خادم اسلام یوسف کراچا

طیب اردگان کے استاد سے ایک یادگار ملاقات

ڈاکٹر عمیر انس

ہندوستان کے اسلامی حلقے ترکی کے جن ناموں سے بخوبی واقف ہیں ان میں سب سے پہلا اور سب سے زیادہ قابل احترام نام یوسف کراچا کا ہے۔ استنبول کے ارینکوی علاقے میں آپ کے گھر پر آج میں پہلی بار ان سے ملنے جارہا ہوں، کل شام کو استنبول پہنچنے کے بعد سب سے پہلے ان سے ملاقات کا وقت لے چکا تھا۔ ان کا ذکر ندوہ کے زمانے سے ہی ہمیشہ ہوتا رہا ہے، وہ ترکی میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، علامہ سید سلیمان ندوی، علامہ شبلی نعمانی اور اقبال کے ترجمان بھی ہیں اور مترجم بھی۔ فکر اسلامی کے عاشق بھی ہیں اور داعی بھی۔ ترکی میں بر صغیر ہند و پاک کے اسلامی مفکرین کا تعارف اور ان کے افکار کی اشاعت میں انہوں نے اپنی قیمتی زندگی صرف کر دی ہے، نتیجتاً ہند و پاک کے مسلمانوں سے ان کی محبت بے لوث ہے۔ ان کا گھر ہند و پاک کے علماء و طلبہ کی ضیافت کا مرکز ہے۔ ان سب کے بعد ان کا تعارف یہ ہے کہ وہ ترکی کے صدر طیب اردگان کے اساتذہ میں سے ہیں۔ ٹیچرز ڈے پر اردگان اپنے استاد کو کبھی نہیں بھولتے، کسی بھی ملاقات میں ان کے احترام میں آج بھی سربگوش ہوتے ہیں۔
مجھے انقرہ میں قیام کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے استنبول آنے اور جانے میں ہر بار آپ سے ملاقات کا ہدف رہ جاتا تھا لیکن اس بار آپ کا فون نمبر حاصل کر چکا تھا اور فون پر اپائنٹمنٹ بھی لے چکا تھا شوقِ ملاقات میں مقررہ وقت بارہ بجے کے بجائے ساڑھے گیارہ بجے ہی پہنچ گیا۔ ان سے ملاقات میں تاخیر کی غالباً سب سے بڑی وجہ ہندوستانی علماء کے بارے میں میرا اپنا تاثر تھا کہ اتنی بڑی شخصیت سے ملاقات کیسے ہوگی، کتنی دیر کے لیے ملاقات ہو پائے گی، بغیر کسی متعارف شخص کو ہمراہ رکھے کہیں ملاقات رسمی اور مختصر نہ رہ جائے وغیرہ۔ ہندوستان میں کوئی عالم دین جنہوں نے یوسف کراچا کی خدمات کا نصف بھی کیا ہو ان کے بارے میں عام تاثر یہی ہوتا ہے کہ وہ عوامی رابطہ سے منقطع اور عمومی اخلاقیات میں بے حد ریزرو ہو جاتے ہیں، لوگ گرم جوشی سے ان کے پاس جاتے ہیں لیکن بد دل ہو کر واپس آتے ہیں، ان کے پاس بیٹھ کر اپنے حقیر ہونے اور ان کے بڑے ہونے کا احساس کرانے والا ایک ماحول بنا رہتا ہے، اگر وہ خود ایسے ماحول کی تائید نہ بھی کرتے ہوں تب بھی ان کے خدم و حشم ان کے مہمانوں پر غیر ضروری تکلف کا دباؤ بنائے رکھتے ہیں چناں چہ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں علماء سے ملاقات کا اشتیاق ضرورت کے علاوہ شاید ہی کبھی پیدا ہوتا ہے۔
ایک پچہتر سال کا شخص، پچیس علمی کتابوں کا مترجم، ترکی کے صدر کا استاذ اور اپنے آپ میں ایک مدرسہ اپنے فلیٹ کی کھڑکی سے جھانک کر آپ کو دیکھ رہا ہو، اس خدشے کے تحت کہ آپ کہیں راستہ نہ بھول جائیں فون پر رہنمائی کر رہا ہو، خود دروازہ کھول کر آپ کا استقبال کرتا ہو، خود کچن میں جا کر چائے اور اسنیکس لا کر آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہو اور بعدہ یہ معلوم ہو کہ وہ جزوی طور پر فالج کا بھی شکار ہے تو آپ کے دل جو کیفیت ہوگی بس یہی کیفیت اس وقت میرے دل کی بھی ہوئی۔
تعارف کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ میری دلچسپی ان کے تراجم میں تھی، ہر ترجمے کا تعارف کرایا، اقبال کے بالِ جبریل کا ترجمہ مع تشریح کے پہلے ایڈیشن کے بعد دوسرے ایڈیشن کی پروف ریڈنگ بھی دکھائی، لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل کی سند دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ میری بی اے، ایم اے اور جرنلزم کی ڈگریاں بھی اسی یونیورسٹی کی ہیں۔ بر صغیر ہند و پاک کے سیاسی مسائل پر دیگر ترکی سیاست دانوں کے بالمقابل بدرجہا بیدار اور حقیقت پسندانہ رائے رکھتے ہیں۔ کہنے لگے تقسیم ہند ایک استعماری سازش تھی، اگر مسلمانان ہند اور محمد علی جناح غیر مسلموں کے ساتھ اقتدار میں شراکت کے کسی بھی فارمولے پر اتفاق کر لیتے تو یہ خطہ کے لیے اور اس کے تمام مسلمانوں کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بے حد مفید ہوتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک بھی ٹھیک سے اسلامی نہ بن سکا۔ انہوں نے علماء ہند سے بجا شکوہ کیا کہ اُنہوں نے ہندوستان میں اسلام کا تعارف غیر مسلموں کے سامنے پیش کرنے میں شدید کوتاہی برتی ہے۔ انہوں نے یاد لایا کہ علامہ شبلی نے علماء کو ہندی زبان ہی نہیں بلکہ سنسکرت زبان سیکھنے کی بھی تاکید کی تھی، لیکن بر صغیر کے علماء اسلام کی دعوت پیش کرنے میں ناکام ہوگئے۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی کا ذکر کرتے کرتے ان کی آواز بھاری ہوگئی، کہنے لگے کہ حضرت انہیں اپنا بیٹا کہتے تھے، ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات حوصلہ افزائی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت کی مشہور کتاب فضائل اعمال کا بھی ترجمہ دکھایا اور کہا کہ میرا شکوہ اس جماعت سے یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سرگرمیوں کی جو شکل بنائی ہے وہ محض کم پڑھے لکھے لوگوں کے لیے بہتر ہے لیکن پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے تبلیغی جماعت کو مزید بہتر پروگرام بنانا چاہیے تھا، چناں چہ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت عالم عرب ہو یا ترکی اس طرح مقبول نہیں ہو سکی جس طرح یہ ہندوستان کے کم پڑھے لکھے مسلمانوں میں مقبول ہوئی۔
گفتگو کا سلسلہ اس وقت جذباتی ہو گیا جب میں نے ان سے ان کے بچپن کے بارے میں پوچھا۔ بات شروع ہوئی تھی عدنان میندریس کی سزائے موت سے۔ انہوں نے بتایا جب وہ پانچ سال کے تھے تو قرآن مجید کی تعلیم گھروں میں دینے پر پابندی تھی اور ان کے والد صاحب محلے کے بچوں کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے، محلے کے باہر ایک دوری پر کسی ایک کو ہمیشہ کھڑا رکھا جاتا تھا کہ وہ اگر پولیس کو آتے دیکھے تو فوراً اطلاع دے۔ ایک دن پولیس آئی، محلے کے بچوں کو پہلے ہی سے ہٹا دیا گیا تھا لیکن وہ اپنے والد کے پاس ہی بیٹھے رہے، پولیس نے تفتیش کے بعد ان کو وارننگ دی کہ انہیں معلوم ہے کہ آپ پڑھاتے ہیں اور آپ پر نگاہ رکھی جا رہی ہے۔ قرآن اور دینیات کی تعلیم دینے کے معاملے میں ترکی میں جو سختیاں کی گئیں وہ سوویت یونین کے مسلم علاقوں میں کی گئی سختیوں سے بھی زیادہ تھیں۔ جب عدنان میندریس نے عربی زبان میں اذان اور قرآن کی تعلیم پر عائد پابندی کو ختم کرنے کا اعلان کیا تو ایک ہی بار میں پورے ترکی میں عربی زبان میں اذان کا سلسلہ شروع ہوگیا اور عدنان میندریس کو اسی جرم میں سزائے موت دی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ عربوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ ایک شامی میڈیکل طالب علم چھٹیوں میں اپنے گھر جا رہا تھا، حیدر پاشا اسٹیشن کے پاس کچھ اوباش نوجوانوں کو معلوم ہو گیا کہ وہ شامی ہے تو اس کو بہت مارا۔ ترکی میں عربوں کے خلاف ماحول بنایا گیا، عثمانی سلاطین کی تذلیل آمیز تاریخ لکھی گئی، لکھا گیا کہ انہوں نے سارا پیسہ مکہ اور مدینہ پر خرچ کر دیا۔ اسی طرح سے عربوں کے لیے نیا تاریخی نصاب تیار کیا گیا جس کے مطابق عثمانی عربوں سے نفرت کرتے تھے، ان کے ذرائع وسائل کو لوٹ کر استنبول لے جاتے تھے۔ اس دور کے بعد آج کا بدلا ہوا یہ نیا دور دیکھنے کا موقع ملا جو ان کی زندگی کی سب سے حیرت انگیز خوشی ہے۔ عربوں اور ترکوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر کے ہی مغربی استعمار کی توسیع ہو سکی ہے۔ گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا اور مجھے احساس ہو رہا تھا کہ اُن پر تکان غالب آرہی ہے، میں بار بار ان سے اجازت طلب کرتا تھا اور وہ بار بار مجھے روکتے رہے۔ ہندوستان میں ان کے قیام کی خوبصورت یادیں، حضرت گنج کی سیر، لکھنو کے کھانے، نوجوانی کے دلچسپ ماضی میں لے گئے، میرے لیے دو سینڈوچ پیش کیے، چائے کے تین دور اور چلے اور پھر ایک دوسرے مہمان کی آمد ہوئی۔ میرے لیے اجازت کا موقع تو نکل آیا لیکن ملاقات تشنہ ہی رہی۔ فرطِ محبت میں مَیں نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا، انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر ایک وظیفہ پڑھا، بوسا دیا، ڈھیر ساری دعائیں دیں اور ایک ایسی بات کہی کہ میں حیرت زدہ ہو گیا، انہوں نے کہا میں تمہارے دل کو پڑھ سکتا ہوں۔
میں اپنی ملاقاتوں میں جذبات کو غالب نہیں ہونے دیتا، لیکن میں ان سے رخصت ہوتے وقت اپنے جذبات کو اس مخلص متواضع لیکن سرگرم خادمِ علم کے پاس چھوڑ کر جا رہا تھا۔
(عمیر انس جواہر لعل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور ترکی کی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں،
انہیں @omairanas پر فالو کیا جا سکتا ہے۔)
***


 

وہ ترکی میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، علامہ سید سلیمان ندوی، علامہ شبلی نعمانی اور اقبال کے ترجمان بھی ہیں اور مترجم بھی، فکر اسلامی کے عاشق بھی ہیں اور داعی بھی۔ ترکی میں بر صغیر ہند و پاک کے اسلامی مفکرین کا تعارف اور ان کے افکار کی اشاعت میں انہوں نے اپنی قیمتی زندگی صرف کر دی ہے، نتیجتاً ہند و پاک کے مسلمانوں سے ان کی محبت بے لوث ہے۔ ان کا گھر ہند و پاک کے علماء و طلبہ کی ضیافت کا مرکز ہے۔