دلی میںانسانی ہمدردی کا ایک مرکز’ الشفا ہاسپٹل‘

21 طبی شعبوں میں معیاری وکفایتی علاج کی فراہمی۔بلا لحاظ مذہب و ملّت انسانیت کی خدمت۔اوپی ڈی پرمریضوں کا ہجوم

وسیم احمد

 

تشدد میں زخمی ہونے والوں کی بروقت مسیحائی۔غریب اور متوسط آبادیوں میں فری کیمپس کا اہتمام

مہنگائی کے اس دور میں کسی پرائیویٹ اسپتال میں علاج کرانا عام آدمی کے بس سے باہر ہو چکا ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ جنہیں اس کا تجربہ ہوا ہے وہی جانتے ہیں کہ وہاں مریض کی کیا درگت بنتی ہے۔ رجسٹریشن اور او پی ڈی میں لمبی لمبی قطاریں، ڈاکٹروں کے یہاں لائن اور اگر کوئی ٹیسٹ کرانا ہو تو ہفتوں بعد نمبرکا آنا، جس سے مریض کی پریشانیاں تو اپنی جگہ بسا اوقات مرض بھی سنگین صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ان پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے ’’ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن‘‘ نے اوکھلا جیسی گنجان آبادی والے علاقے میں ایک اسپتال قائم کرنے کا منصوبہ بنایا اور اسی منصوبے کے تحت 2011 میں اس وقت کی وزیر اعلیٰ آنجہانی شیلا دکشت کے ہاتھوں اس کا افتتاح عمل میں آیا۔ منصوبے کے مطابق انتہائی رعایتی فیس پر او پی ڈی کی سہولت فراہم کی گئی چنانچہ اس کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا اور دہلی و ملک کے مختلف علاقوں سے مریض بڑی تعداد میں یہاں پہنچنے لگے اور تقریباً 450 تا 500 تک مریضوں کا یومیہ او پی ڈی ہونا شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ لاک ڈاؤن کے نفاذ سے قبل تک جاری رہا۔ مارچ 2020 میں اچانک لاک ڈاؤن ہوا اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو گئے کیونکہ اسپتالوں کے دروازے بند ہو گئے۔ ایسے حالات میں’الشفا ہاسپٹل‘ نے ضرورت مند مریضوں کے علاج کا سلسلہ جاری رکھا اور لاک ڈاؤن کے باوجود روزانہ 15 تا 20 مریضوں کا علاج کیا۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد دوبارہ مریضوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے اور اب لگ بھگ 300 مریضوں کا ہر روز رجسٹریشن ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ اسپتال انتہائی سستا علاج کرتا ہے۔ اسپتال کے طریقہ کار پر ایک سوال کے جواب میں الشفا اسپتال کی انتظامیہ کے جوائنٹ سکریٹری محمد رفیق احمد نے کہا کہ ’’دیگر پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرانا سب کے بس کی بات نہیں ہے خاص طور پر غریب اور متوسط طبقہ پرائیویٹ اسپتالوں کا نام سنتے ہی گھبرا جاتا ہے کیونکہ وہاں کے اخراجات ان کی قوت برداشت سے باہر ہوتے ہیں لیکن ہماری کوشش ہوتی ہے کہ یہاں کم سے کم اخراجات میں بہتر علاج ہو اور ہم غریبوں کی طبی ضرورتیں پوری کرسکیں۔ یہاں پر ایک اسپتال ہولی فیملی ہے اس کا جنرل علاج تو انتہائی مہنگا ہے لیکن وہ ایک چیریٹیبل ڈپارٹمنٹ چلاتا ہے جسں کے ذریعہ رعایتی قیمت پر علاج ہوتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ الشفا ہاسپٹل میں چیریٹیبل ڈیپارٹمنٹ سے بھی 20 فیصد کم خرچ پر علاج ہو جاتا ہے۔ حالانکہ کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں علاج سستا نہیں ہے مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ دراصل جب لوگ یہاں علاج کرانے آتے ہیں تو رعایت کے معاملے میں کچھ زیادہ ہی توقعات باندھ لیتے ہیں۔ وہ اس تاثر کے ساتھ آتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا اسپتال ہے، اسے مسلم ادارہ چلاتا ہے لہٰذا علاج بالکل مفت یا نہایت ہی معمولی خرچ پر ہوگا۔ ایسے افراد پر رعایتی خرچ برداشت کرنا بھی شاق گزرتا ہے اور وہ شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ موازنہ کرکے دیکھیں تو الشفا ہاسپٹل میں دوسرے ہاسپٹلس کے مقابلے میں علاج بہر صورت سستا ہے۔ کسی بیماری کا علاج دوسرے اسپتالوں میں 20 ہزار روپیوں میں ہوتا ہے تو وہی علاج یہاں 5 تا 10 ہزار روپیوں میں ہو جاتا ہے، پھر بھی بعض لوگوں کو یہ مہنگا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ اس سے بھی کم کی توقع لے کر آتے ہیں، نتیجتاً انہیں شکایت ہوجاتی ہے۔ مگر یہ ایسی شکایت ہے جو دور نہیں کی جاسکتی کیونکہ ہاسپٹل کلی طور پر مفت علاج کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جہاں تک ضرورت مندوں کو مفت علاج فراہم کرنے کی بات ہے تو اس خدمت کو ہم ایک الگ طریقے سے انجام دیتے ہیں۔ ہماری جانب سے سال میں کئی بار فری کیمپ لگایا جاتا ہے اور یہ مختلف علاقوں میں ہوتا ہے۔ البتہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ یہ کیمپ غریب اور متوسط آبادی میں لگایا جائے۔ یہ فری کیمپ کبھی کسی این جی او کے تعاون سے لگایا جاتا ہے اور کبھی ہم خود اس کے مکمل اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ کیمپ کے علاوہ بھی غریبوں کو انسانیت کی بنیاد پر علاج کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ’’موبائل میڈیکل وین‘‘ کے ذریعے ہم یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس وین میں ڈاکٹر، فارماسسٹ اور لیب ٹیکنیشینس وغیرہ ہوتے ہیں جو 8 تا 10 کلو میٹر کی دور ی تک جاکر عام لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔اس سے یومیہ 150 تا 200 مریض استفادہ کرتے ہیں۔ یہ خدمت ہفتہ میں چھ روز جاری رہتی ہے اور صرف 20 روپے میں پانچ دن کی دوائیاں دی جاتی ہیں۔ حالانکہ دوا مفت بھی دی جاسکتی ہے مگر تجربہ یہ ہوا کہ اس صورت میں بہت سے لوگ بلا ضرورت بھی لائن میں لگ جاتے ہیں اور مستحق اپنا حق پانے سے محروم رہ جاتا ہے۔ اگر کوئی ایسا مریض آجائے جس کا علاج اسپتال کے اندر ہی ہو سکتا ہے اگر ڈاکٹر لکھ کر دے تو ایسے مریض کا 30 فیصد کے ڈسکاؤنٹ پر اپنے یہاں مکمل علاج کیا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر میڈیکل وین دیگر علاقوں میں بھی بھیجی جاتی ہے۔ جب شمال مشرقی دہلی میں فساد رونما ہوا تو وہاں روزآنہ ہاسپٹل کی وین جاتی تھی اور مقامی لوگوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد جب لاک ڈاؤن شروع ہوا اور لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے تو اس وقت اس کی زیادہ ضرورت محسوس کی گئی، لہٰذا متاثرہ علاقے اور اس کے اطراف میں پابندی کے ساتھ وین کے ذریعہ بلا تفریق مذہب و ملت طبی خدمات انجام دی گئیں۔
اسپتال کی خدمات قابل ستائش ہیں۔ یہاں کل 21 ڈیپارٹمنٹس ہیں اور ان میں سے 7 تا8 ڈیپارٹمنٹس تو ہمیشہ کھلے رہتے ہیں کیونکہ ان کی ضرورت ہر روز بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ البتہ جو سُوپر اسپیشلیٹی ڈیپارٹمنٹس ہیں انہیں طلب کے مطابق کھولا جاتا ہے، کسی کو ہفتہ میں دو دن، کسی کو تین دن۔ ان ڈیپارٹمنٹس میں بھی رعایتی قیمت پر ہی علاج کیا جاتا ہے۔ کچھ سال پہلے تک یہاں ڈائلاسیس کا بندوبست نہیں تھا لیکن تین سال پہلے اس کا بھی انتظام کر لیا گیا اور اب مریضوں کو ڈائلاسیس دیا جاتا ہے۔ اب یہاں تقریباً تمام بیماریوں کا علاج ہو رہا ہے چنانچہ اب ہر طرح کے مریض یہاں آتے ہیں۔ البتہ ان میں خواتین، بچوں سے متعلق امراض اور جنرل میڈیسن کے لیے زیادہ لوگ آتے ہیں ۔اجمالی طور پر سالانہ تقریباً سوا لاکھ مریض اسپتال سے رجوع کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو اسپتال غریبوں اور کمزوروں کا علاج انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کرتا ہو اسے فطری طور پر سرکاری اور عوامی سطح پر مکمل تعاون ملنا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔ اسپتال کے سامنے کوڑے کا ڈھیر دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ اس طرف نہ تو حکومت توجہ دیتی ہے اور نہ ہی عوام میں بے چینی دکھائی دیتی ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جب آنجہانی وزیر اعلیٰ شیلا دی دکشت نے اسپتال کا افتتاح کیا تھا تو اس وقت بھی یہ بات ان کے سامنے رکھی گئی تھی۔ اس وقت ان کے بیٹے سندیپ دکشت اس علاقے کے ایم پی تھے، انہوں نے اس کو یہاں سے ہٹانے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر اس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ دلی میں کانگریس کے بعد عام آدمی پارٹی کی حکومت بنی۔ ہر حکومت سے اسے ہٹانے کی اپیل کی گئی۔ ہمارے پاس ان اپیلوں کی ایک موٹی فائل تیار ہوگئی ہے مگر نتیجہ صفر۔ ہر سرکار یہی کہتی ہے کہ ’’کریں گے‘‘ مگر اس پر عمل اب تک کسی نے نہیں کیا۔ اس سلسلے میں ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ یہ زمین یو پی سرکار کی ہے لہٰذا ہم اس پر کچھ فیصلہ نہیں کر سکتے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ جب یہ زمین یو پی سرکار کی ہے اور آپ کچھ نہیں کر سکتے تو پھر یہاں پر کوڑا ڈالنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ بہر کیف اسپتال میں انسانی بنیادوں پر کم سے کم قیمت پر علاج کیا جاتا ہے اور ہنگامی صورت میں تو بالکل مفت۔ مثال کے طور پر جب شمال مشرقی دلی میں فساد ہوا اور لوگ بری طرح زخمی ہوئے تو ان میں سے بہتوں کا علاج اسی اسپتال میں کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ احتجاج کے دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جو طلباء زخمی ہوئے ان کا علاج بھی یہیں کیا گیا، یہاں تک کہ ایک طالب علم کے جسم میں بلیٹ پھنسا ہوا تھا ،اسے ہمارے یہاں ہی نکالا گیا۔‘‘ جب انسانی خدمت کا موقع آتا ہے تو ہم پیچھے نہیں ہٹتے۔
ایک ایسا اسپتال جو مسلم اکثریتی علاقے میں قائم ہے اور کفایتی و رعایتی قیمت پر علاج و معالجہ کرتا ہے ایسے اسپتال کو بھرپور تعاون ملنا چاہیے مگر بسا اوقات کچھ افراد کی نا سمجھی کی وجہ سے اسپتال انتظامیہ نالاں ہو جاتا ہے۔ اس پر جناب رفیق احمد نے بتایا کہ یہ دشواری آنے والے کچھ مریضوں اور تیمارداروں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہاں جو مریض آتے ہیں یہی اگر دوسرے اسپتالوں میں جائیں تو وہاں ڈسپلن میں رہتے ہیں مگر یہاں آکر شاید یہ سوچ کر کہ مسلم ادارے کے تحت چلتا ہے، ڈسپلن کو طاق پر رکھ دیتے ہیں۔ ایک ایک مریض کے ساتھ چار چار آدمی آتے ہیں، وارڈ کے اندر چلے جاتے ہیں جس سے دوسرے مریضوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ منع کرنے کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں۔ان سب کے باوجود ہم انسانیت کی خدمت کے جذبے کو اپنے اندر کم نہیں ہونے دیں گے اور کم سے کم خرچ پر بہتر سے بہتر علاج مہیا کرنے کے عزم کو ٹوٹنے نہیں دیں۔
’الشفا ہاسپٹل‘ کا قیام اور اس سے غریب اور متوسط طبقے کا رعایتی قیمت پر علاج معالجے کا فائدہ اٹھانا دیگر تنظیموں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ خاص طور پر جو تنظیمیں مسلم علاقوں میں کام کر رہی ہیں انہیں اس کو نمونہ عمل بناتے ہوئے عملی قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ آج غریبوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ علاج و معالجہ ہے۔ انہیں اس سلسلے میں ’الشفا ہاسپٹل‘ کے جوائنٹ سکریٹری جناب محمد رفیق احمد کے ساتھ تبادلہ خیال کر کے ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے اس سمت میں پیش رفت کرنا چاہیے۔
***

’الشفا ہاسپٹل‘ کا قیام اور اس سے غریب و متوسط طبقے کا رعایتی قیمت پر علاج معالجے کا فائدہ اٹھانا دیگر تنظیموں کے لیے نمونہ عمل ہے۔ خاص طور پر جو تنظیمیں مسلم علاقوں میں کام کر رہی ہیں انہیں اس کو نمونہ عمل بناتے ہوئے عملی قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ آج غریبوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ علاج و معالجہ ہے