خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

جاویدہ بیگم ورنگلی

 

جاویدہ بیگم ورنگلی
یہ بات بظاہر بڑی عجیب ہے مگر ہے حقیقت کہ آج انسان اپنے آپ کو پہچان نہیں پا رہا ہے۔ جو انسان اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے وہ ٹوٹتا ہے مگر جھکتا نہیں۔ وہ اپنی ذات کی تذلیل گوارا نہیں کرتا۔ دنیا اور سامانِ دنیا اس کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ بندوں کے سامنے کسی غرض کی خاطر جھکنے کو وہ اپنی خودی کی موت سمجھتا ہے۔اسلام نے انسان کو جو عظمت و بلندی عطا کی ہے اس میں اس کا خصوصی لحاظ رکھا ہے۔
معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ لوگوں سے اس بات کی بیعت لیا کرتے تھے کہ تم لوگوں سے سوال نہیں کرو گے۔ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے والا نہ صرف نظروں سے گر جاتا ہے بلکہ خود اپنی نظروں میں بھی گر جاتا ہے کیونکہ اس عمل سے اس کے دل میں دوسروں کی برتری اور اپنی کمتری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ذیل میں ہمارے اسلاف کے چند واقعات پیش کیے جا رہے ہیں جن کو پڑھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں یہ خودی انسان کو دوسروں سے کیسا بے نیاز و اعلیٰ ظرف بنا دیتی ہے۔
اخوان المسلمون کے واقعات میں سے ایک واقعہ پڑھنے میں آیا جو عزت نفس کی ایک بہترین مثال ہے۔ نہرِ سوئز کمپنی کے چیف انجینئر سولنٹ نے ایک اخوانی حافظ کو اپنی رہائش گاہ پر بعض آلات کی مرمت کے لیے بلوایا تھا۔ سولنٹ نے اس سے مزدوری دریافت کی تو اس حافظ نے ایک سو تیس قرش مزدوری بتائی۔ سولنٹ نے فوراً عربی میں کہا ’’تم لٹیرے ہو‘‘ اس پرحافظ نے اپنے آپ پر قابو پا کر بڑے اطمینان کے ساتھ سوال کیا ’’کیوں کر جناب؟‘‘ وہ اس لیے کہ تم اپنے حق سے زیادہ مانگ رہے ہو، سولنٹ نے کہا۔ ’’میں آپ سے کچھ نہیں لوں گا، آپ اپنے ماتحت انجینئروں میں سے کسی سے دریافت کرلیں۔ اگر ان کی رائے یہ ہو کہ میں نے مناسب مقدار سے زیادہ اجرت طلب کی ہے تو میں بطور سزا یہ کام مفت کر دوں گا۔ سولنٹ نے ایک انجینئر کو بلوایا۔ اس نے اندازے سے کہا یہ کام دو سو قرش میں ہوگا۔ چنانچہ سولنٹ نے اس حافظ سے کہا کہ ’’چلو کام شروع کردو‘‘ وہ تو میں شروع کر دوں گا لیکن تم نے مجھے لٹیرا کہہ کر جو میری توہین کی ہے اس کے لیے تمہیں پہلے مجھ سے معافی مانگنی ہوگی اور اپنے الفاظ واپس لینا پڑے گا۔
یہ سنتے ہی سولنٹ غصہ میں کہنے لگا ’’تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے معافی مانگوں؟ تو کون ہوتا ہے اگر خود شاہ فواد بھی آجائے تو میں اس سے معافی نہ مانگوں گا‘‘۔
’’مسٹر سولنٹ! آپ یہ دوسری غلطی کر رہے ہیں۔ آپ شاہ فواد کے مُلک میں ہیں آدابِ مہمانی، احسان شناسی کا تقاضا ہے کہ آپ ایسی بات منہ سے نہ نکالیں اور میں آپ کو یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ ادب و احترام کو بالائے طاق رکھ کر شاہ فواد کا ذکر کریں۔ وہ حافظ اپنے آلات نیچے رکھ کر اطمینان سے ایک کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ سولنٹ حافظ کی جانب بڑھا اور کہنے لگا فرض کرو میں تم سے معافی نہیں مانگتا تو تم میرا کیا بگاڑ لو گے؟
’’معاملہ آسان ہے‘‘۔۔ حافظ نے کہا ’’میں تمہارے سفیر کے نام خط لکھوں گا پھر پیرس میں سویز کمپنی کی اعلیٰ انتظامی کونسل کے دفتر کو اس سے مطلع کروں گا۔ پھر فرانس کے مقامی اخبارات اور دوسرے غیر ملکی اخبارات کو خطوط لکھوں گا اور پھر انتظامی کونسل کا جو رکن بھی یہاں آئے گا اس تک شکایت پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ پھر بھی اگر مجھے اپنا حق نہ ملے تو پھر آخری حربے کے طور پر سڑک کے بیچوں بیچ آپ کی توہین کروں گا۔ آپ یہ خیال نہ کریں کہ میں اپنی مصری حکومت سے آپ کی شکایت کروں گا جسے آپ لوگوں نے ظالمانہ ٹھیکوں کی زنجیروں میں کَس رکھا ہے۔ مجھے اُس وقت تک ہرگز چین نہیں آئے گا جب تک میں کسی نہ کسی ذریعہ سے اپنا وقار بحال نہ کرلوں‘‘۔
’’تم ایک معمولی نجار ہو کر کیسے تصور کر سکتے ہو کہ چیف انجینئر تم سے معافی مانگے گا‘‘۔
’’کیا آپ کو خبر نہیں کہ سویز کمپنی میرے وطن میں ہے نہ آپ کے وطن میں؟ اور یہ کہ سویز پر آپ کا قبضہ عارضی ہے۔ آخر کار یہ ختم ہو کر رہے گا اور پھر اس کی ملکیت ہماری طرف لوٹ آئے گی۔ پھر آپ جیسے لوگ ہمارے ملازم ہوں گے لہٰذا آپ یہ تصور کیسے کر سکتے ہیں کہ میں اپنے حق سے دستبردار ہو جاؤں گا‘‘۔
آخر سولنٹ اپنے غصہ پر قابو پاکر کہنے لگا سن ائے حافظ! میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں‘‘۔ حافظ نے سکون و اطمینان کے ساتھ اٹھ کر اپنا کام شروع کر دیا۔ کام مکمل ہونے کے بعد سولنٹ نے حافظ کو ایک سو پچاس قرش پیش کیے۔ حافظ نے ان میں سے ایک سو تیس قرش لے کر بیس قرش واپس لوٹا دیے۔ سولنٹ نے حافظ سے کہا ’یہ بھی رکھ لو یہ بخشش ہے‘‘۔
’’ہرگز نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔’ میں اپنے حق سے زیادہ لے کر ’’لٹیرا‘‘ کہلانا نہیں چاہتا‘۔
سولنٹ یہ جواب سن کر حیرت زدہ رہ گیا اور کہنے لگا تمام عرب کاریگر تم جیسے کیوں نہیں؟ کیا تم ’’محمڈن فیملی سے ہو‘‘۔
مسٹر سولنٹ! ’’حافظ نے کہا ’’ہر مسلمان محمڈن فیملی سے ہے مگر فرق کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے ’’صاحب لوگوں‘‘ کے ساتھ معاشرت وابستہ کر رکھی ہے اور آپ لوگوں کی نقالی کرنے لگے ہیں اس طرح ان کے اخلاق خراب ہونے لگے ہیں‘‘۔
ایک مرتبہ مولانا قاسم نانوتوی رام پور تشریف لائے۔ نواب صاحب رام پور کو خبر ہوئی تو ملاقات کے شوق میں بلا بھیجا۔ اس کے جواب میں مولانا نے کہلا بھیجا، ہم دیہاتی لوگ آدابِ شاہی سے واقف نہیں ہیں۔ جواب میں نواب صاحب نے کہلا بھیجا آپ کو آداب بجا لانے کی ضرورت نہیں۔ آپ تشریف لائیے۔ اس پر مولانا کہنے لگے ’’عجیب بات ہے ملاقات کا شوق ان کو ہے اور میں جاؤں‘‘۔ غرض کہ آپ ملاقات کے لیے نہیں گئے۔۔۔
خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں
ہُوا نہ کوئی خُدائی کا راز داں پیدا
ایک مرتبہ وزارت تعلیم کے سکریٹری نے سعید نورسی کو مالی امداد کی پیشکش کی مگر انہوں نے یہ کہہ کر امداد لینے سے انکار کر دیا کہ ’’اس سے میری زندگی کا وہ اصول جس کو میں آج تک نبھاتا آرہا ہوں ختم ہو جائے گا‘‘۔ اس زمانے میں اہل علم اور داعیان اسلام پر سب سے بڑی تہمت لگائی جاتی تھی کہ وہ روپیہ بٹورتے ہیں۔ وہ کہنے لگے میرے پاس جو شخص بھی کچھ لے کر آتا ہے میں اس کو رد کر دیتا ہوں۔ اس لگائی جانے والی تہمت کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں۔
خودی کی موت سے پیرِ حرم ہُوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جامٔہ احرام!
مولانا مودودی فرماتے ہیں ’’جب اکتوبر ۱۹۷۸ میں مجھے گرفتار کیا گیا اس وقت مجھے ہتھکڑی کی شدید تکلیف تھی۔ ان دنوں ایک دوا استعمال کر رہا تھا اس کا اثر بھی کچھ ظاہر ہونے لگا تھا کہ گرفتار ہو گیا۔ اس کے علاوہ لائل پور جیل میں مثانے کی پتھری پیشاب کی نالی کے آگے آگئی اور اس سے پیشاب رک گیا۔ جس سے بڑی تکلیف ہوئی۔ مگر میں ان لوگوں سے تعاون نہیں چاہتا تھا۔ اس وقت خدا سے دعا کی چنانچہ ۱۴ گھٹے سے رکا ہوا پیشاب خود بخود جاری ہو گیا۔
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جُذام
ابو عبداللہ اسد بن فرات کا شمار تاریخ اسلام کے ان نامور فرزندوں میں ہوتا ہے جو اگر ایک طرف علم و فضل کے اعتبار سے فقہائے امت کی صف میں اول میں ہیں تو دوسری طرف راہِ حق کے سرفروش مجاہد بھی تھے۔ بڑی غربت کے حالت میں علم حاصل کیا۔ جب ان کی غربت کا حال ان کے استاد امام محمد بن حسنؒ کو ہوا تو انہوں نے ایک دن ولی عہد سلطنت امین الرشید کے سامنے اپنے شاگرد کے اوصاف اور محاسن علمی شغف کا ذکر کچھ اس انداز سے کہا کہ شہزادہ کے دل میں ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ اس نے ایک دن اسد بن فرات کو بلا بھیجا۔ یہ غریب طالب علم ولی عہد کے محل میں پہنچا تو ایک خادم خاص نے ان کا استقبال کیا اور ایک کمرے میں بٹھایا۔ کچھ دیر بعد دستر خوان بچھایا اس پر ڈھکا ہوا ایک خوان لاکر رکھ دیا۔ غریب طالب علم اسد بن فرات نے پوچھا یہ دعوت تمہاری جانب سے ہے یا ہمارے آقا کی طرف سے‘‘ خادم نے جواب دیا ’’آقا کے حکم سے لایا ہوں۔ طالب علم نے کہا ‘تمہارے آقا کو یہ بات ہرگز پسند نہ ہوگی کہ اس کا مہمان میزبان کے بغیر کھانا کھائے۔ یہ خوان اٹھا لو اور میری طرف سے یہ حقیر انعام قبول کرو۔ یہ کہہ کر اپنے جیب سے چالیس درہم نکال کر خادم کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ یہ وہ چالیس درہم تھے جو اس غریب طالب علم کو وطن پہنچنے کے لیے ناکافی تھے اور وہ مصارفِ سفر کے لیے سخت پریشان تھے۔ یہ پریشانی ان کے استاد سے دیکھی نہیں گئی تھی اور امین الرشید سے اس کا ذکر کر دیا تھا۔والی مصر نجم الدین ایوب پورے تزک واحتشام کے ساتھ دربار میں بیٹھا ہوا تھا شیخ عزالدین وہاں پہنچے اور بادشاہ سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’اے ایوب! تم خدا کے سامنے کیا جواب دو گے جب پوچھا جائے گا کہ کیا ہم نے تم کو سلطنت اس لے دی تھی کہ اس میں آزادی کے ساتھ شراب پی جائے؟‘‘۔ بادشاہ نے پوچھا کیا مطلب؟ شیخ نے فرمایا فلاں جگہ شراب آزادی کے ساتھ فروخت ہو رہی ہے اور دوسرے فواحشات و منکرات ہو رہے ہیں اور تمہیں اس کی خبر نہیں!! بادشاہ نے کہا ’یہ سب کچھ میرے والد کے زمانے سے ہوتا آرہا ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں ہے‘‘۔ شیخ نے کڑک کر کہا ’’پھر تو تم ان ہی لوگوں میں سے ہو جو بت پرستی اور برائیوں سے باز آنے کی تلقین کے جواب میں کہا کرتے تھے یہ سب کچھ ہمارے باپ دادا کے زمانے سے ہوتا آرہا ہے‘‘۔ بادشاہ نے یہ سن کر تھرّا اٹھا اور اس نے اسی وقت شراب خانوں کو بند کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
ایک دفعہ خلیفہ منصور نے امام ابو حنیفہؓ سے کہا ’’تم میرے ہدیے کیوں قبول نہیں کرتے‘‘۔ ابو حنیفہؒ نے جواب دیا ’’امیر المومنین نے اپنے مال میں سے مجھے کب دیا تھا کہ میں نے اس کو لینے سے انکار کر دیا ہو۔ آپ اپنے مال میں سے مجھے ہدیہ دیتے تو میں اس کو ضرور قبول کرنا۔ آپ نے مسلمانوں کے بیت المال سے مجھے دیا حالانکہ ان کے مال میں میرا کوئی حق نہیں ہے۔ میں نہ ان کا دفاع کرتا ہوں کہ ایک سپاہی کا حصہ پاؤں۔ نہ ان کے بچوں میں سے ہوں کہ بچوں کا حصہ مجھے ملے اور نہ فقرا میں سے ہوں کہ جو کچھ فقیر کو ملنا چاہیے وہ مجھے ملے‘‘۔
کوفہ کے گورنر نے ایک بار نیاز مندی سے امام ابو حنیفہ سے عرض کیا ’’آپ تو کبھی ہمارے پاس تشریف لاتے نہیں‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ نے جواب دیا ’’تم سے مل کر کیا کروں گا۔ تمہارے پاس جو مال و دولت ہے مجھے اس کی حاجت نہیں اور میرے پاس جو دولت ہے اس کا کوئی مالک نہیں بن سکتا‘‘۔
خلیفہ منصور کے عہد حکومت میں امام ابوحنیفہ کو بار بار قاضی کا عہدہ پیش کیا جاتا رہا یہاں تک کہ سلطنت عباسیہ کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا عہدہ پیش کیا گیا آپ طرح طرح کے حلیوں سے اس کو ٹالتے رہے۔ ایک مرتبہ نرم انداز میں معذرت کرتے ہوئے کہا ’’قضا کے لیے وہی شخص موزوں ہو سکتا ہے جو اتنی جان رکھتا ہو کہ آپ پر، آپ کے شاہزادوں اور سپہ سالاروں پر قانون نافذ کر سکے۔ مجھ میں یہ جان نہیں ہے مجھے تو جب آپ بلاتے ہیں تو واپس نکل کر ہی جان میں جان آتی ہے۔
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021