خبر و نظر

بنگلورو میں پولیس کے ہاتھ

پرواز رحمانی

بنگلورو

میں پولیس کے ہاتھوں تین مسلم نوجوانوں کی ہلاکت کا جو واقعہ پیش آیا ہے وہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ نہیں ہے۔اس جنوبی ریاست کا فرقہ وارانہ ماحول بگاڑنے کی کوششیں ایک عرصے سے جاری تھیں۔ بنگلورو کی کچھ آبادیاں اس کے لئے بدنام ہیں۔ مسلم آبادی کو وقفے وقفے سے کسی نہ کسی بات پر مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے جنوبی ریاستوں کو اچھی طرح ٹٹول لیا ہے۔ جنوب میں یہی ایک ریاست اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے موزوں نظر آئی۔ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں انگریزی روزنامے دکن کرانیکل میں ایک اشتعال انگیز عنوان سے ایک آرٹیکل شائع کیا گیا تھا ’’مصطفی دی ایڈیئٹ‘‘ جس پر مسلمانوں نے سخت احتجاج اور مظاہرہ کیا۔ پولیس نے وہی رول ادا کیا جو وہ اِن مواقع پر کرتی ہے۔ دکن کرانیکل خود ایک سنجیدہ اور ذمہ دار اخبار تھا۔ اس میں اس عنوان کا شائع ہونا یقیناً کسی کی شرارت ہوگی۔ اب اگست ۲۰ء کے وسط میں اُسی قبیل کی شرارت کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ایم ایل اے کے ایک بھتیجے نے دینِ اسلام کے خلاف اپنے فیس بک پر ایک دل آزار پوسٹ جاری کی۔مسلم دلوں کو اس سے ذہنی ایذا پہنچی، انہوں نے ایم ایل اے کے گھر اور متعلقہ پولیس تھانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگ شاید اسی کے انتظار میں تھے چنانچہ انہوں نے پولیس کو ورغلایا۔

سوشل میڈیا کا منفی استعمال

حالانکہ ایم ایل اے کانگریس پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں اس کا کوئی ہاتھ نہ ہو اور یہ گھنائونی حرکت اس کے بھتیجے کا انفرادی عمل ہو۔ ویسے مسلم دشمنی میں بعض کانگریسی بھی بی جے پی سے کچھ زیادہ پیچھے نہیں۔ تقسیم ہند کے سوال پر انڈین نیشنل کانگریس کا ایک قابل لحاظ طبقہ بھی مسلمانوں کو ایک ٹکڑا تھما کر باقی ملک میں ’’آزادانہ‘‘ راج کرنے کے لئے بے چین تھا۔ چلئے بنگلور کے واقعے کو ایم ایل اے کے بھتیجے پی نوین کا ذاتی معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ کانگریس کے ایک لیڈر ڈی کے شیو کمار کا کہنا ہے کہ ایم ایل اے کا بھتیجا پی نوین بی جے پی سے وابستہ ہے اور فیس بک پر اس کی پالیسیوں کا پرچار کرتا ہے۔ لیکن یہ بہر حال واقعہ ہے کہ اشتعال انگیزی ہوئی اور پولیس نے اپنے روایتی ہاتھ بھی دکھائے۔ ویسے بھی کرناٹک میں حکومت بی جے پی کی ہے جسے اس قسم کے واقعات کی ضرورت پڑتی ہے۔ سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد گواہی دیں گے کہ اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اِس میڈیا کا استعمال ۲۰۱۴ء سے شروع ہوا ہے جب سے کہ بی جے پی مرکزی اقتدار میں آئی ہے۔ گزشتہ چھ برسوں میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں۔ہمیں نہیں معلوم کہ دنیا بھر میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے تعارف کے لئے مسلمان سوشل میڈیا کا استعمال کس قدر کر رہے ہیں لیکن اتنا معلوم ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور خود انڈیا میں اس کے برعکس میڈیا کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔

ضبط و تحمل کی ضرورت

ویسے ہم مسلمانوں خصوصاً مسلم نوجوانوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ اہل حق کے لئے دنیا میں حالات نہایت ناموافق ہیں۔اسلام کے خلاف بات بات پر اشتعال انگیزیاں ہو رہی ہیں۔ اس ملک میں تو آج کل ایسے ہی لوگ برسر اقتدار ہیں جن کے سیاسی ایجنڈے کا یہ خاص حصہ ہے اس لئے ضبط و تحمل کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے مواقع پر دور اندیشی سے کام لینا چاہئے۔ بہتر یہ ہے کہ ہر شہر اور ہر مقام کے سرکردہ افراد اور پولیس تھانوں سے قریبی روابط رکھے جائیں۔ جہاں بھی کوئی ناخوشگوار بات ہو اپنے طور پر حقائق معلوم کرکے انہیں اعتماد میں لینا چاہئے۔ تشدد اور غیر ذمہ دارانہ حرکات کے بارے میں تو سوچنا بھی غلط ہے۔ پی نوین کے سلسلے میں یہ ہوسکتا تھا کہ اسلام کے خلاف جو بکواس اس نے کی ہے اس کے جواب میں کچھ مسلم نوجوان اسلامی حقائق جمع کر کے فیس بک پر ڈالتے اور عام سوشل میڈیا کا استعمال بھی کرتے۔ یاد رہے کہ اس قسم کے واقعات جہاں دل آزار اور تکلیف دہ ہوتے ہیں وہیں ہمارے لئے دعوت کے مواقع بھی پیدا کرتے ہیں۔ اگر کوئی غلط لکھتا ہے تو آپ صحیح بات لکھ کر لوگوں کے سامنے پیش کریں اور ضرور کریں۔ لیکن یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب جذبات قابو میں ہوں جوش کے ساتھ ہوش بھی ہو۔