دنیوی آفات سے مقابلہ میں مذہب کی معنویت

ہر ممکن تدبیر اختیار کرنے بعد اللہ کی زات ایک مومن کی امیدوں کا مرکز ہوتی ہے

یحيٰ قمر اثری

اس وقت ساری دنیا میں جووبا ناول کرونا وائرس کی صورت میں پھیلی ہے اس نے کئی نئے مباحث کو جنم دیا ہے۔ ان میں سے ایک اہم بحث مذہب سے متعلق ہے۔ ایک طرف منکرین مذہب کا گروہ ہے جس نے پوری قوت سے یہ مہم چلا رکھی ہے کہ اس وبا نے مذہب کو بے نقاب کر دیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود میں مذہب کا کوئی رول نہیں ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ انسانی آبادی ایک شدید بحران سے دوچار ہے مذہبی عبادتگاہوں میں تالے لگا دیے گئے ہیں اور انسانوں کی تمام تر امیدیں میڈیکل سائنس سے وابستہ ہیں۔ دوسری طرف مذہب کو ماننے والوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے اپنی تمام تر توقعات مذہب سے اس طور پر وابستہ کررکھی ہیں کہ دنیاوی وسائل و اسباب ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ ان کا ماننا ہے کہ مذہب سے ان کا تعلق ہی اس مسئلہ کا بنیادی حل ہے اور اس پریشانی سے نجات کے لیے انہیں مذہب کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
قرآن کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں نے یہاں دو بنیادی سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا اسباب اور تدابیر کے بغیرصرف مذہب سے تعلق کے ذریعے اس مسئلے یا اس جیسے دوسرے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے اور اگر نہیں تو مذہب کا اس صورتحال میں مطابقت یا اہمیت کیا ہے؟
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ انسانوں کو زندگی میں جو آزمائشیں اور مسائل پیش آتے ہیں ان میں دین اور عقیدے کی بنیاد پر فرق نہیں ہوتا۔ اجتماعی وبائیں بیماریاں اور معاشی مسائل سب کے لئے یکساں ہوتے ہیں اور ان کا شکار تمام لوگ ہوسکتے ہیں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا عقیدے سے ہو۔ انبیائے کرام اور ان کے متبعین کی زندگی اس قسم کی آزمائشوں اور پریشانیوں کے واقعات سے پر ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اہل ایمان متعدد آزمائشوں سے دوچار ہوئے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا دین ان وباؤں سے بچنے کا کوئی طریقہ بتاتا ہے؟ کیا مذہبی رسوم ورواج اور عبادات پر عمل کے ذریعے ان آزمائشوں اور مشکلات سے بچا جا سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جو مشکلات پیش آئیں کیا ان سے نمٹنے کے لیے اہل ایمان نے مذہب پر اکتفا کیا تھا؟
پہلا واقعہ جس پر ہم غور کریں گے نبی کریم ﷺکی مکہ سے مدینہ ہجرت کا ہے۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب قریش نے تمام قبائل کی باہمی رضامندی سے مل کر نعوذباللہ آپ ﷺکو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک سنگین موقعہ تھا جس میں آپ ﷺکو ہجرت کا حکم دیا گیا تھا۔ ہجرت کا یہ پورا واقعہ ہر قدم پر تدبیر اور منصوبہ بندی سے عبارت ہے۔ میں مختصراً کچھ اہم پہلووں کی طرف اشارہ کروں گا۔
جب آپ ﷺکو بذریعہ وحی اس سازش کی اطلاع ملی تو آپ دوپہر کے وقت جو کہ لوگوں کے آرام کا وقت ہوا کرتا تھا حضرت ابو بکرکے پاس تشریف لے گئے اور ان سے ضروری مشورہ کے لیے سب کو ہٹا لینے کی درخواست کی۔ حضرت ابو بکرنے عرض کیا کہ اس وقت یہاں حضرت عائشہ کے علاوہ کوئی نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے، اور پھر وہیں ہجرت کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی۔ حضرت ابو بکرنے ہجرت کی غرض سے دو اونٹنیاں ببول کی پتیاں کھلا کر تیار کر رکھی تھیں۔ ان کی درخواست پر نبیﷺ نے ان میں سے ایک قیمتاً قبول کر لی۔ حضرت ابوبکر کی صاحبزادی حضرت اسماء نے سفر کا کھانا تیار کیا۔ عبداللہ بن اریقط لیثی جو کہ راستوں کا ماہر تھا اور جس نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اس سے اجرت پر یہ معاملہ طے کیا گیا کہ وہ محفوظ راستوں سے ان کی مدینہ تک رہنمائی کرے گا۔ مکہ سے نکلنے کے بعد جبل ثور پہلی پناہ گاہ متعین ہوئی اور عبداللہ بن اریقط کو یہ ہدایت کر دی گئی کہ تین راتوں کے بعد وہاں ملاقات کرے۔ جبل ثور یمن کی جانب ہے اور مدینہ سے مخالف سمت میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس منزل کا انتخاب اہل قریش کو گمراہ کرنے کی ایک بہترین حکمت عملی تھی۔
ان تمام تیاریوں کے بعد جب ہجرت کی رات آئی جبکہ قریش نے اپنے منصوبے کو انجام دینے کا ارادہ کیا تھا، تو آپ ﷺنے حضرت علی کو اپنے بستر پر سونے کی ہدایت کی۔ادھر آپ ﷺضرت ابو بکر کے ساتھ یمن کی سمت چل پڑے اور فجر سے پہلے جبل ثور پہونچ گئے۔
اس پہاڑ کے ایک غار میں آپﷺ اور حضرت ابوبکر تین دن اور رات چھپے رہے، لیکن اس دوران آپ کو قریش کی تمام سرگرمیوں کی اطلاع ملتی رہی۔ حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبداللہ پورا دن مکہ میں گزارتے اور رات گئے غار پہونچ کر قریش کی ساری چالیں اور خبریں آپﷺ کے گوش گزار کر دیتے۔پھر وہ صبح سویرے مکہ میں یوں موجود ہوتے جیسے رات وہیں گزاری ہو۔حضرت ابوبکرکے غلام اپنی بکریاں چراتے ہوئے رات میں غار پہونچتے اور دونوں حضرات کو تازہ دودھ پیش کرتے۔ واپس ہوتے ہوئے وہ اپنی بکریوں کو عبداللہ بن ابو بکر کے قدموں کے نشانات پر لے جاتے تاکہ وہ نشانات باقی نہ رہ سکیں۔
چوتھے دن طے شدہ وقت پہ عبداللہ بن اریقط سواریاں لے کر وہاں پہونچا اور یہ مختصر قافلہ آگے کے سفر پہ روانہ ہوا۔گائیڈ اسے لے کر پہلے یمن کی جانب کافی دور تک چلا، جو کہ جیسا میں نے پہلے ذکر کیا، مدینہ سے مخالف سمت میں ہے۔ پھر مغرب کی طرف ساحل سمندر کا رخ کیا، اور ساحل کے قریب پہونچ کر شمال کا رخ کیا جدھر مدینہ واقع ہے۔ اس نے ایسا راستہ اختیار کیا تھا جس پر شاذونادر ہی کوئی سفر کرتا تھا۔
یہ ہیں وہ غیر معمولی احتیاطی تدابیر جو وقت کے نبی نے اختیار کیں، جسے خدا سے تعلق کا شرف حاصل تھا، اور جسے اس بات کا کامل یقین تھا کہ خدا کی نصرت اس کے ہمرکاب ہے۔اس سلسلہ میں ہم جس دوسرے واقعہ پر غور کریں گے وہ غزوہ بدر کا واقعہ ہے۔ ہجرت کو دو سال بھی نہیں گزرے تھے کہ مدینہ کی نئی نویلی اسلامی ریاست اس شدید آزمائش سے دو چار ہوئی اور اہل مکہ پوری قوت کے ساتھ اہل ایمان کا نام و نشان مٹانے کے لیے مدینہ پر چڑھ آئے۔ حالات کتنے سنگین تھے اس کا اندازہ آپ بعض مسلمانوں کے متعلق قرآن کے اس بیان سے لگا سکتے ہیں:’’وہ اس حق کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں‘‘(الانفال: ٦)
پھرکبار صحابہ ؓ سے مشاورت کے بعد نبی کریمﷺ ۳۱۳ اہل ایمان کے ساتھ اہل مکہ سے مقابلہ کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ جانے سے قبل آپ نے مدینہ کی حفاظت کے خیال سے ابولبابہ بن عبدالمنزر کو وہاں کا حاکم متعین کیا ۔ مدینہ کی بالائی آبادی کی حفاظت کی غرض سے عاصم بن عدی کو متعین فرمایا۔دو انٹیلی جنس کے ماہرین بُسیبہ اور عدی کو آگے روانہ کر دیا تاکہ اہل مکہ کی ایک ایک خبر ملتی رہے۔ بدر کے مقام پر پہونچے تو اطلاع ملی کہ اہل مکہ وادی کے دوسرے سرے تک آگئے ہیں۔ آپ ﷺ نے بھی فوج کو وہیں اترنے کا حکم دیا۔
قریش چونکہ پہلے پہونچ گئے تھے اس لیے موقعہ کا فائدہ اٹھا کر انہوں نےحکمت عملی کے تحت اس مقام پر قبضہ کر لیا تھا۔اہل ایمان جہاں اترے تھےوہاں پانی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ حضرت حباب بن منذر نے آپﷺ کو مشورہ دیا کہ اگر اس جگہ کا انتخاب وحی کی روشنی میں نہیں کیا گیا تو آگے بڑھ کر چشمہ پر قبضہ کر لیا جائے اور آس پاس کے کنویں بیکار کر دیے جائیں۔ جنگی نقطہ نظر سے یہ بڑی اہم تدبیر تھی تاکہ اہل مکہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال نہ کر سکیں۔ نبی کریمﷺ نے اسے پسند فرمایا اور اسی پر عمل کیا، گو کہ رحمۃ للعالمین نے اہل مکہ کو بھی چشمہ سے پانی لینے کی عام اجازت دے رکھی تھی۔ آپﷺ نے اہل ایمان کے کمانڈر کی حیثیت سے جنگی اصولوں کے مطابق فوج کی ترتیب متعین فرمائی اور اسے تین حصوں میں تقسیم کر کے ان کے الگ الگ علم بردار متعین کیے۔ جنگ کی صبح آپ نے فوج کو صف آرا ہونے کا حکم دیا۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا جس کے اشارے سے آپ یوں صفیں ترتیب دے رہے تھے کہ کوئی شخص ذرا بھی آگے یا پیچھے نہ ہو۔ یہ تھا ایک مختصر جائزہ ان تیاریوں اور تدبیروں کا جن کے ساتھ اہل ایمان کی فوج اہل مکہ کے مقابلہ کے لیے صف آرا ہوئی تھی۔
آپ ان واقعات کی روشنی میں غور کریں کہ کیا وقت کا نبی اور اس کے ساتھیوں سے زیادہ کوئی فرد یا جماعت نصرت خداوندی کی مستحق ہو سکتی ہے؟ اس کے باوجود کیا نبی اکرمﷺ اور اہل ایمان نے محض اس وجہ سے اپنی کوششوں اور تدبیروں میں کوئی کسر چھوڑی، کہ وہ خدا کی راہ میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ کیا ہم یہ جسارت کر سکتے ہیں کہ نبی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں یہ گمان بھی کر سکیں کہ نعوذباللہ انہیں خدا پر یقین اور توکل نہیں تھا؟ اگر وقت کا نبی اور اس کے ساتھی خدا سے براہ راست تعلق ہونے کے باوجود عالم اسباب میں میسر سارے وسائل اور تدابیر اختیار کر سکتے ہیں، تو آخر کون سا ایمان ہمیں ان وسائل کو اختیار کرنے سے روکتا ہے؟ آپ غور کریں کہ کس طرح وقت کا نبی ماہرین کی رائےکو اہمیت دیتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اسے اختیار کرتا ہے بلکہ اپنے فیصلے پر اسے ترجیح دینے میں بھی کوئی عار نہیں محسوس کرتا۔ کیا آج ہمارے لیے سنت نبوی کے اس نمونہ میں کوئی قابل تقلید پہلو نہیں؟
ان واقعات کی روشنی میں یہ بات بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ عالم اسباب میں وسائل اور تدابیر کے استعمال کے ذریعہ ہی مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا یقین اور توکل کے منافی نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مشکلات کو حل کرنے کے لیے وسائل اور تدابیر کا استعمال ناگزیر ہے تو آخر مذہب کس مرض کی دوا ہے؟ کیا منکرین مذہب کی یہ بات درست مان لی جائے کہ موجودہ دور میں غیر معمولی سائنسی ترقی نے مذہب کے رول کو محدود بلکہ سرے سے ختم ہی کر دیا ہے؟
اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ صحیح مذہبی تعلیمات کی روشنی میں دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں، وباوں اور بیماریوں کا علاج دریافت کرنا اور ان کی تفصیلات سے باخبر کرنا کبھی مذہب کا بنیادی موضوع نہیں رہا۔ انبیاء کبھی اس معنی میں طبیب بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ جیسا کہ ہم نے ابھی دیکھا خود نبیﷺ نے بھی ان مسائل کے حل کے لیے میسر وسائل کا سہارا لیا ہے۔ چنانچہ سائنسی ترقی کا مذہب کے رول کو متاثر کرنا ناممکن ہے کیونکہ دونوں کے موضوع اور دائرہ کار میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ دنیا میں رائج خدائی قوانین کو سمجھنے کے نتیجہ میں سائنس اور دیگر علوم کی بے پناہ ترقی سے ان مشکلات سے نبرد آزما ہونے کی ہماری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔
اب ہم اپنے دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں کہ آخر مذہب کا اس میں رول کیا ہے؟ کیا مذہب کسی پہلو سے ان مشکلات کے حل میں معاون ہوتا ہے؟
ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ اس دنیا میں اختیار کی جانے والی کسی بھی تدبیر کا نتیجہ یقینی نہیں ہوتا۔جہاں ایک طرف اس سے مطلوبہ نتائج برآمد ہونے کی توقع ہوتی ہے، وہیں دوسری جانب اس کی ناکامی کا خدشہ بھی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سارے وسائل اور تدابیر اختیار کرنے کے باوجود انسان کو ناکامی کا خوف پریشان اور بےچین رکھتا ہے۔معاملہ جتنا ہی سنگین اورخطرہ جتنا بڑا ہو انسان اتنا ہی خوفزدہ اورفکرمندہوتا ہے۔ خوف کی نفسیات بعض دفعہ اتنی غالب ہوتی ہے کہ انسان زندگی سے نا امید ہو جاتا ہے۔ نت نئے اندیشے اور وسوسے اسے پریشان کرتے ہیں اور وہ جیتے جی گھٹ گھٹ کر مرنے لگتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جب مذہب توکل جیسی عظیم نعمت کے ذریعہ اسے ہر قسم کے خوف اور تمام اندیشوں سے نکال کر سکون اور اطمینان کی دولت عطا کرتا ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو میڈیکل سائنس اپنی تمام تر ترقی کی باوجود عطا کرنے سے قاصر ہے۔ توکل دراصل تمام میسر تدابیر اختیار کرنے کے بعد اپنی عاجزی کا اعتراف کرتے ہوئے معاملات کے نتائج کو خدا کے سپرد کر دینے اور رضائے الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کا نام ہے۔یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ توکل کے ذریعہ انسان کو یہ یقین حاصل نہیں ہوتا کہ نتائج بہر صورت اس کی توقع کے مطابق ہی نکلیں گے، بلکہ خدا کی ذات پر یقین کے ذریعہ اسے یہ اطمینان ہوتا ہے کہ خدا کا ہر فیصلہ جو خواہ بظاہر اس کے لیے ناپسندیدہ ہی کیوں نہ ہو، اس میں اس کے لیے خیر کا کوئی پہلو پوشیدہ ہے جس کا علم اس ذات کو ہے جو معاملے کے تمام پہلووں سے واقف ہے۔
آئیے ایک بار پھر ان واقعات پہ جو اوپر ذکر ہوئے ہیں ایک نظر ڈالیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ ان سنگین حالات میں نبی کریم ﷺ کے رویہ میں توکل کے حوالہ سے ہمارے لیے کیا سبق ہے؟
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہجرت کے موقعہ پر آپﷺ نے غیر معمولی احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں۔ لیکن کیا آپ ان تدابیر کے بھروسے اس خطرناک سفر پہ نکل کھڑے ہوئے تھے؟ آپﷺ کا صرف ایک جملہ اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ جملہ اتنا غیر معمولی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کو قرآن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ جب آپﷺ حضرت ابو بکر کے ہمراہ غار ثور میں پوشیدہ تھے، قریش نے آپ کو ڈھنڈنے کے لیے ایک زبردست مہم چلا رکھی تھی۔ مختلف کھوجی گروہ ہر ممکنہ مقام پر آپ کی تلاش میں لگے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک گروہ غار کے اتنے قریب پہونچ گیا کہ حضرت ابو بکر یہ سوچ کر بہت پریشان ہو گئے کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنے پیر کی طرف نظر ڈالی تو انہیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبیﷺ کے اطمینان میں ذرا بھی فرق نہیں آیا اورآپ نے فرمایا: لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے)۔ یہ ہے وہ غیر معمولی یقین جو ایک مومن کو انتہائی سنگین لمحات میں بھی خدا پر ہوتا ہے۔ یہ اطمینان اور یقین یہ ظاہر کرتا ہے کہ آپﷺ نے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کے بعد نتیجہ کو خدا کے سپرد کر دیا تھا۔ اسی کا نام توکل ہے۔ پھر اس سے حاصل ہونے والے فائدے کو بھی قرآن کی اسی آیت کے اگلے حصہ میں واضح کیا گیا ہے: ’’اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون قلب نازل کیا اور ان دیکھے لشکروں سے اس کی مدد کی‘‘ (التوبة ۴۰ )اطمینان ہے جو خدا توکل کے نتیجے میں اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔ یہ سکون اور اطمینان ایک مومن کو غیر محسوس طریقے سے ایسی غیر معمولی قوت عطا کرتا ہے کہ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتا اور انتہائی سنگین لمحات میں بھی پریشان نہیں ہوتا۔
آئیے اب غزوہ بدر پہ جس کی کچھ تفصیلات اوپر بیان ہوئیں اس پہلو سے ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کیا وقت کا نبی اپنی جنگی تیاریوں اور تدبیروں پراعتماد کر کے مطمئن ہو گیا تھا؟ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ جنگ کی تیاریوں سے فارغ ہو کرپوری رات عبادت میں مصروف رہے۔ جنگ کی صبح جب آپ صفوں کی ترتیب سے فارغ ہوئے تو آپ پر سخت خضوع کی کیفیت طاری تھی۔ آپ دونوں ہاتھ پھیلا کر اور سجدے میں گر کر یہ دعائیں مانگ رہے تھے: اے اللہ یہ ہیں قریش اپنے سامان غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے خدا بس اب آ جائے تیری مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ اے اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی۔ یہ ہے وہ رویہ جو ایک مومن سے مطلوب ہے کہ ساری تدابیر کے باوجود اس کی امیدوں کا مرکز خدا کی ذات ہو۔ اسے اس بات کا یقین ہو نتائج کا اختیار اسی کے پاس ہے۔ ان دعاوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے موقعہ سے اہل ایمان پر اپنے جن انعامات کا تذکرہ کیا ہے ان میں سکون اور اطمینان قلب کو بالخصوص نمایاں طور پر بیان کیا ہے۔ (ملاحظہ کریں ، الانفال: ۹۔۱۱)
اس پوری گفتگو سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ توکل کا مرحلہ تدبیر کے بعد آتا ہے، اور ایک مومن مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے ان دونوں کا سہارا لیتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کا بدل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کی متعدد آیات اور مختلف احادیث میں یہ بات اتنی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ اس میں شبہے کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ ایک بدوی اونٹ پر سوار ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول: میں اونٹ کو چھوڑ کر خدا پر توکل کروں یا اس کوباندھ کر؟ ارشاد ہوا اس کو باندھ کر خدا پر توکل کرو۔مذہب کی یہ تعلیمات اور خدا پر یقین اور اعتماد کا یہ رویہ اہل ایمان کو اس طرح کی صورتحال میں گھبراہٹ اور خوف ہراس جیسی آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ کنفیوزن کا شکار نہیں ہوتے اور آنکھ بند کر کے ہر کس و نا کس کے بتائے ٹوٹکوں کے پیچھے نہیں بھاگتے۔ ماہرین کی رائےکی روشنی میں تدابیر اختیار کرنے اور نتائج کے سلسلہ میں خدا پر اعتماد کے بعد وہ اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنے مثبت تعمیری کاموں میں منہمک ہو جاتے ہیں۔چنانچہ اگر اس صورتحال میں آپ خوف اور اندیشوں کا شکار ہیں اور اطمینان اور سکون کی نعمت سے محروم ہیں تو آپ کو چاہیے کہ خدا سے اپنے تعلق کا از سر نو جائزہ لیں اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش کریں۔ ایمان کی بنیاد خدا پر اعتماد اور یقین کے اسی رشتہ سے قائم ہے اور اس کی غیر موجودگی میں ایمان کی حیثیت محض علامتی رہ جاتی ہے۔اس طرح کی صورتحال میں مذہب کا ایک اور بنیادی کردار یہ ہے کہ وہ مشکلات اور پریشانیوں کو ان کے تمام تروقتی منفی اثرات کے باوجود افراد اور اقوام کے لیے ایک مثبت تجربہ بنا دیتا ہے۔ مصائب اور مشکلات اہل ایمان کے لیے وہ بھٹیاں ہوتی ہیں جن میں تپ کر ان کی صلاحیتیں نکھرتی ہیں، ان کے میل کچیل صاف ہوتے ہیں اور وہ ان پریشانیوں سے کندن بن کر باہر نکلتے ہیں۔ سلسلہ صفحہ نمب21
ایسا دراصل رویوں کی اصلاح کے ذریعہ ممکن ہوتا ہے۔ آزمائش کے ختم ہونے کے بعد ایک انسان کا رویہ یہ طے کرتا کہ آزمائش کا دور اس کی زندگی کا ایک تکلیف دہ حصہ بن جاتا ہے جسے وہ ساری زندگی کبھی یاد نہیں کرنا چاہتا یا وہ اس کی زندگی میں ایک مثبت تبدیلی کا نقطہ آغاز بن جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مختلف احادیث میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ ایک مومن جب مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے بدلے اس کے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ اجر کا مستحق قرار پاتا ہے۔ بلکہ بعض روایات میں تو مومن کے لیے بڑی مصیبتوں پر جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور بعض وبائی بیماریوں سے وفات کی صورت میں اسے شہید کا درجہ دیا گیا ہے۔ کیا کوئی شخص ان انعامات کا مستحق صرف ان پریشانیوں کی وجہ سے بن جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ مصیبتیں اہل ایمان مِیں غیر معمولی مثبت تبدیلیوں کا سبب بنتی ہیں جن کے نتیجہ میں وہ ان انعامات کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ بعض احادیث میں اس کی وضاحت بھی موجود ہے۔آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کون سے رویے ہیں جن کی بنیاد پر اہل ایمان مصیبتوں اور پریشانیوں کو اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ طوالت سے بچنے کی خاطر میں صرف اہم پہلووں کی طرف اشارہ کروں گا۔قرآن کی مختلف آیات اور متعدد احادیث میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ انسان کو جو پریشانی بھی پیش آتی ہے وہ اس کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی بارہا ارشاد ہوئی ہے کہ خدا کی اس کائنات میں اس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا، اور کوئی بھی پریشانی خدا کی مرضی کے بغیر انسان کو نہیں پہونچ سکتی۔ خدا کی نافرمانی کی صورت میں جو آزمائشیں آتی ہیں ان سے پناہ مانگنے اور ان سے محفوظ رہنے کی خاطر تضرع اور انابت کی تاکید کی گئی ہے۔
ایک مومن جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو ان تعلیمات کی روشنی میں اس کے اندر رجوع الی اللہ اور انابت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ خدا کے حضور روتا اور گڑگڑاتا ہے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ خود احتسابی کے عمل سے گزر کر اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا ادراک کرتا ہے اور ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر اپنی کم مائیگی اور دنیا کی بے بضاعتی اور بے ثباتی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ اسے خالق کائنات کی زبردست قوت و طاقت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے وہ معرفت حاصل ہوتی ہے جو بسا اوقات زندگی بھر کے مطالعہ اور ہزاروں تگ ودود کے باوجود حاصل نہیں ہوتی۔ یہ معرفت اسے اس کے مقصد زندگی سے روشناس کراتی ہے اور وہ اس مقصد کے لیے خود کو بدلنے اور زندگی جینے کا عزم کرتا ہے۔اس دنیا کی ناپائیداری کا یقین اور آخرت کی ابدی زندگی میں خوشیوں کی تلاش کا احساس اس کے اندر اعلیٰ ترین اخلاقی صفات پیدا کرتا اور انہیں پروان چڑھاتا ہے جس کے عوض اسے کسی صلے اور ستائش کی تمنا نہیں ہوتی۔ یہ اخلاقی صفات کسی بھی فرد اور قوم کو وہ قوت اور برتری عطا کرتی ہیں جس کا مقابلہ دنیا کے کسی ہتھیار سے نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اور اہم رویہ جو ایک مومن کو ان حالات میں ثابت قدم رکھتا ہے وہ صبر و شکر اور رجائیت پسندی (optimism) کا رویہ ہے۔ حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں مومن کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوتا۔ وہ امید کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور حالات کا شکوہ کرنے کے بجائے شکر کی روش اختیار کرتا ہے جس کی طرف فاما بنعمۃ ربک فحدث میں اشارہ کیا گیا ہے (جس کا مفہوم ہے: اور اپنے رب کی نعمتوں کا اظہار کرو)۔ اس طرح نہ صرف یہ کہ وہ خود کو منفی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں تک بھی اس کے اثرات نہیں پہونچنے دیتا۔ اسے خدا کے اس قانون پر پورا بھروسہ ہوتا ہے: فان مع العسر یسرا (یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے)۔ وہ اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ یہ مشکلات وقتی ہیں جو کہ بالآخر ختم ہو جانی ہیں۔ یہ رویہ اسے شکست خوردہ ہو کر بیٹھ رہنے کے بجائے حالات کا مقابلہ کرنے اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے کے لیے درکار توانائی فراہم کرتا ہے۔ صبر و شکر اور رجائیت پسندی کا یہ رویہ کسی بھی مثبت اور تعمیری کام کے لیے اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں تفصیل کا موقعہ نہیں ہے لیکن جو لوگ اس رویہ کی بنیادوں کو سمجھنا چاہیں، انہیں تدبر کے ساتھ سورہ الضحی اور سورہ الانشراح کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
ان گزارشات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس طرح مذہب اس طرح کے حالات میں نہ صرف یہ کہ انسان کو اطمینان و سکون کی نعمت عطا کرتا ہے، بلکہ اسے ایک بہتر انسان بن کر ان مشکلات سے باہر نکلنے میں معاون ہوتا ہے۔ یہ مذہب کا وہ اہم کردار ہے جس کا متبادل سائنسی ایجادات کے ذریعہ وجود میں آنے والی کوئی ٹکنالوجی پیش نہیں کر سکتی۔موجودہ حالات کے تناظر میں اس بحث سے جو رہنمائی ملتی ہے اسے اخیر میں اختصار کے ساتھ ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
۱۔ماہرین کی رائے کی روشنی میں تدابیر اختیار کریں۔ نبی کریم ﷺ دنیوی امور میں ماہرین کی رائےکو اہمیت دیتے تھے اور بعض دفعہ اسے اپنی رائے پر بھی ترجیح دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔
۲۔ تدابیر اختیار کرنے کے بعد نتائج کی ذمہ داری خدا پر چھوڑ دیں۔ اس پربھروسہ رکھیں اور اس کے فیصلہ پر راضی ہو جائیں۔ خود بھی اضطراب اور گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار نہ ہوں اور اپنے جاننے والوں کو بھی اس سے محفوظ رکھیں۔ اس کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کے استعمال میں احتیاط برتنا بھی نہایت ضروری ہے۔
۳۔ خدا سے لو لگائیں، اس کے سامنے تنہائی میں روئیں، گڑگڑائیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ اس سے دعا کریں کہ وہ اس شر میں ہمارے لیے خیر پیدا فرما دے۔
۴۔ اپنا احتساب کریں، اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا جائزہ لیں اور بالخصوص اپنے رویوں کی اصلاح کی با ضابطہ کوشش کریں۔ یاد رکھیں کہ جس وبا سے ہم دوچار ہیں وہ ہمارے لیے قدرت کی طرف سے عطا کردہ ایک مہلت بھی ہو سکتی ہے۔ آخری مہلت۔ جس کے بعد شاید ہمیں سنبھلنے اور سکون سے سوچنے کی بھی مہلت نہ ملے۔ اس مہلت سے بھر پور فائدہ اٹھائیے اور حالات سے نبرد آزما ہونے کی تیاری کیجیے۔ تیاری کا ایک اہم پہلو اور پہلا مرحلہ ایمان و اخلاق سے متعلق رویوں کی اصلاح کا ہے جس کے بغیر دنیا و آخرت کی کامرانی ہمارا مقدر نہیں ہو سکتی۔
۵۔ رویوں کی اصلاح کے سلسلہ میں پہلا قدم درست رویوں سے واقفیت کا ہے۔ اس کے لیے قرآن کریم سے بہتر کوئی کتاب اس زمین پر موجود نہیں ہے۔ لاک ڈاون نے بہت سے لوگوں کو کاروباری مشغولیات سے یکسو کر کے اس عظیم کتاب کی طرف متوجہ ہونے کا ایک موقعہ فراہم کیا ہے۔ یقین جانیے کہ اس مہلت کا اس سے بہتر کوئی استعمال نہیں ہو سکتا کہ اسے قرآن کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ بالخصوص رمضان کے مہینے میں قرآن سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کا جو موقعہ اس بار ہمیں قدرت نے عنایت کیا ہے اسے گنوا کر ہم اپنی بد بختی میں آخری کیل ٹھونک دیں گے۔
۶۔ قرآن کے ذریعہ اپنی زندگی کو سنوارنے کا مرحلہ جتنا اہم ہے اتنا ہی نازک بھی ہے۔ اس میں اچھی بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں بیرونی دشمنوں سے ہمیں کسی خطرہ اور رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں ہمارا سابقہ ہمارے اندرون تک رسائی رکھنے والے شیطان سے ہوتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس زمین پر انسان کا شیطان سے بڑا اور طاقتور کوئی دشمن نہیں ہے۔ لہذا پوری قوت اور احتیاط سے اس کا مقابلہ کیجیے، اور ہر طرف سے یکسو ہو کر اس مقصد کے لیے خود کو وقف کر دیجیے۔ دھیان رکھیے کہ کوئی بھی خلفشار آپ کو اس مقصد سے غافل نہ کر سکے۔
۷۔ شکایتوں کی روش چھوڑ کر صبر وشکر کا رویہ اختیار کریں اور ان مشکل حالات میں مستقبل سے ناامید نہ ہوں۔ خدا کی رحمت کے امیدوار بنیں اور حسب استطاعت کوششیں کرتے رہیں۔ خدا پر یقین رکھیں کہ وہ ان کوششوں کے بہتر نتائج پیدا فرمائے گا اور اپنی راہ میں کوششیں کرنے والوں کو رسوا نہیں ہونے دے گا۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
*****

رویوں کی اصلاح کے سلسلہ میں پہلا قدم درست رویوں سے واقفیت کا ہے۔ اس کے لیے قرآن کریم سے بہتر کوئی کتاب اس زمین پر موجود نہیں ہے۔ لاک ڈاون نے بہت سے لوگوں کو کاروباری مشغولیات سے یکسو کر کے اس عظیم کتاب کی طرف متوجہ ہونے کا ایک موقعہ فراہم کیا ہے۔