خبر و نظر
پرواز رحمانی
یہ جو وزیر اعلی ہیں
یہ جو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہیں، آدمی بڑے دلچسپ اور پر مذاق ہیں۔ ان کی مختلف عادتوں میں سے ایک عادت یہ ہے کہ بات کوئی بھی ہو، رخ مسلمانوں کی طرف موڑ دیتے ہیں، بات میں سے بات نکال لیتے ہیں۔ مسلمانوں کو مطعون کرنے میں انہیں بڑا لطف آتا ہے۔ حقائق کے نام پر لطائف بھی بیان کرتے ہیں۔ ابھی ۱۲ ستمبر کو ایک پروگرام میں کہا پہلے کی سرکاروں میں جب راشن تقسیم ہوتا تو وہی لوگ فائدہ اٹھاتے جو ’’ابا جان‘‘ کہلاتے تھے۔ غریب اور ضرورت مند لوگ محروم رہ جاتے تھے۔ سارا اناج ’’ابا جان‘‘ کہنے والوں کے گھر پہنچ جاتا تھا۔ پچھلی سرکاروں سے ان کی مراد ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس ہے۔ کانگریس تو خیر ۴۵ سال سے یو پی سے غائب ہے۔ ایس پی اور بی ایس پی رہی ہیں۔ ایس پی میں بھی ملائم سنگھ اندر سے بی جے پی کے آدمی تھے۔ ہاں ان کا لڑکا اب باہر نکلا ہے۔ بی ایس پی کا بھی واحد ایجنڈا برسر اقتدار آنا ہے۔ ان میں سے کس پارٹی نے کبھی وہ کام نہیں کیا جسے بی جے پی اپیزمنٹ (مسلم نوازی) کہتی ہے اور یہ ابا جان والی بات ہم صرف یوگی کی زبان سے سن رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ الفاظ کب اور کہاں سے چلے تھے اور کون انہیں کہلواتا تھا۔
سیاست یہی کرتی ہے
بی جے پی اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہر چھوٹی بڑی بات کا سہارا لیتی ہے۔ سبھی سیاسی پارٹیوں کا یہ حال ہے۔ آج کل دلی کے نیم وزیر اعلیٰ کیجریوال پر ہندو اپیزمنٹ کا دورہ پڑا ہے۔ اعلان کیا ہے کہ گنیش چتھورتی کے پروگرام دلی میں سرکاری خرچ سے سرکاری سرپرستی میں کرائے جائیں گے اور یہ کہ ’’رام ہمارے دلوں میں ہیں، بھارتی آئین ہمارے ہاتھوں میں‘‘۔ لیکن وہ یوگی کی طرح بھونڈے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یوگی نے بھونڈے پن اور چھچھورے پن میں اپنی پارٹی کے لیڈروں کو پیچھے چھوڑدیا، وہاں یوگی نے یہ طریقے اپنے لیڈر ہی سے سیکھے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اس طرح کی جملے بازی کیا کرتے تھے۔ جملے بازی کا محاورہ ان کی ذات سے چلا ہے۔ مسلمانوں کے کسی بھی معاملہ میں کہتے تھے ’’میاں مشرف یہی کرتے ہیں؟ میاں مشرف یہی کہتے ہیں۔ میاں مشرف کا کام یہی ہے۔ ’یہ پنچر بنانے والے کیا کر سکتے ہیں، جاو میاں ٹائر ٹیوب جوڑو یہ تمہارے بس کا نہیں‘‘۔ ایک یوگی کیا گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ کی یہ باتیں یہ الفاظ یہ جملے ہزاروں استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے ہندوتوا کے کارکنوں پر وزیر اعظم کی نمائشی نصیحتوں کا اثر نہیں ہوتا۔
وطیرہ پرانا ہے
اگر یوگی کی انتظامیہ میں راشن کی تقسیم صاف ستھرے طریقے سے ہورہی ہے تو بہت اچھی بات ہے، اس پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ مگر یوگی کی ابان جان والی بات صاف بتارہی ہے کہ راشن کی تقسیم میں شفافیت اب بھی نہیں ہے۔ اسی لیے وزیر اعلیٰ کو ہندوتوا کا سہارا لینا پڑا ۔ ورنہ جو کام اچھا ہوتا ہے وہ اپنا تعارف خود کراتا ہے۔ اس کا شہرہ ہوتا ہے۔ بی جے پی کی سیاست اور اس کے سیاسی چھچھورے پن سے ہمیں زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ اس کا وطیرہ اول روز سے یہی ہے جب وہ بھارتیہ جن سنگھ ہوا کرتی تھی۔ مگر چوں کہ مذہبی اقلیتوں کو مطعون کرنا اس کا خاص طریقہ ہے اس لیے اس پر وقتاً فوقتاً تبصرہ کردیا جاتا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اپنی 80سالہ زندگی میں وہ ملک کے اقتدار اعلیٰ تک تو پہنچ گئی بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے وابستہ ہو گئے لیکن اس کا چھچھورا پن ابھی تک نہیں گیا۔ وہ آج بھی ابا جان جیسے طعنوں کی محتاج ہے۔ عام لوگوں تک پہنچنے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔ خواص تک تو وہ کارپوریٹ کے سہارے پہنچ گئی ہے۔ سنجیدہ اپوزیشن پارٹیاں اپنی حکمت عملی اس طرح وضع کریں کہ ہر طبقے اور فرقے کے عام لوگ اس میں دلچسپی لیں۔ کسی مذہبی فرقے یا سماجی طبقے کو ہدف بنانے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس پارٹی کے دل میں کھوٹ ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021