خلیجی ممالک میں مقیم ہندوستانیوں کی نفرت انگیز مہم کی ہر جانب سے شدید مذمت!
شدید احتجاج کے بعد وزیراعظم کویاد آیا بھولا ہواسبق ۔ جوابی ٹوئٹ میں قومی یکجہتی کا ذکر
آسیہ تنویر،حیدرآباد
یوں تو ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف پچھلی دو دہائیوں سے ایک خاص پروپیگنڈہ جاری تھا. اقتدار کے حصول کے متمنی ایک مخصوص طبقے کو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا اور ذات پات کو نشانہ بنانا کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا زیادہ آسان لگا. اقتدار کے حصول، اور اس کے بعد اپنے دور اقتدار کی طوالت کو برقرار رکھنے،اور اپنی کامیابی اور ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے ہر وقت ایک فرقہ واری تعصب کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہنا حتی کہ آفات سماوی کورونا وائرس کی وبا کے لیے بھی مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے کو مورد الزام ٹھہرا کر لعن طعن تضحیک کی ایک ناقابل برداشت لہر جاری رکھنے کا کھیل اب دنیا کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہا.
اس نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے خلاف دنیا بھر کے مختلف گوشوں سے آواز اٹھائی جارہی ہے. متحدہ عرب امارات کی حکومت اپنے یہاں کام کرنے والے ہندوستانی ملازمین کو پہلے ہی سخت تنبیہ کرچکی تھی. لیکن اس کے باوجود برسراقتدار پارٹی کے آئی ٹی سیل کے خلیجی ممالک میں مقیم کارندوں نے کورونا وائرس کے پس منظر میں تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ اس سوشل میڈیا پر وائرل ٹرینڈ کا سعودی عرب ،ریاض سے تعلق رکھنے والےاسکالر عابدی الزہرانی نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ٹویٹر پر اپنے فالورز سے درخواست کی کہ وہ ان تمام ہندوؤں کی فہرست بنائیں جو جی سی سی میں کام کرتے ہوئے اسلام ، مسلمانوں یا پیغمبر اسلام (ص) کے خلاف نفرت پھیلارہے ہیں۔انہیں واپس بھیج دینا چاہیے. (جی سی سی یعنی گلف کوآپریشن کونسل جو خلیج کے چھ ممالک سعودی عرب ،کویت، متحدہ عرب امارات، قطر بحرین اور عمان پر مشتمل ہے. )ایک اور ٹویٹ میں ، انہوں نے لکھا ، ’’خلیجی ریاستوں میں لاکھوں ہندوستانیوں کی میزبانی کی جاتی ہے ان میں سے کچھ کویڈ 19 متاثرین بھی ہیں یہاں ان کا مفت علاج کیا جاتا ہے. انہیں ان کے عقیدے سے قطع نظر بلا کسی تفریق کے بہترین سلوک کیا جاتا ہے جبکہ ہندو دہشت گرد مسلمان شہریوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں‘‘۔ ہم کسی بھی بے گناہ فرد کے خلاف جارحیت کو قبول نہیں کرتے ہیں ، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا نسل سے ہو۔ اگر ہمارے ملک میں کسی غیر مسلم فرد پر ظلم ہوتا تو ہم اس کا دفاع کرتے۔ بھارت میں مسلمان پر بغیر کسی جرم کے وحشیانہ حملوں کا نشانہ کیوں ہیں ؟
عابدی الزہرانی کے اس ٹویٹ کے جواب میں مشرق وسطی میں کام کرنے والے ملازمین کے کئی ایک اسکرین شاٹ آنا شروع ہوگئے۔
اس سے قبل ، متحدہ عرب امارات کی شہزادی ھندہ القاسمی نے سوشل میڈیا پر مسلمانوں اور اسلام مخالف پوسٹ شائع کرنے والوں کو متنبہ کیا تھا۔ انہوں نے لکھا ، "تمام ملازمین کو کام کرنے کی اجرت ملتی ہے ، کوئی بھی یہاں مفت کام نہیں کرتا ۔ تم اپنی روٹی اور مکھن کو اس سرزمین سے بٹورتے ہو . تم نے جو طنز اور تضحیک کی راہ اپنائی ہے کیا وہ قابل گرفت نہیں ہوگی؟” تبلیغی جماعت کے واقعے پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے متعدد ٹویٹس پوسٹ کرنے والے سوربھ اپادھیائے کے اسکرین شاٹس کا اشتراک کرتے ہوئے شہزادی نے لکھا ہے کہ ایسے لوگوں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا اور انہیں متحدہ عرب امارات چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا۔
متحدہ عرب امارات کی نورا الغریر نے نفرت انگیز پیامات پر مشتمل ایک ویڈیو کا اشتراک کرتے ہوئے لکھا ’’آر ایس ایس کے حامی اب ہمارے ملک میں ہمارے درمیان رہتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کا استحصال کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ افسوس ابھیمنئو گری نامی یہ شخص دبئی میں رہتا ہے‘‘
متحدہ عرب امارات کی ایک اور سوشل میڈیا کی پوسٹ میں لکھا گیا کہ "پولیس کی جانب سے سالگرہ کا گانا گانا ، سالگرہ کے لیے کیک لانا ، اپنی اچھائی کو ظاہر کرنا ہندوستان میں معمول کی بات نہیں ہے۔ لیکن غریبوں اور پسماندہ افراد پر ان کا ظلم و ستم معمول کی بات ہے۔ اس طرح کے خیرمقدمی اقدامات کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مسلسل ناانصافیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘
ٹویٹر پر ایک اور صارف نے وزیراعظم مودی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’’کبھی کسی ہندو نے دہشت گردی کا ارتکاب نہیں کیا‘‘اگرچہ کہ ناتھورام گوڈسے کا نام بھی ہندو تھا جس نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا۔
یہ سب ان کی وہ ثقافت ہے جس میں مودی کے آر ایس ایس ، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی دہشت گرد سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے ۔کویت سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبداللہ الشریکہ نے بھی اپنے ٹویٹ کے ذریعہ اپیل کرتے ہوئے لکھا "میں تمام این جی اوز کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے انسانی حقوق کونسل میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں ، کیونکہ وہ نسل کشی کے مرتکب ہورہے ہیں. اس ٹویٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ہندوستان پر آر ایس ایس کے نازی الہامی نظریے کا راج ہے۔ براہ کرم ان کی موجودہ ثقافت کا مطالعہ کیجئے۔ آپ کو پتا چلے گا کہ آر ایس ایس کے تاریخی نظریات کس طرح سے نازی ازم کی تائید کرتے ہیں اور وہ 200 ملین مسلمانوں کو ہندوستان کا داخلی خطرہ سمجھتے ہیں۔
کویت کے ایک اور قانون دان اور حقوق انسانی کے نمائندہ المحامی الشریکہ نے لکھا ’’ہم کسی بھی بے گناہ فرد پر جارحیت کو قبول نہیں کرتے ہیں ، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا نسل سے ہو۔ اگر ہمارے ملک میں کسی غیر مسلم فرد پر ظلم ہوتا تو ہم اس کا دفاع کرتے ہیں۔ بھارت میں مسلمان بغیر کسی جرم کے ان وحشیانہ حملوں کا نشانہ کیوں ہیں ؟‘‘اور کہا ’’ بی بی سی کی ایک رپورٹ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دلی کے قتل عام کے دوران ہندوتوا (آر ایس ایس) دہشت گرد تحریک سے تعلق رکھنے والے بھارتی پولیس اور اشرار نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کیا تھا۔‘‘
اس کے بعد انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ممبر پارلیمنٹ تیجسوی سوریا کے عربوں اور ان کی خواتین کے خلاف اہانت آمیز ٹویٹ پر کارروائی کا مطالبہ کیا۔اور لکھا ’’ہندوستان کے عرب دنیا کے ساتھ باہمی احترام کے تعلقات رہے ہیں ۔ کیا آپ اپنے پارلیمنٹیرین کو ہماری خواتین کی سرعام رسوائی کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ ہمیں تیجسوی سوریا کے خلاف ان کے بدنما تبصرہ پر فوری سزا دینے کی توقع ہے۔‘‘
المحامی الشریکہ نے وزیراعظم کی مسلسل خاموشی کو نشانہ بناتے ہوئے پھر لکھا ’’ قابل احترام وزیر اعظم نریندرمودی آپ کے پارلیمنٹیرین تیجسوی سوریا کی انتہائی اشتعال انگیز حرکت پر خاموشی آپ کی حکومت کے ثقافتی اصول کو دغدار کرتی ہے۔ اگر عرب خواتین کی توہین کرنا ایک نیا معمول ہے تو ، عرب دنیا کو بتائیں کہ ہندوستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کہاں کھڑے ہیں۔‘‘
کویت کے عبدالرحمن النصار نے کویڈ 19 کے متاثرین کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا ’’کویت میں ہندوستانی برادری، کورونا کے اعدادوشمار میں سب سے اوپر ہے اور ملک کے بہترین ہسپتالوں میں زیر علاج ہے ۔کویت میں ، بیماروں کے مذاہب اور قومیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔۔ یہی دراصل انصاف ہے! !
آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) نے کورونا وائرس بحران کے لئے مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے اور بدنام کرنے پر مودی سرکار کی تنقید کی ہے اور ہندوستانی حکومت سے ہندوستان میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے اور اس کے خلاف ’’ایل ایچ آر قانون‘‘ کے تحت اپنی ذمہ داریوں کے مطابق مظلوم مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہنگامی اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔
شدید دباو کے تحت اور عرب ممالک میں ہندوستانی اشیاء کے بائیکاٹ کے بڑھتے مطالبات کے بعد 19 اپریل کو وزیراعظم نریندر مودی کو ہندوستانی قومی یکجہتی کا بھولا سبق یاد آیا . اپنے ٹویٹ کے ذریعہ مشرق وسطٰی سے جاری احتجاج کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میں لکھا "کویڈ 19، حملے سے قبل نسل ، مذہب ، رنگ ، ذات ، نسل ، زبان یا سرحدیں نہیں دیکھتا ۔ اس کے بعد کا ہمارا ردعمل اور ہمارا طرز عمل ہمیں اتحاد اور بھائی چارے کے ساتھ مربوط کرتا ہے۔ ’’اس عمل میں ہم ایک ساتھ ہیں‘‘
مشرقی وسطی میں تقریبا نوے لاکھ ہندوستانی مقیم ہیں۔ جو راست یا بالراست روزگار سے منسلک ہیں. خلیج میں مقیم ہندوستانیوں میں سب سے تعداد متحدہ عرب امارات مقیم ہے .ان میں زیادہ تر دلی حکومت کے حمایتی ہیں۔ آٹی سیل کے لوگ دبئی میں بیٹھ کر مودی کی تائید میں نفرت انگیز مہم چلاتے ہیں لیکن ہندوستان آنا پسند نہیں کرتے۔ان کی یہ نفرت انگیز مہم خود انہی کی رسوائی کا سبب بنتی جارہی ہے جس پر دلی سے تعلق رکھنے والی جرنلسٹ روہنی سنگھ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ’’ واضح طور پر بدنام زمانہ تبصرے جو ہندوستانی سیاسی گفتگو میں معمول بن چکے ہیں وہ ہندوستان کیلئے شدید شرمندگی باعث بنتے جارہے ہیں ۔
کویت کے عبدالرحمن النصار نے کویڈ 19 کے متاثرین کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا ’’کویت میں ہندوستانی برادری، کورونا کے اعدادوشمار میں سب سے اوپر ہے اور ملک کے بہترین ہسپتالوں میں زیر علاج ہے ۔کویت میں ، بیماروں کے مذاہب اور قومیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔یہی دراصل انصاف ہے! !