خبر و نظر

عرب اسپرنگ کے بعد

پرواز رحمانی

 

جب سے متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کا اعلان کیا ہے عرب حکمرانوں کے دلوں میں مملکت اسرائیل کے لیے زبردست جوش و خروش پیدا ہوگیا ہے۔ ہر عرب حکومت اسرائیل کو گلے لگانے کے لیے بے چین ہے۔ عرب امارات کے بعد اب بحرین نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا یہ بہترین وقت ہے۔ بحرین کا معاملہ یہ ہے کہ یہ چھوٹی سی عرب مملکت اپنی سلامتی کے لیے پوری طرح سعودی عرب پر منحصر ہے۔ اس کا کوئی کام سعودی عرب کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔ اور اس کی یہ حالت ہوئی ہے عرب اسپرنگ کی اُٹھان سے۔ گزشتہ دہائی میں جب مصر اور کچھ دوسری مملکتوں سے عوامی سطح پر تبدیلی کی آواز بلند ہوئی تھی اور لوگ حکومتوں (حکمرانوں) کو بدلنے کے نعرے لگانے لگے تھے تو بحرین جیسی چھوٹی حکومتوں کو سب سے زیادہ فکر لاحق ہوئی تھی کہ اب ان کی خیر نہیں ہے۔ عوام جس وقت چاہیں گے بادشاہت کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ بحرین کو ایک ڈر شیعہ اکثریت کا بھی تھا کیونکہ بحرین میں اکثریت انہی کی ہے، حکمراں طبقہ سنی ہے اس لیے وہاں مستقلاً بے چینی رہتی ہے۔ عرب اسپرنگ کے اٹھتے ہی بحرین فی الفور سعودی عرب کی پناہ میں چلا گیا اور یوں اپنے حقِ حکومت کے بڑے حصے سے دستبردار ہو گیا۔
بحرین کے اقدام کے پیچھے
کہا جاتا ہے کہ اگر سعودی عرب اجازت نہ دیتا تو بحرین اسرائیل سے تعلقات کی استواری کی جرأت کبھی نہ کرتا۔ ویسے یہ سب سطحی تبصرے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عرب دنیا کا حکمراں طبقہ اسرائیل سے اُس وقت سے خوف زدہ ہے جب ١٩٤٨ء میں اُس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اسرائیل کے سر پر امریکہ اور برطانیہ کا ہاتھ ہے ۔۱۹۷۳ء میں مصر کے صدر انورالسادات نے سعودی عرب کے حکمراں شاہ فیصل کی مدد سے اسرائیل کو جنگ میں کامیابی سے باز رکھنے کے بعد کہا تھا کہ ’’میں اسرائیل سے تو لڑسکتا ہوں لیکن امریکہ سے نہیں لڑسکتا‘‘ اس کے بعد ہی انہوں نے اسرائیل سے امن معاہدے کا عمل شروع کیا تھا۔ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہ کرنے والے پی ایل او کے لیڈر یاسر عرفات نے بھی بڑی آسانی سے اسرائیل کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔ دراصل عرب حکمرانوں کو فکر ہے تو صرف اپنی سلطنتوں کو بچانے کی۔ امتِ مسلمہ کے مستقبل اور حرمین الشریفین کے تحفظ سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عرب اسپرنگ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ وہ لوگ اسلام کی بنیاد پر عرب دنیا میں تبدیلی چاہتے تھے لیکن حکمرانوں کو یہ منظور نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اسے ناکام بنانے کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی اور ہر حربہ استعمال کیا۔
ِذاتی اور خاندانی
عرب حکمرانوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی سلطنتیں بچانے کے لیے ہے۔ سفارتی تعلقات تو اب جا کر ظاہر ہو رہے ہیں ورنہ پوشیدہ تعلقات بہت پہلے سے استوار ہیں۔ امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے زمانے میں اگر کوئی تیسری متبادل طاقت تھی تو وہ عالم اسلام کی طاقت تھی گو کہ متحارب طاقتیں اسے تسلیم نہیں کرتی تھی لیکن ان کو احساس تھا کہ اگر عالم اسلام کھڑا ہو گیا تو ہمارے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اس لیے متحارب رہنے کے باوجود ان کا اس بات پر اتفاق تھا کہ مسلم دنیا تعلیم، سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی نہ کرنے پائے اور عرب حکمرانوں نے بھی اس کی پوری پابندی کی۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ کھیلوں پر اربوں ڈالر برباد کرنے والے عرب ملکوں میں کوئی ایک بھی جدید یونیورسٹی نہیں ہے۔ جدید تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے آج کچھ بڑی عرب حکومتیں آزاد فلسطین کا نام لے رہی ہیں تاکہ امتِ مسلمہ میں ان کی کچھ نہ کچھ آبرو بنی رہے لیکن یہ تکلف بھی بس تھوڑے دن کا ہے۔ دنیا دیکھے گی کہ عرب سلطنتیں جلد ہی اِس تکلف سے بھی دستبردار ہو جائیں گی اور عرب امارات و بحرین کے راستے پر چل پڑیں گی ۔ نبیؐ نے فرمایا ’’ایک وقت وہ بھی آئے گا کہ اسلام غربت کے دور میں داخل ہو جائے گا‘‘۔ یہ دور شاید وہی ہے۔ اللہ رب العزت دینِ اسلام کو اور اس کے ماننے والوں کو اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

عرب حکمرانوں کے دلوں میں اسرائیل کے لیے نرم گوشہ صرف اپنی ذاتی اور خاندانی سلطنتیں بچانے کے لیے ہے۔ سفارتی تعلقات تو اب جا کر ظاہر ہو رہے ہیں ورنہ پوشیدہ تعلقات بہت پہلے سے استوار ہیں۔ امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے زمانے میں اگر کوئی تیسری متبادل طاقت تھی تو وہ عالم اسلام کی طاقت تھی گو کہ متحارب طاقتیں اسے تسلیم نہیں کرتی تھی لیکن ان کو احساس تھا کہ اگر عالم اسلام کھڑا ہو گیا تو ہمارے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اس لیے متحارب رہنے کے باوجود ان کا اس بات پر اتفاق تھا کہ مسلم دنیا تعلیم، سائنس اور ٹکنالوجی میں ترقی نہ کرنے پائے اور عرب حکمرانوں نے بھی اس کی پوری پابندی کی۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ کھیلوں پر اربوں ڈالر برباد کرنے والے عرب ملکوں میں کوئی ایک بھی جدید یونیورسٹی نہیں ہے۔ جدید تعلیم کا کوئی ادارہ نہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے آج کچھ بڑی عرب حکومتیں آزاد فلسطین کا نام لے رہی ہیں تاکہ امتِ مسلمہ میں ان کی کچھ نہ کچھ آبرو بنی رہے لیکن یہ تکلف بھی بس تھوڑے دن کا ہے۔ دنیا دیکھے گی کہ عرب سلطنتیں جلد ہی اِس تکلف سے بھی دستبردار ہو جائیں گی اور عرب امارات و بحرین کے راستے پر چل پڑیں گی ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020