خبر و نظر

کورونا وائرس کا راز؟

پرواز رحمانی

کورونا وائرس کا راز؟
کورونا وائرس کی دھوم تو پوری دنیا میں ہے۔ اس سے بچنے اور اس کے پھیلاو کو روکنے کی تدابیر بھی ساری دنیا میں اختیار کی جا رہی ہیں۔لیکن یہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ وبا آخر ہے کیا۔اس کے علاج کا فارمولا کوئی نہیں جانتا اسی لیے اب تک اس کی ویکسن ایجاد نہیں ہو سکی۔ میڈیکل سائنٹسٹ اور ماہرین طب پریشان ہیں لوگ اپنے اپنے طور پر اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی تدبیر سوشل ڈسٹینس کی ہے اسی لیے پورے ملک میں ریلوے اور ٹرانسپورٹس کا نظام یکسر بند ہے۔ ہوائی سروس معطل ہے۔ لوگوں سے منھ پر پٹیاں باندھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ گھروں میں بھی ایک دوسرے سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے اور تمام شہری یہ سب کر بھی رہے ہیں پھر بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ پتہ نہیں اب کیا ہوگا۔ یہ تدابیر کام آئیں گی بھی یا رائیگاں چلی جائیں گی؟ کوئی علاج دریافت ہوگا بھی یا نہیں؟ دنیا بھر کے طبی ماہرین اور میڈیکل کمپنیاں اس کا علاج تلاش کرنے میں مصروف ہیں لیکن کامیابی نہیں ہاتھ آرہی ہے۔ ہمارے ملک میں لاک ڈاون کھلنے کی تاریخ ۳؍مئی مقرر کی گئی ہے لیکن حالات اس قدر غیر یقینی ہیں کہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہوگا۔ لاک ڈاون کھلنے کے دن کتنی لاشیں گھروں سے نکلیں گی اندازہ نہیں۔
بڑی طاقتوں کی شقی القلبی
وبا قدرتی ہو یا انسانوں کی پیدا کردہ ہو، ہے بہر حال جان لیوا۔ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ جس کو چاہے زندہ رکھے گا جس کو چاہے اٹھا لے گا۔ بڑے بڑے ممالک اور بڑی بڑی سائنسی طاقتیں زمین پر آسمانوں میں سمندروں میں ہواوں میں فضاوں میں خلاوں میں خطرناک ایٹمی تجربات کر رہی ہیں۔ ان سے جب کوئی خطرناک بیماری پیدا ہوتی ہے تو خود ہی شور مچانے لگتی ہیں اور پوری دنیا کو خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں، خود ہی ان کا علاج ڈھونڈتی ہیں اور خود ہی دوائیں بیچنے لگتی ہیں۔ ہندوستان پاکستان جیسے ممالک ہوا میں ہاتھ پیر مارنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ بھارت کے کروڑوں لوگ لاک ڈاون کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن لاک ڈاون کھلنے کے بعد جو صورت حال پیدا ہونے والی ہے اس کی خطرناکی کا اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ ملکی معیشت تو پہلے ہی تباہ تھی لاک ڈاون نے اسے مزید تباہ کر دیا ہے۔ بڑے سخت حالات ہیں۔ حکومتیں تو اپنے ملازمین کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیں گی مگر جو غیر سرکاری اور نجی ادارے بڑے بڑے کام انجام دے رہے ہیں وہ اپنے کارکنوں کو لاک ڈاون کی تنخواہیں کہاں سے دیں گے؟ یقیناً ان اداروں میں لوٹ کھسوٹ کرنے والے بھی ہیں لیکن اصل مسئلہ دیانت دار اداروں کا ہے۔
اس کا انجام کیا ہوگا؟
دنیا کے ممالک اور ہندوستانی عوام پر خواہ کچھ بھی گزر رہی ہو لیکن ہماری حکومت اور اس کی حکمراں پارٹی نے اس صورت حال سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ حکومت تو نیم مردہ معیشت کے بارے میں اٹھنے والے سوالات سے بچ گئی۔ کسی پارٹی میں جرات نہیں کہ وہ معاشی مسائل کے بارے میں جو خود حکومت اور اس کی نظریاتی پالیسیوں کے پیدا کردہ ہیں کوئی سوال اٹھائے جبکہ حکمراں پارٹی اپنے دیرینہ ہندتو ایجنڈے کو بڑی بے شرمی کے ساتھ نافذ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس مصیبت کی حالت میں اس نے ایک ایسا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے جس سے ہندتوا وادیوں کی باچھیں کھل گئی ہیں اور وہ خوشی سے جھوم اٹھے ہیں۔ وہ ہے کورونا وائرس کا ٹھیکرا تبلیغی جماعت کا نام لے کر سارے مسلمانوں کے سر پھوڑنا۔ تبلیغی جماعت کے کارکنان، جنہیں بد دماغ لیڈروں نے دشمن نمبر ایک قرار دے رکھا ہے اور جنہیں ملعون وبدنام کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں، ان کے بارے میں ہر چھوٹے بڑے لیڈر کے منھ میں جو آیا وہ بک رہا ہے اور پرائم منسٹر دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہیں کہ حالات ان کی مرضی کے مطابق صحیح رخ پر جا رہے ہیں۔ اب یہ تو اللہ کے مقررہ یوم الدین ہی میں معلوم ہوگا کہ کس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔

دنیا کے ممالک اور ہندوستانی عوام پر خواہ کچھ بھی گزر رہی ہو لیکن ہماری حکومت اور اس کی حکمراں پارٹی نے اس صورت حال سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔ حکومت تو نیم مردہ معیشت کے بارے میں اٹھنے والے سوالات سے بچ گئی۔ کسی پارٹی میں جرات نہیں کہ وہ معاشی مسائل کے بارے میں جو خود حکومت اور اس کی نظریاتی پالیسیوں کے پیدا کردہ ہیں کوئی سوال اٹھائے جبکہ حکمراں پارٹی اپنے دیرینہ ہندتو ایجنڈے کو بڑی بے شرمی کے ساتھ نافذ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس مصیبت کی حالت میں اس نے ایک ایسا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے جس سے ہندتوا وادیوں کی باچھیں کھل گئی ہیں اور وہ خوشی سے جھوم اٹھے ہیں۔ وہ ہے کورونا وائرس کا ٹھیکرا تبلیغی جماعت کا نام لے کر سارے مسلمانوں کے سر پھوڑنا۔ تبلیغی جماعت کے کارکنان، جنہیں بد دماغ لیڈروں نے دشمن نمبر ایک قرار دے رکھا ہے اور جنہیں ملعون وبدنام کرنے کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے ہیں، ان کے بارے میں ہر چھوٹے بڑے لیڈر کے منھ میں جو آیا وہ بک رہا ہے اور پرائم منسٹر دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہیں کہ حالات ان کی مرضی کے مطابق صحیح رخ پر جا رہے ہیں۔