این سی ڈبلیو نے مسلمانوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر دیگر کمیونٹیز کے برابر کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کی

نئی دہلی، دسمبر 10: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز مرکزی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ قومی کمیشن برائے خواتین کی طرف سے دائر کی گئی مفاد عامہ کی اس عرضی کا جواب دے جس میں مسلمانوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر دیگر برادریوں کے برابر کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مسلم پرسنل لاء کے مطابق لڑکیوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر ان کی بلوغت کی عمر ہے، جسے 15 سال سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ہندوؤں کے تعزیری قوانین اور ذاتی قوانین (جو بدھ، سکھ اور جین پر بھی لاگو ہوتے ہیں)، عیسائیوں اور پارسیوں نے مردوں کے لیے کم از کم عمر 21 سال اور خواتین کے لیے 18 سال عمر مقرر کی ہے۔

خواتین کے پینل نے اپنی درخواست میں کہا کہ مسلمانوں کو بلوغت کے بعد شادی کی اجازت دینا امتیازی سلوک ہے اور یہ تعزیری قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

کمیشن نے درخواست میں کہا ہے ’’ایک شخص جو بلوغت کو پہنچ چکا ہے وہ حیاتیاتی طور پر تولید کے قابل ہو سکتا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مذکورہ شخص ذہنی اور نفسیاتی طور پر اتنا بالغ ہو کہ وہ شادی کر سکے اور جسمانی طور پر اتنا بالغ ہو کہ وہ جنسی عمل میں مشغول ہو سکے اور اس کے نتیجے میں بچے پیدا ہو سکیں۔‘‘

خواتین کے قومی کمیشن نے نوٹ کیا کہ جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کا قانون 18 سال سے کم عمر کے کسی بھی شخص کو جنسی تعلقات کے لیے رضامندی دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس نے مطالبہ کیا کہ POCSO ایکٹ اور انڈین پینل کوڈ کو مذہبی یا ذاتی قوانین سے قطع نظر یکساں طور پر لاگو کیا جانا چاہیے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ ’’صرف اس لیے کہ بچپن کی شادیاں روایت کے ایک حصے کے طور پر کی گئی ہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ روایت قابل قبول ہے اور نہ ہی اسے اس طرح تقدس دیا جانا چاہیے۔‘‘

مرکز شادی کے لیے یکساں ضابطے پر غور کرے: کیرالہ ہائی کورٹ

دریں اثنا کیرالہ ہائی کورٹ نے جمعہ کو مرکزی حکومت پر زور دیا کہ وہ ازدواجی تنازعات میں مصروف میاں بیوی کے مفاد میں شادی کا یکساں ضابطہ وضع کرنے پر غور کرے۔

عدالت نے یہ مشاہدہ ایک عیسائی جوڑے کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کیا جس نے اس قانونی شق کو چیلنج کیا جس میں طلاق کی شرط کے طور پر ایک سال کے لیے علاحدگی کی ضرورت ہے۔

عدالت نے کہا ’’ایک سیکولر ملک میں قانونی ازدواجی ضابطہ شہریوں کی عام بھلائی کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ مشترکہ بھلائی کی شناخت میں مذہبی بنیاد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔