خبر و نظر

پرواز رحمانی

جنگ آزادی کی بحث
انگریزی سامراج کی گرفت سے ملک کو آزاد کرنے کی جدوجہد کی تاریخ کا ذکر جب بھی آتا ہے ایک حقیقت نمایاں ہوکر ابھرتی ہے کہ ایک بڑا نظریاتی گروپ اس سے دور رہا۔ اس کے پاس کئی عذرات تھے کئی بہانے تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ جنگ آزادی سے دو رہا، بلکہ اس نے قابض حکومت کے ساتھ تعاون بھی کیا۔ صلے میں اسے رسد اور سپلائی کے ٹھیکے ملتے رہے۔ یہ حقیقت اس دور کی متعدد مستند کتابوں میں محفوظ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی گروہ آج ملک کے اقتدار پر چاروں ہاتھ پاوں سے قابض ہے۔ سات سال قبل ملک پر اس کے قبضے کے ساتھ ہی جنگ آزادی میں اس کے کردار کی بحث ایک بار پھر شروع ہوگئی۔ لطف یہ ہے کہ بحث کے مواقع یہ گروہ خود فراہم کرتا ہے۔ کبھی عملاً آزادی کی لڑائی میں حصہ لینے والوں کو برا بھلا کہہ کر کبھی کسی مخصوص فرقے کو آزادی سے الگ تھلگ کردینے کی بات کہہ کر کبھی جنگ آزادی سے دور رہنے والوں کو جنگ آزادی کے مجاہد ہونے کا دعویٰ کرکے اور کبھی آزادی کی جدوجہد کو بے معنی اور بے مصرف قرار دے کر۔ مخالف پارٹیاں اس گروہ کی اس بد حواسی سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ ادھر تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے بھی اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

ایک نیا باب
ابھی ابھی بی جے پی کی ایک نئی بھرتی شدہ اداکار ہ کنگنا رناوت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ملک کو آزادی ۱۹۴۷میں نہیںبلکہ ۲۰۱۴ میں ملی۔ ۱۹۴۷میں ملنے والی آزادی بھیک تھی۔ ۲۰۱۴میں ملنے والی آزادی حقیقی آزادی ہے۔‘‘ کنگنا نے کچھ لیڈروں کے نام بھی لیے جنہوں نے آزادی کی جدوجہد حصہ لیا تھا اور کہا کہ یہ لوگ جانتے تھے کہ اس لڑائی میں خون خرابہ ہوگا۔ اس بیان پر بہت سے اپوزیشن لیڈروں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ خود بی جے پی کے ایم پی ورون گاندھی نے اسے پاگل پن کہا ہے۔ کچھ نے غداری سے تعبیر کیا ہے تاہم بی جے پی آر ایس ایس کی طرف سے کوئی بیان تادم تحریر نہیں آیا۔ اپوزیشن لیڈر مطالبہ کررہے ہیں کہ بی جے پی کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ کنگنا رناوت پارٹی کی رکن ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس سال اسے پدم شری ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔ رناوت کا یہ بیان عین اس وقت آیا جب سیاسی حلقوں میں یو پی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کا یہ بیان تبادلہ خیال کا موضوع بنا ہوا ہے کہ گاندھی جی‘ پنڈت نہرو، سبھاش چندر بوس، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور محمد علی جناح کی کوششوں سے ہمیں آزادی ملی۔ اس فہرست میں جناح کے نام کو بحث کا موضوع بنادیا گیا ہے۔

یہ کام کیا ہے بی جے پی نے
پارٹی کے کئی لیڈروں نے جناح کو ہندوستانی لیڈروں کے ساتھ کھڑا کیے جانے پر اعتراض کیا ہے۔ جبکہ بہت سے مبصر اسے بی جے پی کی تنگ نظری اور تاریخ سے ناواقفیت قرار دے رہے ہیں۔ سماج وادی پارٹی کے حامی اکھلیش یاد وکے بیان کو درست بتارہےہیں۔ الیکشن کمیشن کے ایک ساتھی راج بھر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر محمد علی جناح آزاد ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بنادیے جاتے تو ملک تقسیم ہی نہ ہوتا۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ محمد علی جناح کو اس پر خود گاندھی جی نے آمادہ کیا تھا، مگر جب گاندھی جی نے پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے سامنے یہ بات رکھی تو دونوںنے مخالفت کی۔ اس مجلس میں جناح بھی موجود تھے۔ جب انہوں نےنہرو اور پٹیل کا رویہ دیکھا تو غصے کی حالت میں مجلس سے اٹھ کر چلے گئے ۔ یہ منظر برطانوی فلم ساز سر ایٹم بروہ نے اپنی فلم ’’گاندھی‘‘ میں بھی پیش کیا ہے۔ بہر کیف ملک کی جنگ آزدی میں برسر اقتدار گروہ کا رول موضوع بحث بنا رہے گا اور برسر اقتدار گروہ کے پاس سوائے ادھر ادھر ک باتیں کرنے کے کچھ نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ آزادی کی جدوجہد کی بحث میں مہا سبھا، آر ایس ایس اور بی جی پی کہیں نہیں ٹھہرتیں۔ وہ بس رناوت جیسے افراد سےفضول باتیں کہلواسکتی ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021