آج سے بھارت کی جی 20 کی صدارت کا آغاز

وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ اقتدار میں کبھی میڈیا سے بات چیت نہیں کی اور نہ ہی کبھی ان کے سوالوں کا جواب دیا۔ پریس کانفرنس سے ہمیشہ انہوں نے کنارہ کشی اختیار کی لیکن ان کا ہر عمل میڈیا میں سرخیاں بنتا رہا اور ان کی باتیں تواتر کے ساتھ میڈیا میں زیر بحث بنتی رہیں ۔ پہلی بار انہوں نے انگریزی زبان میں ایک خصوصی مضمون لکھا ہے جسے من و عن یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے کہ مجموعی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے، بین الاقوامی ٹیکسیشن کے نظام کو معقول تر بنانے، ممالک پر عائد قرض کے بوجھ سے انہیں راحت بہم پہنچانے کے معاملے میں – سابقہ جی 20 کی 17 صدارتوں نے متعدد دیگر نتائج کے علاوہ اہم نتائج بہم پہنچائے۔ ہم ان حصولیابیوں سے فوائد حاصل کریں گے اور ان کو مزید جلا بخشیں گے۔

تاہم، اب جبکہ بھارت اس اہم ذمہ داری کا بیڑا اٹھانے جا رہا ہے، میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں – کیا جی20 مزید آگے جا سکتا ہے؟ کیا ہم اندازِ فکر میں ایک بنیادی تغیر لانے کے معاملے میں محرک ثابت ہو سکتے ہیں جو مکمل بنی نوع انسانیت کے لیے مفید ثابت ہو؟

میرا یقین ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔

ہمارے انداز فکر ہمارے گردو پیش کی صورتحال سے نشو و نما حاصل کرتے ہیں۔ تمام تر تاریخوں پر نظر ڈالنے سے، بنی نوع انسانیت ہمیشہ قلت کی شکار نظر آتی ہے۔ ہم محدود وسائل کے لیے نبرد آزما رہے کیونکہ ہماری بقاء کا انحصار دوسروں کے لیے اس کی منافی پر تھا۔ مناقشے اور مسابقت- نظریات، فلسفوں اور شناختوں کے مابین – اصول کی شکل اختیار کر گئے تھے۔

بدقسمتی سے، ہم آج بھی صفر نتیجہ کے حامل اندازِ فکر کے اسیر ہیں۔ ہمیں یہ بات اس وقت مشاہدہ میں آتی ہے جب ممالک سرزمین یا وسائل کے لیے جنگ آزما نظر آتے ہیں۔ ہم اس کا مشاہدہ اس وقت بھی کرتے ہیں جب لازمی اشیاء کی رسد رسانی اسلحوں کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ ہم اس کا مشاہدہ اس وقت کرتے ہیں جب چند لوگ اس کی ذخیرہ اندوزی کر لیتے ہیں اور وہ بھی ان حالات میں جب اربوں افراد خطروں سے گھرے ہوئے ہوں۔

کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ مناقشہ اور طمع انسانی فطرت میں شامل ہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔ اگر سارے انسان داخلی طورپر مفاد پرست ہوتے، تو پھر اس صورت میں ان متعدد روحانی روایات کی دائمی موجودگی کا کیا جواز پیش کیا جائے گا جو ہم سبھی کے بنیادی طور پر ایک ہونے کی وکالت کرتے ہیں؟

ایک ایسی روایت، جو بھارت میں بہت مقبول ہے، تمام تر ذی روح کو، یہاں تک کہ بے جان چیزوں کو بھی اُنہی پانچ بنیادی عناصر کا مرقع مانتی ہے، یعنی عناصر خمسہ زمین، پانی، آگ، ہوا اور خلاء۔ ان ہی پانچ عناصر کے مابین ہم آہنگی – ہمارے اندر موجود ہے- اور ہماری طبیعاتی ، سماجی اور ماحولیاتی خیروعافیت کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔

بھارت کی جی 20 صدارت اس آفاقی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے کام کرے گی۔ لہٰذا ہمارا موضوع – ایک کرہ ٔ ارض ، ایک کنبہ، ایک مستقبل  ،محض ایک نعرہ نہیں ہے۔ اس میں بنی نوع انسانیت سے متعلق صورتحال میں رونما ہوئیں حالیہ تبدیلیوں کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے ہم جس کے اجتماعی احساس و ادراک سے قاصر رہے ہیں۔

آج، ہمارے پاس دنیا میں تمام افراد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے وافر پیداوار کرنے کے وسائل دستیاب ہیں۔

آج، ہمیں اپنی بقاء کے لیے نبردآزما ہونے کی ضرورت نہیں ہے- ہمارا عہد جنگ کا عہد ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ دراصل ایسا ہونا بھی نہیں چاہئے۔

آج، ہمارے سامنے درپیش سب سے بڑی چنوتی – موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی اور وبائی امراض ہیں- انہیں ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں ہوئے بغیر ، صرف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مصروف عمل ہو کر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

خوش قسمتی سے، آج کی تکنالوجی ہمیں پوری بنی نوع انسانیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے متعین کردہ پیمانے کے مطابق مسائل کا حل نکالنے کے ذرائع فراہم کرتی ہے۔ وسیع تر ورچووَل دنیا جہاں ہم آج سکونت پذیر ہیں، اس میں ڈجیٹل تکنالوجیوں کی عملی افادیت ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

جہاں پوری بنی نوع انسانیت کا چھٹواں حصہ سکونت پذیر ہے، لسانیات، مذاہب، رسم و رواج اور عقائد کے زبردست تنوع کے ساتھ ، بھارت دنیا کے لیے ایک کائنات اصغر کی حیثیت رکھتا ہے۔

اجتماعی فیصلہ لینے کی قدیم ترین روایات کے ساتھ،  بھارت جمہوریت کے بنیادی ڈی این اے میں اپنا تعاون فراہم کرتا ہے۔ مادرِ جمہوریت  کے طور پر بھارت کا قومی اتفاق رائے صرف احکامات کے ذریعہ وضع نہیں کیا جاتا، بلکہ کروڑوں آزاد آوازیں مل کر ایک ہم آہنگی کی حامل موسیقی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

آج، بھارت سب سے زیادہ تیز رفتار کی حامل نمو پذیر وسیع ترین معیشت ہے۔ ہمارا شہریوں پر مرتکز حکمرانی کا ماڈل ، ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کی خلاقانہ صلاحیتوں کو بالیدہ بنانے کے ساتھ ساتھ ہمارے ازحد حاشیے پر زندگی بسر کرنے والے شہریوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔

ہم نے قومی ترقی کو اوپر سے لے کر نیچے تک کی حکمرانی کے معاملے میں نہ صرف ایک عمل کی شکل دینے کی کوشش کی ہے، بلکہ اسے شہریوں کی قیادت والی عوامی تحریک کی شکل میں لانے کی کوشش کی ہے۔

ہم نے تکنالوجی کو اس انداز سے بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے تاکہ ایسا ڈجیٹل عوامی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے جو کھلاہوا، مبنی بر شمولیت اور باہم اثر پذیر ہو۔ ان چیزوں نے سماجی تحفظ، مالی شمولیت اور الیکٹرانک ادائیگیوں سمیت مختلف النوع شعبوں میں انقلابی پیش رفت پر مبنی نتائج بہم پہنچائے ہیں۔

ان تمام وجوہات کی بنا پر، بھارت کے تجربات ممکنہ عالمی مسائل کے حل کے لیے رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔

ہماری جی 20 کی صدارت کے دوران، ہم بھارت  کے تجربات، علمی استطاعت اور ماڈلوں کو دیگر ممالک خصوصاً ترقی پذیر دنیا کے لیے نمونوں کے طور پر پیش کریں گے۔

ہماری جی 20 کی ترجیحات نہ صرف ہمارے جی 20 شراکت داروں کی مشاورت سے طے ہوں گی بلکہ گلوبل ساؤتھ کے رفقائے کار، جن کی آواز اکثر نظر انداز کر دی جاتی ہے، ہم ان کی باتوں کا بھی لحاظ رکھیں گے۔

ہماری ترجیحات ایک کرۂ ارض کی صحت بحال کرنے، ہمارے ایک کنبے کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے اور ہمارے ایک مستقبل کے لیے امید بہم پہنچانے پر مشتمل ہوں گی۔

ہمارے کرۂ ارض کی صحت بحال کرنے کے لیے ہم ہمہ گیر ماحولیات دوست انداز ہائے حیات کی حوصلہ افزائی کریں گے جو فطرت کے تئیں ایک نگراں کی بھارت کی روایت پر مبنی ہوگی۔

انسانی کنبے کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے، ہم خوراک، کیمیاوی کھاد اور طبی مصنوعات کی عالمی سپلائی کو سیاست کی گرفت سے آزاد کرانے کی خواستگاری کریں گے تاکہ ارضیاتی-سیاسی کشیدگیاں  بنی نوع انسانیت سے متعلق بحران نہ پیدا کر دیں۔ ہمارے اپنے کنبوں میں، جیسا کہ ہوتا ہے، جن کی ضروریات سب سے زیادہ بڑی ہوتی ہیں ان پر توجہ مرکوز کرنا ہماری پہلی فکر ہوتی ہے۔

اپنی مستقبل کی پیڑھیوں میں امید جگانے کے لیے ہم ازحد طاقتور ممالک کے مابین دیانت دارانہ گفت و شنید کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ زبردست تباہی کے ہتھیاروں کی وجہ سے جو خطرات درپیش ہیں انہیں کم کرنے پر بات چیت کا اہتمام کرنا چاہیں گے اور عالمی سلامتی کے اضافہ کی بھی فکر کریں گے۔

بھارت کا جی 20 کا ایجنڈا مبنی بر شمولیت، اولوالعزم، عمل سے مملو، اور فیصلہ کن ہوگا۔

آیئے ہم بھارت کی جی 20 صدارت کو بحالیٔ صحت  اور ہم آہنگی و امید کی صدارت بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوکر کام کریں۔

آیئے ہم سب ایک نئی مثال- بنی نوع انسانیت پر مرتکز عالم کاری  کا خاکہ وضع کرنے کے لیے مل جل کر کام کریں۔