حکومت کے نشانے پر سماج کے کمزور طبقات ہی کیوں؟
دلی پولیس مظلوموں کے خلاف‘ظالموں کے ساتھ
عبد العزیز، کولکاتہ
ڈاکٹر عمر خالد کی گرفتاری کے بعد مظلوم ماں میڈیا کانفرنس میں موجود تھیں۔ ایک برقعہ پوش خاتون کا گھر سے نکل کر اپنے بیٹے کی دادرسی کے لیے آواز اٹھانا کتنا درد بھرا لمحہ ہوسکتا ہے یہ وہی ماں سمجھ سکتی ہے جس کا بیٹا بغیر کسی قصور کے بار بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے محض اس لیے ڈالا گیا ہو کہ وہ دکھی اور مظلوم انسانیت کے حق میں آواز اٹھاتا رہا ہے۔
راقم الحروف کو یاد ہے ایک ماہ ہوا ہوگا جب عمر خالد اپنے نوجوان دوستوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کو خطاب کر رہے تھے جس میں ایک سوال زیر بحث تھا کہ اس کورونا بحران میں مظلوموں کی گرفتاری پر کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟ عمر خالد کی جب باری آئی تو انہوں نے کہا کہ سوال تو اچھا ہے، غور بھی کیا جا سکتا ہے لیکن ہم میں سے کون کب گرفتار کر لیا جائے کہا نہیں جا سکتا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد انہیں کئی گھنٹوں کی پوچھ تاچھ کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ کئی دنوں کے بعد رہائی عمل میں آئی پھر انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا ہے۔ کل کی میڈیا کانفرنس میں گرفتاری سے کچھ پہلے عمر خالد نے اپنی جو تقریر ریکارڈ کرائی تھی اسے پریس کانفرنس میں اسکرین پر دکھایا اور سنایا گیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ”جنوری کے مہینے میں جو بڑے پیمانے پر فساد برپا ہوا اس میں ان لوگوں پکڑا نہیں جا رہا ہے جنہوں نے فساد کرنے پر کھلے عام لوگوں کو اکسایا اور بے شرمی کے ساتھ ترغیب دی اس کے برعکس ان لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے جنہوں نے حکومت کے کام کاج پر تنقید کی تھی اور کالے قانون کے خلاف احتجاجوں میں حصہ لیا، جس نے ایک بار بھی حصہ لیا اسے بھی غلط طریقے سے پھنسایا جا رہا ہے‘‘ دنیا جانتی ہے کہ ہر ظالم اور جابر حکومت اپنے خلاف کوئی آواز برداشت نہیں کرتی۔
میڈیا کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے حقوق انسانی کے علم بردار اور بے باک و حق گو وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ دلی پولیس کی تحقیق و تفتیش ایک مجرمانہ سازش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کا خاص مقصد مجرموں کو بچانا اور تحفظ فراہم کرنا اور بے قصور لوگوں کو پھنسانا اور ستانا ہے۔ معروف وکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ ہم سب ایسے تمام لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جنہیں بلا وجہ گرفتار کیا جا رہا ہے اور پریشان کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے دلی پولیس کی تفتیش کو مجرمانہ بتاتے ہوئے مزید کہا کہ یہ رپورٹ یا تفتیش ایسے لوگوں کو گرفتار کرنے کی سازش رچ رہی ہے جو پر امن اور بے حد مثالی طریقے سے غیر دستوری قانون کی مخالفت کر رہے تھے۔ یہ سازش نہیں تو اور کیا ہے کہ جن لوگوں نے فساد برپا کیا، فسادیوں کو اکسایا پولیس انہی کو تحفظ دے رہی ہے۔ پولیس کی موجودگی میں ہی دلی کے شمالی علاقے میں کپل مشرا نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ اگر احتجاجیوں کو چوبیس گھنٹے کے اندر اٹھایا نہیں گیا تو خود اٹھوا دیں گے یعنی قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے دلی فساد کی شروعات ہوئی اور تین روز تک دلی فساد کی آگ میں جلتا رہا اور حکمراں جماعت کے لیڈر آگ میں تیل چھڑکتے رہے۔ پولیس نہ صرف تماشائی بنی رہی بلکہ سرگرمی کے ساتھ حصہ لیتی رہی۔ ایسا ویڈیو وائرل ہوا جس میں پولیس لاٹھی اور جوتوں سے فیضان نامی نوجوان کو مار رہی ہے اور مارتے مارتے اسے بے دم کر دیا۔ آخرش اس نوجوان نے دم توڑ دیا۔ کمیونسٹ پارٹی کونسل کے ممبر اور طلبا لیڈر کنہیا کمار اپنی ایک دوسری مصروفیت کی وجہ سے کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے لیکن انہوں نے فیس بک پر لکھا کہ ’’بی جی پی لیڈر، جنہوں نے کھلے عام دلی فساد سے پہلے اور فساد کے وقت فسادیوں کو اکسایا تھا پولیس نے نہ ان سے سوال و جواب کیا اور نہ ان کو گرفتار کیا اس سے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ پولیس عدل وانصاف کے لیے کوشاں نہیں ہے بلکہ سیاسی بدلہ لینے کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہے۔
پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے پلاننگ کمیشن کی سابق ممبر محترمہ سیدہ حمید نے کہا کہ” مسلمان اور محروم طبقات حکومت وقت کے نشانے پر ہیں۔ دراصل یہ حکومت گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ ہم لوگ تیزی کے ساتھ ایک مذہبی ریاست کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ اب ہم سب پر منحصر ہے کہ ہم کس قسم کا ملک چاہتے ہیں‘‘ پریس کانفرنس میں موجود کچھ لوگوں نے سی اے اے مخالف لوگوں کے خلاف اور لاک ڈاؤن کے دوران مصیبت زدگان کے خلاف سرکاری جارحیت کا موازنہ کیا۔ سی پی آئی ایم ایل پولٹ بیورو کی ممبر کویتا کرشنن نے کہا کہ پولیس نے بہت لمبی دستاویز عمر خالد کی گر فتاری کے لیے تیار کی ہے۔ اس حکومت نے گیارہ لاکھ صفحات پر مشتمل دستاویز عمر خالد کے خلاف تیار کی ہے مگر مہاجر مزدوروں کی موت پر ایک صفحہ کی دستاویز بھی تیار نہیں کر سکی۔ یہی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ دلی پولیس کو اصل میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ حکومت کی پرائیویٹ آرمی ہے؟ دلی پولیس کی کارکردگی اور تفتیش پربمبئی کے سابق پولیس کمشنر اور رومانیہ کے سابق سفیر جیولیو ربیرو نے دلی پولیس کمشنر کو خط لکھ کر کئی سوالات اٹھائے ہیں اور پولیس کی ظالمانہ رپورٹ اور حکمراں جماعت کے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کو کھلی چھوٹ اور لائسنس دینے پر سخت تشویش ظاہر کی ہے-
9 سابق اعلیٰ افسران نے بھی جیولیو ربیریو کی طرح تشویش ظاہر کی اور ان کے بیان کی تائید وحمایت کی ہے۔ مسلمانوں یا محروم طبقات کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ حق وانصاف کے لیے جو آواز اٹھا رہے ہیں ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ ظلم کی اندھیری رات ہمیشہ نہیں رہتی صبحِ نَو ضرور ہوتی ہے۔ عمر خالد کی مظلوم ماں کا آواز اٹھانا کہ ہم خالد کے ساتھ ہیں ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں بہت معنی رکھتا ہے۔