دلی میں منافرانہ سیاست کے درمیان محبت کی امید

غیر مسلم پڑوسی نے حاملہ خاتون کو بلوائیوں سے بچاکر دواخانہ پہنچایا

دلی میں نفرت انگیز بیانات سے اور پیسے دے کر خریدے گئے بلوائیوں کی وجہ سے نفرت کی آگ پھیل گئی۔ کئی مکانات اور بستیاں اُجڑ گئیں۔ لوگ بے گھر و بے سروسامان ہوگئے۔ جو برسوں سے ساتھ رہتے تھے وہ بچھڑ گئے۔ پرآشوب حالات میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے جس میں ہندووں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کی جان بچانے کے لیے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا ہے۔
ایسے ہی انسانیت نواز اور سینوں میں محبت بھرا دل رکھنے والے لوگ ہیں حاجی مجیب الرحمن اور سنجیو بھائی۔حاجی مجیب الرحمن دلی میں مٹھائی کی دکان چلاتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں ہندو آبادی کے بیچ صرف3مسلمانوں کے مکانات ہیں۔ بلوائی اچانک گروپ کی شکل میں ہمارے مکانات کے پاس جمع ہو کر نعرے لگانے لگے۔ پہلے تو محلے کے ہندووں نے باہر سے قفل لگا کر اندر رہنے کا مشورہ دیا لیکن بلوائیوں نے جب حملے شروع کیے تو ہندو پڑوسیوں نے ہمیں پچھلے راستے سے گھروں سے نکال کر اپنے گھروں میں پناہ دی۔ پیشے سے سنار سنجیو بھائی نے پڑوسی مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کو اپنے گھر میں پناہ دی ہے۔ سننے میں کہانی بھلے ہی فلمی لگ رہی ہو لیکن یہ کراول نگر کے مہالکشمی وہار کی سچی کہانی ہے۔ کراول نگر کے مہالکشی وہار میں رہنے والے مسلم خاندان کے گھر کے روبرو ہندو خاندان رہتا ہے۔ دونوں خاندان پچھلے 25سال سے ایک مل جل کر رہتے ہیں۔ مسلم خاندان کی بہو حاملہ ہے۔ 24فروری کی رات اچانک خاتون کو زچگی کے درد ہونا شروع ہوگئے۔ باہر سڑکوں پر بدمعاشوں نے تشدد برپا کرنا شروع کردیا تھا۔ ایسے میں جب پڑوس میں رہنے والے ہندو خاندان کو پتہ چلا تو ان کا 28سالہ نوجوان ان کی مدد کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچ گیا۔ سب سے پہلے وہ خاتون کو اپنے گھر لے کر آیا۔ اس کے بعد وہ اسے اپنی بائک پر بٹھا کر کراول نگر میں واقع ڈسپینسری لے گیا، وہاں پر ڈاکٹروں نے خاتون کو کسی بڑے دواخانے لے جانے کا مشورہ دیا۔ نوجوان نے خاتون کے رشتہ داروں کو اس بات کی اطلاع دی، انھوں نے مصطفی آباد میں رہنے والے اپنے رشتہ داروں سے بات کی، انھوں نے خاتون کو اپنے یہاں لانے کے لیے کہا۔ نوجوان نے اس بار بھی ہمت دکھائی اور وہ خاتون کو مصطفی آباد اس کے رشتہ داروں کے پاس لے جا کر چھوڑ دیا۔ مصطفی آباد پہنچانے کے بعد اسے وہاں بھیڑ نے گھیر لیا۔ نوجوان نے ہمت دکھاتے ہوئے بھیڑ کو بتایا کہ وہ حاملہ مسلم خاتون کے لیے آیا ہے۔ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ ڈالنے کی کوشش انگریزوں کے دور میں بھی کی گئی جب جنگ آزادی میں گائے اور سور کی چربی سے بندوق کی گولیاں تیار کی گئیں۔ اب یہ کام مٹھی بھر سنگھی اور نفرت و بدامنی کو پسند کرنے والے لوگ کر رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسی نفرت کے درمیان محبت کی جیت ہوتی ہے۔ تم ہزاروں سال بھی غلط راستے پر محنت کرو گے تو تمہیں کامیابی نہیں ملے گی۔ ہاں امن وامان اور سکھ و شانتی کی بات کرو گے تو تم بھی امن و چین سے رہو گے اور ملک بھی ترقی کرے گا۔۔