خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

مشرقی ترکستان میں
چین کے صوبے سنکیانگ میں مسلم آبادی پر چینی حکومت کی زیادتیوں کے قصے پھیلتے ہی جارے ہیں، اسی لیے عالمی برادری نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے۔ ہر چند کہ عالمی برادری کا نوٹس مصلحت پسندانہ ہے۔ اسے مسلم آبادی کے ساتھ ہمدردی سے زیادہ چین کی حکومت سے کدورت ہے اس لیے کہ عالمی برادری کی لگام امریکہ کے ہاتھوں میں ہے، تاہم عالمی برادری خصوصاً یوروپی یونین بیانات کی حد تک ہی سہی جو کچھ کہہ رہی ہے بسا غنیمت ہے۔ سنکیانگ مسلم اکثریت والا صوبہ ہے یہ مسلمان ایغور نسل کے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ چین کا حصہ نہیں ہے۔ وہ اسے مشرقی ترکستان کہتے ہیں۔ اس موقف کی بنیاد پر وہاں مسلم لیڈر شپ بھی پیدا ہوگئی ہے اور چین کو سب سے بڑا قلق اسی بات کا ہے کہ یہ لیڈر شپ مسلم اکثریت کو چین کے مقابلے پر کھڑا کرنا چاہتی ہے لیکن دوسرا موقف یہ ہے کہ چینی حکومت نے اپنی پالیسی کی وجہ سے مسلم آبادی پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ان کی مذہبی آزادی چھین لی ہے۔ انہیں بڑے بڑے کیمپوں میں ایک طرح سے قید کر رکھا ہے۔ عالمی برادری کا ردعمل دراصل اسی صورتحال پر ہے۔ اصل حالات تو چین جا کر ہی معلوم ہو سکتے ہیں جو ایک مشکل کام ہے لیکن جو خبریں ادھر ادھر سے آجاتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سنکیانگ میں مسلم آبادی کے لیے صورتحال واقعی سنگین ہے۔

پاکستان کا موقف
اسی دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دھڑلے سے کہا ہے کہ ایغور کے مسلمانوں کے مسئلے پر پاکستان کو چین کا موقف تسلیم ہے، اس سلسلے میں پاکستان پوری طرح چین کے ساتھ ہے۔ عمران خان کا یہ بیان مسلمانوں کے لیے تعجب انگیز بالکل نہیں ہے۔ اس لیے کہ پاکستان اس سے پہلے بھی یہ بات کہہ چکا ہے۔ ایغور مسلمانوں کا بحران بہت قدیم ہے لیکن پاکستان نے اس پر کبھی کچھ نہیں کا۔ اگر کہا بھی تو چین کی حمایت میں کہا۔ درست ہے کہ چین کے پاکستان کے بہت قریبی اور گہرے تعلقات ہیں اور دیرینہ ہیں۔ پاکستان پر چین کے بہت احسانات ہیں۔ چین نے ماضی میں پاکستان کو کئی بار عالمی بحران سے نکالا ہے۔ اب کئی برسوں سے چین اور پاکستان کے مابین سی پیک منصوبہ پر کام ہو رہا ہے۔ اس میں کچھ اور ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ ایک بہت وسیع ترقیاتی پروجیکٹ ہے جس پر پاکستان نے چین کے بھروسے سب کچھ داو پر لگا رکھا ہے۔ اب اس صورت میں پاکستان بھلا چین سے تعلقات کیسے کمزور کر سکتا ہے۔ حالانکہ اگر علانیہ نہیں تو خفیہ مذاکرات کیے جاسکتے تھے۔ بعض سادہ لوحوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے چین سے ضرور بات کی ہوگی لیکن ظاہر ہے کہ بات چیت کا نتیجہ نکلوانا پاکستان کے بس سے باہر ہے۔ پاکستان تو چین کا یہ موقف بھی تسلیم کرتا ہے کہ کیمپ قید خانے نہیں، تربیت گاہیں ہیں۔

اور مسلم دنیا
جی تو نہیں چاہتا کہ اسلام اور امت کے مسائل کے ذیل میں مسلم ملکوں کا ذکر کیا جائے کیوں کہ عرصہ دراز ہوا ان ملکوں نے خصوصاً مالدار ملکوں نے امت مسلمہ سے اپنا تعلق منقطع کرکے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مراسم استوار کرلیے ہیں۔ بمشکل تین چار ممالک ہیں اللہ نے جنہیں اسلامی غیرت عطا کی ہے۔ باقی سب اپنی غیرت وحمیت فروخت کرچکے ہیں۔ قدرتی وسائل کے اعتبار سے جو ملک جتنا مالدار ہے اتنا ہی امت سے دور اور امت دشمنوں کے قریب ہے۔ دور حاضر میں امت پر سب سے بڑی آزمائش برما میں آئی ہے جہاں قدیم مسلم خاندانوں پر فوجی اور سیول دونوں قسم کے حکمرانوں نے مظالم ڈھائے۔ اب وہاں سیول رائٹس کے کچھ گروپس اٹھے ہیں جو ان مظالم پر احتجاج کررہے ہیں لیکن ان کے اثرات بہت محدود ہیں۔ چین میں پندرہ بیس سال قبل پاکستان جماعت اسلامی نے چین کی حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ مذاکرات اور تبادلہ خیال کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ دونوں میں خاصی قربت پیدا ہوگئی تھی مگر اس کے بعد کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا اور کہاں جاکر رابطہ منقطع ہوگیا۔ اگر سلسلہ جاری رہتا تو امید تھی کہ سنکیانگ کی مسلم آبادی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا اور اسلام کے بارے میں چین میں پائی جانے والی غلط فہمیاں بھی کم ہوجاتیں۔ اب عمران خان نے تو اپنے بیانات اور خاموشی سے کوئی امید باقی ہی نہیں رہنے دی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 جولائی 2021