حکومت ہند نے برآمد کیے جانے والے گوشت کے اپنے مینول سے ’’حلال‘‘ کا لفظ ہٹایا

نئی دہلی، جنوری 5: ہندوستان ٹائمز کی خبر کے مطابق ایگریکلچر اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لال گوشت کے مینول سے ’’حلال‘‘ لفظ ہٹادیا ہے۔ یہ کارروائی دائیں بازو کے ہندوتوا گروپوں کے ان الزامات کے درمیان سامنے آئی ہے کہ اس سے مسلم گوشت برآمد کنندگان کو ایک خاص فائدہ ملتا ہے۔

حلال گوشت قرآنی تعلیمات کے مطابق ذبیحہ کے گوشت کو کہا جاتا ہے اور متعدد اسلامی ممالک صرف اسی کی درآمد کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ممالک میں ہندوستان بھینسوں کا گوشت برآمد کرتا ہے۔

حکومتی ادارہ نے، جو وزارت تجارت کے ماتحت کام کرتا ہے، اپنے نظرثانی شدہ مینول میں کہا ہے ’’درآمد کرنے والے ملک/درآمد کنندہ کی ضرورت کے مطابق جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔‘‘

پرانے مینول میں اس میں لکھا تھا کہ ’’اسلامی ممالک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جانوروں کو ’’حلال‘‘ طریقے سے ذبح کیا جاتا ہے۔‘‘

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق ایپیڈا نے واضح کیا کہ ’’ہندوستانی حکومت کی طرف سے حلال گوشت کے بارے میں کوئی شرط نہیں عائد کی گئی ہے۔ یہ درآمد کرنے والے ممالک/درآمد کنندگان کی اکثریت کی ضرورت پر مبنی ہے۔ درآمد کرنے والے ممالک کے ذریعہ حلال سرٹیفیکیشن ایجنسیاں براہ راست تسلیم شدہ ہیں۔ اس میں کسی سرکاری ایجنسی کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘

معلوم ہو کہ دائیں بازو کے گروہ ملک میں مصنوعات کے لیے حلال سرٹیفیکیشن کے خلاف ہیں۔ وشو ہندو پریشد ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔

ایچ این ایم کے ترجمان ہریندر ایس سکّا نے کہا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی گوشت کی منڈی چین ہے اور اسے حلال سرٹیفیکیشن کی ضرورت نہیں ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی ترجمان آر پی سنگھ نے اس ترمیم کے لیے ایکسپورٹ باڈی کے اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔

اس سے قبل دسمبر میں بی جے پی کی زیرقیادت جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن نے بھی ایک تجویز کو منظوری دی تھی جس کے تحت اس کے دائرۂ اختیار میں آنے والے ریستوراں اور گوشت کی دکانوں پر واضح کرنا لازمی قرار دیا گیا کہ وہ جو گوشت پیش کررہے ہیں وہ حلال ہے یا جھٹکا۔