خبر و نظر

پرواز رحمانی

اور اب دھرم سنسد
جب سے آر ایس ایس نے مرکزی اقتدار پر باضابطہ تسلط قائم کیا ہے، ملک کی بڑی آبادی کا چین اور سکون غارت ہو چکا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ جلد سے جلد اپنے اس ایجنڈے کو روبہ کار لائے جو اس نے تقریباً سو سال قبل تیار کیا تھا۔ اس بے چین آبادی میں مذہبی اقلیتیں سماجی لحاظ سے پسماندہ طبقات اور آدی باسی علاقے سبھی شامل ہیں لیکن اس کا پہلا ہدف وہ لوگ ہیں جو توحید و رسالت کے قائل ہیں۔ اسی لیے اس کی حکومت نے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا کام اول روز سے شروع کردیا ہے۔ واقعے پر واقعہ ہورہا ہے۔ ابھی ایک واقعہ چل ہی رہا تھا کہ دوسرا شروع ہوگیا۔ گزشتہ چند روز سے مسلم خواتین کی کردارکشی کا سلسلہ آن لائن جاری تھا۔ اس کے ساتھ ہی دھرم سنسدوں کے نام پر مسلمانوں کو مغلظات بکنے کا کام بڑے پیمانے پر ہورہا تھا۔ عادی شر پسندوں کا ایک گروپ مختلف مقامات پر لوگوں کو جمع کرکے مشتعل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بی جے پی کی کسی ریاست اور اس کی پولیس نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ البتہ مہاراشٹرا پولیس نے اس پر کوشش کی اور کچھ افراد کو گرفتار بھی کیا لیکن شر پسندوں کا کام کچھ دوسری ریاستوں میں بدستور جاری ہے۔ علی گڑھ میں ۲۲۔۲۳جنوری کو ’’دھرم سنسد‘‘ بلانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوم سنسدوں کا معاملہ مسلمانوں اور کچھ اہم افراد کی جانب سے سپریم کورٹ تک پہنچایا گیا ہے۔ مگر عدالت عظمیٰ زیادہ چست دکھائی نہیں دیتی۔
اور یہ منتشر امت
ان حالات میں یہ سوال بار بار ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیوں یہ سب اس امت کے ساتھ ہو رہا ہے جسے تمام انسانوں میں سب سے بہتر گروہ کہا گیا ہے اور جس کے ذمے تمام انسانوں کی اصلاح کا کام ہے۔ کیا ہندوستانی مسلمان اسی امت کا حصہ ہیں جسے کُل بنی نوع انسانی کی دنیوی و اخروی فلاح و بہبود کے لیے برپا کیا گیا ہے؟ اور کیا یہ امت کیا اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے؟ کوئی شک نہیں کہ بیس کروڑ کی یہ امت بحیثیت مجموعی کتاب و سنت پر ایمان رکھتی ہے۔ امت کا بڑا حصہ صوم و صلوٰۃ اور بہت سے احکام پر عامل ہے لیکن کیا اس عمل کے سبھی تقاضے پورے کیے جارہے ہیں؟ کیا امت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکی ہے؟ کیا امت کے علماء نے سبھی مسلمانوں کو یکجا کر رکھا ہے، کیا مسلکی جھگڑے امت میں آج بھی برقرار نہیں ہیں؟ کچھ غیر مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ مسلمان انہیں بھی مسلمان بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ خود مسلمانوں میں کافر ساز علما موجود ہیں جو مختلف عنوانات سے خوداپنے بھائیوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور انہیں امت سے کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ تبلیغی جماعت پر سعودی عرب کی پابندی کے سلسلہ میں ملت اسلامیہ ہند آج بھی ایک نہیں ہے۔ ایک بڑا طبقہ تو بہت خوش ہے اور اسے اپنے عقائد کی فتح سمجھ رہا ہے۔ دیگرمسلمان بھی اسے اپنے اپنے مسلک کے مطابق دیکھ رہے ہیں۔ پابندی کے اقدام کی مذمت پر کچھ افراد تو سعودی حکومت اور سعودی حکمران خاندان کو مظلوم تک بتارہے ہیں۔
بات صرف پہچانے کی ہے
آج اس ملک میں اسلام کے خلاف جو بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں اسلام کا تعارف اس طرح نہیں کرایا گیا جس طرح کرایا جانا چاہیے تھا اور شر پسند اسی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ ہاں یہ بھی درست ہے کہ یہاں کے لوگوں نے بھی اسلام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ آر ایس ایس پڑھے لکھے لوگوں کا سنگھٹن سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے ممبروں نے دنیا بھر کا فلسفہ پڑھ رکھا ہے۔ نہیں پڑھا تو اسلام کے بارے میں۔ اگر کچھ پڑھا بھی ہوتو دیانتداری کے ساتھ نہیں۔ لیکن پہلی ذمہ داری مسلمانوں کی تھی کہ ان تک اسلام کا پیغام پہنچاتے، انہیں بتاتے کہ اسلام کیا ہے کیانہیں ہے۔ وہ تو بالکل نہیں ہے جو وہ سمجھتے ہیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دھرم سنسد والوں نے بھی اسلام کو انہی لوگوں سے سمجھا ہے اگر وہ براہ راست اور بلا واسطہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تو یہ حرکتیں نہ کرتے۔ آج جو مسلم افراد اسلامی دعوت کا کام کررہے ہیں وہ صرف پیغام پہنچانے کی حد تک ہے۔ اس میں کوئی زبردستی نہیں، کوئی دباو نہیں۔ کیوں کہ اسلام میں جبر وا کراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جس کی سمجھ میں آئے مان لے ورنہ انکار کردے۔ انکار کی صورت میں بھی سماجی تعلقات اور روز مرہ کے میل ملاپ میں کوئی فرق نہیں آتا۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’جو چیز اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرو‘‘۔ مسلمانوں نے ایک بہترین بات اپنے لیے پسند کی ہے اس لیے چاہتے ہیں کہ یہ بہترین بات دوسروں تک بھی پہنچے اور بس۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022