارت اور شعبوں کو دی گئی مگر ان کمپنیوں پر کسی طرح کی قانونی کارروائی ممکن نہیں ہوسکی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دوا ساز کمپنیوں کو وزارت صحت کے ماتحت رکھ کر سخت قانون بنائے جائیں۔ واضح رہے کہ غیر ملکی کمپنیوں میں جانسن اینڈ جانسن پر 2.20ارب ڈالر، فائیزر پر 2.3ارب ڈالر گلیکسوپر 3ارب یورو کا جرمانہ عائد کیا گیا جسے ان کمپنیوں کو ادا بھی کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے فائیزر پر 2018میں لاکھوں ڈالر کا جرمانہ لگایا گیا مگر بھارت میں ایسے کسی طرح کے قانون کی عدم موجودگی سے وہ سب کمپنیاں بے لگام ہیں۔ ملک میں دوائوں کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری ڈپارٹمنٹ آف فارما سیوٹیکل کو وزارت کیمیکل کے ماتحت رکھا گیا ہے دیگرادارہ قومی ادویات قیمت کنٹرول بورڈ ہے مگر اس کے اندر کسی طرح کی سزا اور جرمانہ کی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دوا کی قیمت کے تعین کے لیے کسی طرح کا کوئی سخت قانونی نظم نہیں ہے۔ قانونی طور سے فارما محکمہ بنیادی دوائوں کی قیمت متعین کرتا ہے۔ دوا سازکمپنیاں اپنی چالاکی سے ان بنیادی دوائوں میں ایک دو اضافی سالٹس ملاکر نیا برانڈ بازار میں لے آتی ہیں اور من مانی قیمت وصول کرتی ہیں۔ مثلاً حکومت 500mg کی قیمت متعین کرتی ہے۔ اس سے زیادہ کی نہیں۔ ڈولو بنانے والی کمپنی خامیوں سے پر ضابطہ کا فائدہ اٹھا کر انہیں اجزا پر مشتمل 650mg کے پاور والی دوا بازار میں لے آئی۔ جب 500mg کے ایک پتے کی قیمت 2013میں 5.10روپے کی تھی مگر اب 650mg والی اسی دوا کی قیمت 30.91روپے کردی گئی۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 650mg ڈولو 500mg والی دوا سے زیادہ موثر نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ 650mg ڈولو کے برے اثرات جگر اور گردوں پر پڑتے ہوں۔ اخلاقی طور پر دوا ساز کمپنیوں کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت تھی مگر کمپنیاں اس کی قطعاً پروا نہیں کرتی ہیں۔ دراصل ہمارے ملک میں جس کی آبادی 1.35کروڑ ہے جہاں دوائوں اور اس سے وابستہ طبی آلات کے کاروبار میں کسی طرح کا ضابطہ تو ہے ہی نہیں اور جو بھی ہے بہت ہی سطحی اور گھٹیا معیار کا ہے جس کا فائدہ فارما سیوٹیکل کمپنیاں خوب اٹھاتی ہیں اور عام لوگوں کا بھرپور استحصال ہوتا ہے اس کے علاوہ غیر ضروری دوائوں کا استعمال دھڑلے سے جاری ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل کے ذریعے ڈاکٹروں اور دوا کمپنیوں کی ملی بھگت اور غیر اخلاقی کاروبار پر سوال اٹھایا گیا۔ اس درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ کمپنی نے ڈولو 650mg گولی کو بڑی مقدار میں لوگوں کو پہنچانے کے لیے ڈاکٹروں ایک ہزار کروڑ کی رشوت دی۔ ایک اندازہ کے مطابق ڈولو 650mg کی 350کروڑ گولیاں فروخت کی گئیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس چندر چوڑ نے تسلیم کیا کہ کورونا قہر کے دوران ڈاکٹر وں نے انہیں بھی اسی گولی کو استعمال کرنے کی تجویز دی تھی یہ محض ڈولو 650mg کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک میں دوا کے معاملے میں سخت ضابطہ اخلاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ گورکھ دھندہ خوب چل رہا ہے۔
آج ہمارا ملک طرح طرح کی بدعنوانیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جسے لالچی لوگ مختلف ناموں سے لوٹ رہے ہیں۔ شعبہ زندگی میں یہ مرض کینسر کی طرح سرایت کرگیا ہے۔ شعبہ صحت اور طبی خدمات انسانی زندگی کو صحتمند بنانے کا ضروری اور موثر ذریعہ ہے۔ مگر طبی گِدھوں نے اسے لوٹ کھوسٹ کا ذریعہ بنالیا۔ ادھر دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو کمیشن اور رشوت دے کر اپنی غیر معیاری اور مہنگی دوائیں مریضوں پر تھوپنے کا کام کررہی ہیں۔ میڈیا، مریض اور حکومت کو اس طرح کے غیر اخلاقی اور انسان سوز دھندے کا علم ہے مگر سب یہ چاہتے ہیں کہ اس کے خلاف دوسرے لوگ اٹھیں یا کم از کم طبی کمیشن اس کا نوٹس لے تو آج کے حالات میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔ واضح رہے کہ کوئی دوا ساز کمپنی اگر کسی دوا کو بازار میں لاتی ہے تو اس پر 20سالوں تک اس کا حق رہتا ہے کوئی دوسری کمپنی نہ ہی اس کی نقل کرکے تیار کرسکتی ہے اور نہ ہی فروخت کرنے کا حق رکھتی ہے کیونکہ وہاں پیٹنٹ کا معاملہ رہتا ہے۔ اس کی ایم آر پی میڈیکل کونسل کی اجازت سے طے کی جاتی ہے۔ فرض کریں کہ کسی کینسر کی دوا کی قیمت 20ہزار روپے درج ہوتی ہے۔ کوئی اسٹاکسٹ اسے 25ہزار روپے میں فروخت کرتا ہے۔ مریض کو خواہی نہ خواہی خریدنا ہی ہوتا ہے کیونکہ کارپوریٹ ہسپتالوں میں اس قیمت والی دوا کو تجویز کرنے کا ڈاکٹروں کو حکم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر تو ایسے ہسپتالوں میں ملازم ہوتے ہیں۔ مزید ڈاکٹروں کو ایک ہدف کے تحت دوائیں فروخت کروانا پڑتا ہے جس کا کچھ حصہ ڈاکٹروں کو اور ایک خطیر رقم ہسپتالوں کے حصے میں چلی جاتی ہے جب اس طرح کی من مانی لوٹ کھسوٹ پر ہنگامہ ہوا تو کینسر کی چند دوائوں کی قیمتیں کم کردی گئیں اور انہیں قیمتوں کی حد میں رکھنے والی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ ملک میں محض 20فیصد دوائیں ہی ہیں جنہیں ضروری دوائوں والی فہرست میں رکھاگیا ہے۔ 80فیصد دوائیں اس فہرست سے باہر ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ سبھی دوائوں کو ضروری فہرست میں ڈال کر غیر واجب زیادہ منافع خوری پر قدغن لگایا جائے۔اس سے مریضوں کو کافی راحت ملے گی۔ علاج پر آنے والے بھاری بھرکم اخراجات کی وجہ سے متوسط طبقے خط افلاس سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ علاج میں ان کی بچت، زمین جائیداد اور گھر کے عورتوں کے گہنے تک فروخت ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ 857دوائوں کے فارمولوں اور 376دوائوں پر قیمت کی حد طے کی گئی ہے۔
گرچہ ہم نے جدید دوائوں کی تیاری میں بہت سارے سنگہائے میل عبور کیے ہیں اور ہم فارما سیوٹیکل ہب کے طور پر جانے جاتے ہیں پھر بھی زندگی بچانے والی دوائوں کی دستیابی ہمارے ملک میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ نئے مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ بازاروں میں فروخت کی جانے والی 20میں سے 13 اینٹی بایوٹک دوائیں غیر معیاری اور ناقص ہیں۔ ایسی دوائوں کے منفی یا مثبت اثرات کا ٹھیک سے اندازہ نہیں ہے۔ اور عالمی تنظیم صحت نے بھی ان دوائوں کو تجویز کردہ فہرست میں نہیں رکھا ہے۔ (Ofloxacin)اور(Metronidazole)میں پائے جانے والے 10 اجزا کسی فارما محکمہ سے تسلیم شدہ (Approved) بھی نہیں ہیں مگر بازار میں دھڑلے سے فروخت ہورہے ہیں۔ دوسری طرف سنٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن (CDSCO) نے 239فارمولیشن میں سے 37پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور محض 63کو ہی تسلیم کیا ہے۔ ملک بھر میں 38۔(Antibiotic Combination) کے 13 فکسڈ ڈوز کمبینیشن (FDC) پر عالمی ادارہ صحت نے بھی پابندی لگارکھی ہے پھر بھی وہ بازار میں کھلے عام دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ مریضوں کو بلا تحقیق خوراک سے زائد (Over Dose) دوائیں بھی دیے جانے کا عام رواج ہے۔ اس سال کے شروع میں The Lancetنے اپنی تحقیق میں پایا ہے کہ 2019میں جنوبی ایشیائی ممالک میں 30فیصد (Microbial Death) ادویات کے Resistence کی وجہ سے ہورہی ہیں۔ اب انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت ٹھوس اور مثبت اقدام اٹھانے ہوں گے تاکہ استپال ڈاکٹر زاور دو ساز کمپنیاں مجرمانہ اور غیر اخلاقی حرکات سے باز رہ سکیں۔
***

 

***

 آج ہمارا ملک طرح طرح کی بدعنوانیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جسے لالچی لوگ مختلف ناموں سے لوٹ رہے ہیں۔ شعبہ زندگی میں یہ مرض کینسر کی طرح سرایت کرگیا ہے۔ شعبہ صحت اور طبی خدمات انسانی زندگی کو صحتمند بنانے کا ضروری اور موثر ذریعہ ہے۔ مگر طبی گِدھوں نے اسے لوٹ کھوسٹ کا ذریعہ بنالیا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022