خلائی سائنس کا حیرت انگیز کارنامہ:جیمزویب اسپیس ٹیلی سکوپ
کائنات کی بے پناہ وسعتوں تک رسائی ممکن، کئی سربستہ رازوں کا انکشاف متوقع
محمد عبداللہ جاوید، رائچور، کرناٹک
1990 کے اوائل میں ہبل ٹیلی اسکوپ خلا میں بھیجی جانے والی پہلی دوربین تھی۔ اس وقت تک کائنات کے سلسلہ میں صرف بنیادی باتوں کا علم تھا لیکن خلا میں موجود انسانی آنکھ نما اس دور بین نے کئی حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔ یہ معلوم ہوا کہ ہماری کائنات نہ صرف پھیل رہی ہے بلکہ اس کے پھیلنے کی رفتار میں بتدریج اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ٹھوس ثبوت بھی ملا کہ اس کائنات میں موجود کہکشاؤں کے درمیان انتہائی بڑے سیاہ شگاف (black holes) پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہماری کہکشاں کی وسعتوں میں چھپے بعض رازوں کا انکشاف بھی ہوا اور یہ پتا چلا کہ اس کائنات میں زمین جیسے دیگر سیارے (exoplanets) موجود ہیں جہاں زندگی کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ا
سال 2021 کے اختتام سے قبل 25 ڈسمبر کو 21ویں صدی کے سب سے بڑے سائنسی منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ زمین سے 15 لاکھ کلو میٹر دور خلا میں چھوڑا گیا اور اسے ہبل ٹیلی اسکوپ کا جانشین قرار دیا گیا ۔یہ خلائی سائنس کی تاریخ کا ایک منفرد کارنامہ ہے۔ اب یہ دور بین ہماری کائناتی تاریخ کے مختلف مرحلوں کے حیرت انگیز مناظر دکھائے گی۔ ایسے ستاروں کی دریافت کرے گی جو آج سے تقریباً ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے روشن ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ دور بینی نما رصد گاہ‘ بڑے اہم سوالوں کا جواب معلوم کرنے میں مدد کرے گی‘ جیسے اس کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی؟پہلی کہکشاں کب وجود میں آئی؟ اور آیا اس کائنات میں ہم یہاں اکیلے ہیں یا دیگر مخلوقات بھی پائی جاتی ہیں؟ اور ایک بات جو بڑے واضح انداز سے بیان کی جا رہی ہے کہ یہ خلائی دور بین 13 ارب سال پہلے کا منظر دیکھ سکے گی۔ یوں سمجھ لیں کہ کائنات میں جہاں تک ہبل ٹیلی اسکوپ کی رسائی ممکن تھی، اب یہ دور بین اس سے کہیں آگے تک رسائی کر پائے گی۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کیا ہے؟
1960 دہائی کی خلائی دوڑ میں امریکہ کو کامیابی سے ہم کنار کرانے نیز چاند پر اپولو راکٹ کو پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرنے والے اس وقت کے ناسا کے سربراہ جیمز ایڈون ویب کے نام سے اس خلائی دور بین کا نام رکھا گیا ہے۔ اس پر کام کا آغاز 1996 میں ہوا اور تکمیل میں تقریباً تیس سال کا وقفہ لگا۔اس کی تیاری میں امریکہ کےعلاوہ یوروپین ممالک اور کینیڈا کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ امریکہ کا ناسا ویب مشن سے متعلق تمام معاملات کا ذمہ دار رہا جبکہ یوروپی ممالک نے سائنسی آلات جیسے NIRS, MIRI کے علاوہ آرائن لانچ وہیکل فراہم کیے ہیں اور کینیڈا نے سائنسی آلات جیسے FGS اور NIRIIS بہم پہنچائے ہیں۔ ان آلات کی تفصیل آگے درج ہے۔ جیمز ویب خلائی دور بین کی تیاری پر کل دس بلین ڈالر (تقریباً پچھتر ہزارکروڑ روپیوں) کی لاگت آئی ہے۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ : اہم اعداد وشمار
مشن کی معیاد: پانچ تا دس سال
مدار: زمین سے تقریباً ایک لاکھ میل دور /تقریباً پندرہ لاکھ کیلو میٹر
طول موج کا احاطہ: انفراریڈ 0.6 تا 28.5 مائیکران
وزن: 13700 پونڈ ایک اسکول بس جتنا وزن تقریباً ساڑھے چھ ہزار کیلوگرام
اٹھارہ چھوٹے آئینوں پر مشتمل بنیادی آئینہ جس کا قطر 21.5 فٹ ہے
پانچ سن شیلڈ کی تہیں جس کا سائز x46.569.5فٹ ٹینس کورٹ کے برابر
ویب اسپیس دور بین کی تیاری میں لگا جملہ وقت چار کروڑ گھنٹے
دنیا کے چودہ ممالک اور امریکہ کی 29 ریاستوں سے تعلق رکھنے والے سائنسدان، انجینئرز اور ٹکنیشینز نے ویب اسپیس دور بین کی تیاری میں حصہ لیا ہے۔
ویب مشن کے اہداف: اس خلائی دور بین کو چند متعینہ مقاصد کے تحت بھیجا گیا ہے جو حسبِ ذیل ہیں:
1) اُن پہلی کہکشاؤں کی دریافت کرنا جو کائنات کے بالکل ابتدا میں وجود میں آئیں تھیں۔
2) قریب اور دور کی کہکشاؤں کی اسٹڈی کرنا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان کا ارتقا کیسے ہوا ہے۔
3) ستاروں کی تشکیل کا مشاہدہ کرنا، ان کے بالکل ابتدائی مراحل سے لے کر سیاروں کے نظام کی تشکیل تک۔
4) سیاروں کے نظام کی طبعیاتی وکیمیائی خصوصیات کی پیمائش کرنا، بشمول ہمارے نظام شمسی کے اور ان نظاموں میں زندگی کے امکانات کی تحقیق کرنا۔
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کیسے حیرت انگیز انکشافات کرے گا؟
یہ اس کی خصوصیات کی بنا پر ممکن ہے کیونکہ اس جیسی خصوصیات خلا میں موجود ہبل ٹیلی اسکوپ میں نہیں پائی جاتیں۔اس کا قطر ہبل ٹیلی اسکوپ سے چھ گنا بڑا ہے۔ ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ میں حسب ذیل چار سائنسی آلات نصب ہیں:
(1)پہلا: سورج کی تیز شعاعوں سے محفوظ رہنے کے لیے حفاظتی ڈھال (sun shield) جس کا رقبہ ٹینیس کے میدان جتنا بڑا ہے۔ یہ ایک طرح سے ویب دور بین کا سن اسکرین ہے اس لیے کہ یہ حفاظتی ڈھال اس دور بین کو سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں (ultraviolet rays) سے محفوظ رکھتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو پھر بیرونی خلا میں پائے جانے والے انتہائی سرد درجہ حرارت میں اس کا کام کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ ان سن شیلڈ کی بنا درجہ حرارت تقریباً 275 ڈگری سلیسیس سے گھٹ کر 223.2 ڈگری ہو جاتا ہے۔ دور بین کی موثر کارکردگی کے لیے اس کا اس قدر سرد ماحول میں رہنا ضروری ہے۔ اس لیے سن شیلڈ مناسب سرد درجہ حرارت فراہم کرنے کے علاوہ دور بین کو سورج کی تپتی کرنوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ دور بین کے درجہ حرارت کو مناسب حد تک برقرار رکھنے کے لیے اس سن شیلڈ کو کیاپٹان (kapton) سے تیار کیا گیا ہے اور انسانی بال جیسی اس کی پتلی تہیں تیار کی گئی ہیں اور ان کو المونیم سے لیپا گیا ہے تاکہ سورج کی گرمی کو دوسری جانب منعکس کیا جاسکے۔
(2)دوسرا: بڑے آئینے، اس دور بین کے بنیادی آئینہ کافی بڑے ہیں جن کا قطر 21.4 فٹ ہے۔ اس قدر بڑا آئینہ خلا میں پہنچانا مشکل ہے اس لیے اس آئینے کو 18 مسدس نما (hexagonal) چھوٹے آئینوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے ہر آئینہ کا رقبہ 4.3 فٹ ہے۔ ان تمام آئینوں کو سونے سے لیپا گیا ہے۔ سونے کا استعمال اس لیے کیا گیا ہے کہ اس دھات کا رد عمل نہیں کے برابر ہوتا ہے۔ خلا میں اگر کچھ اس پر اثرا انداز ہونا بھی چاہے تب بھی وہ آئینہ بالکل محفوظ رہ سکے گا اور اپنے اوپر پڑنے والی روشنی کو بھی محفوظ رکھ سکے گا۔علاوہ ازیں سونا، بالائے بنفشی شعاعوں کو تقریباً پوری طرح سے منعکس کرتے ہوئے دور بین کو ٹھنڈا رکھتا ہے۔
(3)تیسرا :integrated science instrument module(ISIM) اور spacecraft bus۔ یہ دور بین کا اصل حصہ ہے۔ISIM دوربین کی جان ہے، یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی حیثیت دماغ کی سی ہے۔ جیسے دماغ کے الگ الگ حصے جسم کے مختلف حصوں کو کنٹرول کرتے ہیں بالکل اسی طرح دور بین میں اس کی کارکردگی ہوتی ہے۔ISIM حسب ذیل چار سائنسی آلات پر مشتمل ہے :
یہ چار حصے دور بین کو درکار برقی توانائی، کمپیوٹنگ کے وسائل، کوڈنگ کی صلاحیت کے علاوہ اس کی ساخت کو استحکام بخشتے ہیں۔ چار ویب سائنسی آلات کے اندر تین مزید آلاجات ہوتے ہیں (1) کیمرہ : اجسام فلکی کی تصاویر لیتا ہے۔ (2) اسپکٹروگراف: روشنی کو مختلف رنگوں میں بانٹتا ہے تاکہ تجزیہ کرنے میں سہولت ہو سکے۔ (3) کورونوگراف: ستاروں کی روشنی کو روکتے ہوئے قریب میں گھوم رہے سیاروں کے مشاہدے میں مد د دیتا ہے۔
(4)چوتھا: spacecraft bus، یہ اس دور بین کا وہ بنیادی حصہ ہے جو اس کے سارے نظام کو مضبوطی کے ساتھ جڑے رہنے میں مدد دیتا ہے۔اس بس کا مجموعی حجم 350 کیلوگرام ہے جو کہ 6200 کیلوگرام وزنی دور بین کو سنبھالے رہتا ہے۔ ان تمام حصوں پر مشتمل دور بین کا طریقہ کارکردگی ملاحظہ فرمائیں:
اس قدر وزنی دور بین خلا میں کیسی چھوڑی جائے گی اور اس کا مستقر کہاں ہو گا؟:
آرائن فائیو راکٹ (Ariane 5 rocket) کے ذریعے فرینچ گُیانا، امریکہ سے اس دور بین کو خلا میں چھوڑا گیا۔ داغے جانے کے 26 منٹ بعد ہی ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے راکٹ سے جدا ہو کر خلا میں اپنا تنہا سفر شروع کر دیا۔ تقریباً ایک ماہ کے تنہا سفر کے بعد یہ اپنے مستقر لگرانج پوائنٹ 2 (Lagrange Point 2) پر پہنچ جائے گا۔ لگرانج پوائنٹ خلا کا وہ مقام ہے جہاں سورج اور زمین کی کشش ثقل مرکز جو قوت centripetal force)) کو متوازن رکھتی ہے جس کے سبب ویب دور بین کا ایک متعینہ دائرے میں گھومتے رہنا ممکن رہتا ہے۔ لگرانج پوائنٹ دو کے اور دو بنیادی فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ اس مقام پر اسپیس کرافٹ کو گھومتے رہنے کے لیے درکار ایندھن قابل لحاظ حد تک کم ہو جاتا ہے۔ بلکہ سورج اور زمین کی کشش ثقل، دور بین کو درکار اضافی توانائی بہم پہنچاتی ہے جس کے سبب وہ ایک مناسب انداز سے گھومتا رہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہاں سے زمین پر موجود ڈیپ اسپیس نیٹ ورک سے مستقل ابلاغ وترسیل کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد ملتی ہے۔خلا میں جملہ پانچ لگرانج پوائنٹس ہیں لیکن ان میں سے دوسرے پوائنٹ کو اس لیے منتخب کیا گیا ہے کیونکہ یہ زمین سے تقریباً پندرہ لاکھ کیلو میٹر دوری پر ایسی جگہ واقع ہے جہاں ٹیلی اسکوپ اور زمین دونوں ہم آہنگی کے ساتھ سورج کے اطراف گردش کرسکتے ہیں۔یوں سمجھیں کہ دوربین کو سورج کی تپش سے بچانےکے لیے زمین ہمیشہ سہارا کیے اس کے ساتھ ساتھ گردش کرتی رہتی ہے۔ بقیہ پوائنٹس پر یہ ہم آہنگی ممکن نہیں۔یہی وہ مستقر ہے جہاں سے دور بین کا کائنات کی بے پناہ وسعتوں تک دیکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔
ویب اسپیس دور بین کیسے کام کرے گی؟
دور بین لگرانج پوائنٹ 2 پر پہنچتے ہی ہمیں پیغام بھیجنا شروع نہیں کرے گی بلکہ اس کے لیے کم سے کم چھ ماہ کی مدت درکار ہے۔ اس دوران دوربین اپنے اطراف کا ماحول اسٹڈی کرے گی۔ ملکی وے کہکشاں کے قریب گھومنے والے اجسام جیسے سیارچے (asteroids)، دُم دار تارے (comets)، چاند اور دیگر سیاروں کو ہدف بناکر کام کرنےکا قابل عمل طریقہ اختیار کرے گی۔اس طرح یہ دور بین ماحول سے صحیح طور سے ہم آہنگ (alignment) ہونے اور اپنے آلہ جات کی پیمانہ بندی (calibration) کرنے کے بعد کائنات کے راز افشاں کرنے کے کام کی شروعات کرے گی۔
یہ جاننے کے لیے کہ دور بین کیسے کام کرتی ہے ایک عام مشاہدہ ذہنوں میں تازہ کرلیں وہ یہ کہ ہم کیسے چیزوں کو دیکھنےکے قابل ہوتے ہیں؟ اس کا جواب روشنی ہے۔ اندھیرے میں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا جبکہ روشنی سب کچھ واضح کر دیتی ہے۔ بس اسی بنیادی فلسفے پر دور بین بھی کام کرتی ہے۔ بنیادی طور پر دور بین چیزیں جیسی تھیں وہ دکھاتی ہے نہ کہ وہ اب جیسی ہیں وہ دکھاتی ہے؟ اس لیے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ دور بین ماضی کے جھروکوں میں دیکھتی ہے نہ کہ حال میں؟ وقت میں پیچھے دیکھنا (time travelling) دراصل یہی ہے کہ انسان جس چیز کو دیکھ رہا ہے اس کا علم اب ہوا ہے حالانکہ وہ چیز پہلے ہی سے موجود تھی۔
وقت میں پیچھے دیکھنے کے فلسفے کو آپ اس مثال سے اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ روشنی کی رفتار فی سکینڈ تین لاکھ کیلو میٹر ہے۔ زمین اور سورج کا درمیانی فاصلہ تقریباً پندرہ کیلو میٹر ہے۔ روشنی سورج سے زمین تک پہنچے میں تقریباً آٹھ منٹ لیتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو سورج ہم دیکھ رہے ہیں وہ آٹھ منٹ پہلے کا سورج ہے۔ مان لیں اب اگر سورج دو ٹکڑے ہوتا ہے تو اس کا علم ہمیں آٹھ منٹ بعد ہوگا۔ اسی طرح سورج اور دیگر سیاروں کا معاملہ ہے۔دیکھیے تصویر:
وقت میں پیچھے دیکھنے کے اس مثال کو وسیع تناظر میں دیکھیں۔ واضح رہے کہ روشنی مسلسل ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اس کو ایک نوری سال کہتے ہیں۔ ہماری یہ کہکشاں اس قدر وسیع وعریض ہے کہ اس کے دونوں جانب کا فاصلہ ایک لاکھ پچیس ہزار نوری سال ہے۔ یعنی روشنی کو ہماری اس کہکشاں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچنے میں ایک لاکھ پچیس ہزار نوری سال درکار ہوتے ہیں۔ واضح رہے ایک نوری سال تقریباً 94 کھرب کیلو میٹر کے برابر ہوتا ہے۔ اس فاصلہ کو طے کرنے کے لیے لگا تار تقریباً 33 ہزار سال روشنی کی رفتار سے سفر کرنا پڑے گا۔ اندازہ لگائیں کہ ہزاروں نوری سال کا سفر طے کرنے کے لیے کس قدر غیر معمولی وقت درکار ہو گا؟
اس کائنات میں ایسی ان گنت کہکشائیں موجود ہیں جنہیں ہماری آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں، اس لیے ان کی حیرت انگیز دوری کی بنا پر ان کی روشنی ہم تک پہنچ نہیں پاتی۔ چنانچہ کہکشاوں اور ان میں پائے جانے والے ستاروں اور سیاروں کو دیکھنا ہو تو بڑی طاقتور دور بینوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دور بین میں موجود خمیدہ نما آئینہ (curved lens) روشنی کو ایک باریک نکتہ پر مرکوز کر دیتا ہے جس کے سبب ہلکی اور مدھم روشنی بھی تیز ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جس دور بین میں جس قدر روشنی اکٹھا کرنے کی صلاحیت ہو وہ اسی قدر زیادہ اور دور تک کائنات کا مشاہدہ کر سکے گی۔
اس ضمن میں سب سے کامیاب تجربہ ہبلس دور بین کے ذریعہ کیا گیا جو ہمارے نظام شمسی سے دس تا پندرہ ارب نوری سال دور موجود کہکشاوں کو دیکھ سکتا ہے اور اس کی جانب سے نشر کی گئیں بے شمار کہکشاوں کی تصویروں نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم ان کو اب دیکھ رہے جو آج سے دس تا پندرہ ارب سال پہلے ہی وجود میں آئیں تھیں۔ چونکہ زمین کا وجود ساڑھے چار ارب سال پہلے ہوا تھا اس لیے ہم تقریباً دس ارب سال پہلے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہی وقت میں پیچھے دیکھنا (time travelling) ہے۔
ہبل دور بین کا بنیادی آئینہ 2.4 میٹر ہے جبکہ جیمز ویب اسپیس دور بین کا آئینہ 6.5 میٹر ہے۔ہبل ٹیلی اسکوپ انسانی آنکھوں سے سو گنا زیادہ روشنی جمع کر سکتا ہے جبکہ جیمز ویب دور بین انسانی آنکھوں سے دس لاکھ گنا زیادہ روشنی اکٹھا کر سکتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ویب اسپیس دور بین اس قدر حساس ہے کہ اگر اس کو چاند پر رکھا جائے تو یہ وہاں سے زمین پر رینگنے والی مکھی کے قدموں کی گرمی تک کو محسوس کر سکتی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ یہ دور بین زیر سرخ شعاعیں (infrared rays) کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زیر سرخ شعاعیں دراصل وہ برقناطیسی شعاعیں (electromagnetic rays) ہیں جن کا طول موج (wavelength) نظر آنے والی روشنی سے زیادہ ہوتا ہے جس کے سبب اس کو انسانی آنکھ دیکھ نہیں پاتی لیکن اس دور بین کی مدد سے اس کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کائنات میں موجود کہکشائیں ہم سے مسلسل دور ہوتی جارہی ہیں اس لیے ان کی روشنی زیر سرخ روشنی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کو انسانی آنکھ دیکھ نہیں پاتی حتیٰ کہ ہبل دور بین بھی اسے شناخت نہیں کر سکتی لیکن یہ جیمز ویب اسپیس دور بین سے ممکن ہوگا۔ اسی غرض سے اس کو ٹھنڈا رکھنے کا پورا انتظام کیا گیا ہے جس میں سن شیلڈ کے تحت حفاظتی انتظام کے علاوہ اس کا رخ سورج کی مخالف سمت کر دیا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ بنیادی طور پر جیمز ویب زیر سرخ دور بین (infrared telescope) ہے جو اجسام فلکی جیسے ستارے، سحابیے (nebulae) اور سیارے جو اس قدر سرد درجہ حرارت میں ہوتے ہیں کہ جنہیں نظر آنے والی روشنی کے ذریعہ دیکھنا ممکن نہیں ہوتا، ان کا بخوبی مشاہدے کر سکتی ہے۔ اس دور بین کی مکمل کارکردگی، اوپر درج کی گئی پہلی تصویر میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
اہم سوالات کے جوابات کا انتظار:
جیمز ویب کی اس حیرت انگیز صلاحیت کی توقعات بھی اسی مناسبت سے باندھی گئیں ہیں۔اب دنیا کو انتظار ہے کہ یہ ویب اسپیس دور بین کس طرح حسب ذیل امور سے متعلق سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں مدد کرے گی:
ابتدائی کائنات:
1) بگ بینگ اور تاریک دور کے بعد خلا میں موجود گیسوں کے گھٹا ٹوپ دھند میں شفافیت کیوں کر پیدا ہوئی؟
2) پھر اس کے بعد پوری کائنات کیسے شفاف یا (ionized) ہو گئی؟
3) پہلی کہکشائیں کیا ہیں؟
کہکشائیں، گزرتے وقت کے ساتھ:
4) کہکشائیں کیسے بنتی ہیں؟
5) کہکشائیں کیسے تبدیل ہوتی ہیں؟
6) کہکشاؤں کے درمیان کیمیاوی عناصر کیسے تقسیم ہوتے ہیں؟
7) کیا ہوتا ہے جب چھوٹی یا بڑی کہکشائیں ایک دوسرے سے مل جاتی ہیں یا آپس میں ٹکرا جاتی ہیں؟
ستاروں کی عمر
8) کیسے گیسوں اور دھول کے بادل آپس میں ٹکرا کر ستارے بن جاتے ہیں؟
9) زیادہ تر ستارے گروپس میں کیوں بنتے ہیں؟
10) سیاروں کا نظام کیسے تشکیل پاتا ہے؟
11) ستارے کیسے بنتے ہیں اور وہ کیسے اپنے اندر موجود ثقیل مادے کو واپس خلا میں چھوڑتے ہیں تاکہ دوبارہ نئے سرے سے ستارے اور سیارے بن سکیں؟
دیگر دنیائیں
12) کیا زمین جیسے دیگر سیارے موجود ہیں؟
13) زمین جیسے زندگی کو سہارا دینے والے کتنے قسم کے سیارے موجود ہیں؟
14) ہمارے نظام شمسی میں پتھر، برف اور گیس سے بھر پور چیزوں کی بنیاد کیا ہے اور وہ کیسے وجود میں آئیں؟
15) ہمارا نظام شمسی دیگر سیاروں کے نظاموں سے کس حد تک مماثلت رکھتا ہے یا کس قدر مختلف ہے؟
اب ویب اسپیس دور بین کہاں ہے اور اپنے مستقر کا سفر کیسے جاری رکھے گی؟
تادم تحریر لانچنگ کے بعد یہ اسپیس کرافٹ مسلسل سفر کرتے ہوئے اپنے سولہویں دن میں داخل ہوچکا ہے، مزید تیرہ دنوں کا سفر ابھی باقی ہے۔ زیادہ تر دشوار گزار مراحل یہ پار کر چکا ہے، مزید مراحل سر کرتے ہوئے یہ اپنے مستقر ایل 2 (L2) پر پہنچ جائے گا۔ اس کا تدریجی سفر اس طرح طے ہوگا:
جہاں بانی اور جہاں بینی:
بلاشبہ اس صدی کے بڑے سائنسی منصوبوں میں جیمز ویب اسپیس دور بین کا شمار بڑا نمایاں ہے۔ اس کی ابتدائی پلاننگ سے لے کر، سالوں کی محنت وجستجو کے بعد خلا تک اس کو پہنچانے کے دشوار ترین مراحل سر کرنا قابل تحسین ہے۔ مغربی دنیا کی خلائی سائنس میں اپنی بالا دستی قائم رکھنے کی کاوشیں روز افزوں بڑھتی جارہی ہیں ہیں۔ترقی یافتہ ممالک کی یہ اجتماعی کوشش ہمیں اجتماعی جائزہ لینے پر متوجہ کرتی ہے۔ بطور خاص برصغیر کے وہ ممالک جو مختلف تنازعات میں ساری توانائیاں صرف کرتے نظر آتے ہیں جن کے وسائل کا ایک بڑا حصہ دفاعی اقدامات پر صرف ہوتا ہے انہیں چاہیے کہ مغربی ممالک جیسا باہم ربط وتعاون یقینی بنائیں۔
خلائی سیاحت (space tourism) اور چاند اور مریخ پر انسانی کالونیاں بسانے کی کوششیں دن بہ دن تیز ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ کوششیں بلاشبہ دنیا میں رہنے والے انسان کا ایک طرح کا مخصوص ذہن بناتی ہیں۔ اس صورت گری میں بحیثیت امت مسلمہ کے ہمارا کردار بڑا اہم ہے۔ نہ صرف ہم داعیانہ کردار کی ادائیگی پر متوجہ رہیں بلکہ علم وتحقیق کے تمام تر میدانوں کے امام بن جائیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے وقت کے حکمرانوں تک اپنے اصحاب کے ذریعہ دعوت پہنچائی لیکن اس سے قبل آپ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم فرمالی تھی۔ رسول اللہﷺ کا یہ اسوہ نہ صرف ہمیں دنیا کے سامنے دین اسلام پیش کرنے کا داعیہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی پر زور ترغیب دیتا ہے کہ ہم علم وتحقیق کی بلندیوں پر پہنچ کر آج کے ترقی یافتہ انسان کو مخاطب کریں۔
لہٰذا ہم جب تک کہ آج کی تحقیق وترقی میں اپنی شراکت یقینی نہیں بنائیں گے اور محض مشاہد کی حیثیت سے مغربی دریافت اور ایجادات سے استفادہ پیش نظر رکھیں گے تو ظاہر بات ہے انسانوں کی امامت کا مقام حاصل ہونے سے رہا۔ مختلف علوم وفنون کی مہارت اور ان میدانوں میں مثالی کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے انسانوں کو یہ واضح پیغام دینا چاہیے کہ کارِ جہاں بانی سے دشوار تر ہے کارِ جہاں بینی……..اس لیےکہ انسان چاہے کتنی ہی ترقی اور یافت کی منزلیں طے کر لے اللہ رب العالمین کے سامنے اس کو تو اپنے اعمال کا حساب بہر حال دینا ہے، اسی پر اس کی اخروی زندگی کا دار ومدار ہے۔
دنیا میں انسان کے بھیجے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے خالق کو پہچانتے ہوئے اسی کی بندگی میں زندگی بسر کرے۔ اسی بندگی کی احسن انداز سے انجام دہی کے لیے خالق ارض وسما نے انسان کو خشکی وتری میں برتری عطا فرمائی (سورہ بنی اسرائیل70) اور اس کے لیے آسمانوں اور زمین کو مسخر کردیا (سورہ الجاثیہ13)۔ اور اس کو سوچنے سمجھنے اور نتیجہ اخذ کرنے کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا (سورہ النحل78)۔ انسان کا خلا میں پہنچنا اور حیرت انگیز دریافتوں اور نت نئی ایجادوں کا اہل بن جانا اسی خدائی تسخیر کی عملی تعبیر ہے۔ لہٰذا اب انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب سے اور قریب تر ہو کر اپنی زندگی صرف اسی کی بندگی میں گزارے۔ دور بین، بیرونی دنیا مسخر کرے اور اس کی خود بینی اس کی اپنی ذات کی معرفت حاصل کرنے میں لگ جائے۔ مخلوق کو خالق کی طرف منسوب کرنا اور بحیثیت مخلوق خالق کی عبادت کرنا یہی انسان کی معراج ہے۔
(مضمون نگار نیوکلیر اینڈ انیرجی فزکس میں پوسٹ گریجویٹ ہیں اورریسرچ اینڈ ڈیلوپمنٹ فیلڈ میں مصروف ہیں )
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 23 جنوری تا 29جنوری 2022