حکومت ناکامیوں کی پردہ پوشی کے بجائے حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دے

صحت وتعلیم کی تجارت کاری سے باز رہا جائے۔ بحران سےنمٹنے کے لیے عوامی بیداری اور احساس ذمہ داری ضروری

 

نئی دلّی (دعوت نیوز نیٹ ورک ) جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا دو روزہ اجلاس 23تا25 اگست2020 مرکز جماعت ،دلّی میں امیر جماعت جناب سید سعادت اللہ حسینی کی زیرصدارت منعقدہوا جس میں حسب ذیل قرارداد منظور کی گئی۔
مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس اس وقت منعقد ہورہا ہے جب ملک ایک طرف تو کووڈ-19 کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے تو دوسری طرف سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔
جماعت اسلامی کا یہ اجلاس ملک کے تمام باشندوں کو کووڈ-19 سے سبق لینے اور اپنے حقیقی خالق ومالک کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی بھیجی ہوئی تعلیمات کو نظر انداز کر کے انسانی معاشرے کی تشکیل کی جتنی صورتیں اختیار کی گئی ہیں ان سب کے بڑے نقائص اور عیوب بے نقاب ہو چکے ہیں، اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت شدید تر ہوگئی ہے۔
جماعت اسلامی کا یہ اجلاس کووڈ-19 کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے سلسلے میں تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور ان تمام افراد اور خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہے جو کووڈ-19 سے متاثر ہیں، اس کے نتیجے میں ہونے والی مالی پریشانیوں سے دوچار ہیں ، یا اس دوران اظہار رائے کے جرم میں انتظامیہ اور پولیس کے مظالم کا شکار ہوئے ہیں۔
جماعت اسلامی کا یہ اجلاس ملک کی موجودہ معاشی اور سیاسی صورت حال پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتا ہے، عالم اسلام کی صورت حال پر تشویش ظاہر کرتا ہے، اور ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہے۔
ملک کو معاشی بحران سے بچائیں
ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے کسی تیاری کا موقع دیے بغیر 24مارچ 2020 کو اکیس دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ اس غیر متوقع اعلان نے 130 ملین لوگوں کو سنگین بحران سے دوچار کر دیا۔ اسی طرح نومبر 2016 میں عوام کو پریشانی میں مبتلا کرنے والا نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔
اس لاک ڈاؤن نے کروڑوں لوگوں کو کھانے سے محروم، بے گھر اور بے روزگار کر دیا اور ہزاروں لوگ موت کا نوالہ بن گئے۔ اسی طرح ملک میں بڑے پیمانے پر لوگ اور خاص طور سے محنت کش طبقہ جنوب سے شمال اور مغرب سے مشرق کی طرف نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوا۔
یہ سب کچھ واضح طور پر حکومت کی بد انتظامی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ہوا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ کووڈ-19 سے متاثر ہوئے، بہت بڑی تعداد بے روزگار ہوئی، ملک کی جی ڈی پی بہت نیچے آگئی اور شرح ترقی منفی ہو جانے کے درپے ہے۔
بحران سے نمٹنے کے لیے مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں اور ملک کے شہریوں کی طرف سے جو بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ قابل قدر ہیں تاہم موجودہ صورت حال کی سنگینی تقاضا کرتی ہے کہ حکومت مختلف حربوں سے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے بجائے پوری توجہ ملک کے حالات کو بہتر بنانے پر مرکوز کرے۔ نعروں کے بجائے وسیع تر قومی مفاہمت کے ساتھ حکمت عملی اختیار کی جائے اور پارٹی لائن سے اوپر اٹھ کر ملک کے تمام طبقات کا اعتماد حاصل کر کے فوری اقدامات کیے جائیں۔
کووڈ-19 کی تباہ کاریوں اور اس کا مقابلہ کرنے میں ملک کے نظام معیشت اور نظام صحت کی بے بسی کے پیچھے ملک میں پھیلا ہوا کرپشن اور غیر عوام دوست معاشی پالیسیوں کا بھی بڑا کردار ہے۔ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ فوری وقتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں، ملک کی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے،نج کاری کی طرف بڑھتے قدموں کو روکا جائے، صحت وتعلیم کی تجارت کاری سے باز رہا جائے اور بجٹ کے بڑے حصے کو عوام کے رفاہ اور روزگار کے مواقع بڑھانے کے لیے مختص کیا جائے۔
ملک کی اس سنگین صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت پر تکیہ کرنا کافی نہیں ہے عوام میں بھی بیداری اور احساس ذمہ داری کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ عوام کو ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہو کر بھائی چارے کے ماحول کو بڑھانا چاہیے اور باہم کفالت کے رجحان کو فروغ دینا چاہیے۔ جو لوگ بے روزگار ہیں، یا کووڈ-19 کی وجہ سے ناقابل برداشت اخراجات کا سامنا کر رہے ہیں ان کی کفالت کے لیے معاشرے کے تمام افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، یہ انسانیت کا تقاضا ہے جو سبھی پر عائد ہوتا ہے۔
ملک کو سیاسی بحران سے باہر نکالیں
اگر ایک طرف ملک معاشی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے تو دوسری طرف وہ سیاسی بحران سے بری طرح دوچار ہوچکا ہے۔ آئینی اداروں کی خود مختاری پر بڑے اور ناقابل نظر انداز سوالیہ نشانات کھڑے ہوگئے ہیں۔ اظہار اختلاف کی آزادی شدید خطرے سے دوچار ہے، عدلیہ کے اعلیٰ ترین اداروں سے جاری ہونے والے فیصلے پوری دنیا میں تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، حزب اقتدار ملک کی اقلیتوں کے خلاف مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کر رہی ہے تو حزب اختلاف کا رول ناقابل ذکر ہو کر رہ گیا ہے۔
موجودہ حکومت کی اقلیتوں، دلتوں، کمزور طبقات اور خاص طور سے مسلم مخالف پالیسیاں اور فیصلے ملک کی جمہوری پہچان کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ایک خاص طبقے کا کردار ملک میں یکجہتی کی فضا کو مسموم کرنے والا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں نفرت پھیلانے والی باتیں اور ان پر حکومت کی خاموشی اور بسا اوقات سرپرستی ملک کی اقلیتوں کے اندر بے اعتمادی اور غصہ کا سبب بن رہی ہے۔
این آرسی، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کو لاک ڈاؤن کے دوران جس طرح الزامات لگا کر قیدوبند سے دوچار کیا جا رہا ہے وہ نہایت قابل مذمت ہے۔
حکومت کی اولین ذمہ داری اور آئین سے وفاداری کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ آئین اور آئینی اداروں پر ملک کے تمام طبقات کے اعتماد کی حفاظت کرے۔ سیاسی بحران کی یہ صورت حال ملک کے تمام لوگوں کے لیے فکر مندی کا باعث ہونی چاہیے۔
عالم اسلام کی تشویش ناک صورت حال
عالم اسلام کے مختلف خطوں، خاص طور سے یمن، شام، لبنان اور لیبیا میں برسوں سے جاری خانہ جنگی تشویش ناک ہے۔ ان خانہ جنگیوں میں لاکھوں جانیں تلف ہوئیں اور نا قابل شمار مالی نقصانات ہو چکے ہیں۔ صورت حال کی اس خرابی کے لیے عالمی طاقتیں بھی یقیناً ذمہ دار ہیں، تاہم اسے سنبھالنے اور درست کرنے کی اولین ذمہ داری امت مسلمہ پر عائد ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ ان خانہ جنگیوں کے اسباب کی صحیح تشخیص کی جائے اور ان کے سد باب کی عالمی سطح پر مہم چلائی جائے۔
بعض مسلم ممالک میں سیاسی بالیدگی اور حقوق انسانی کی صورت حال تشویش ناک ہے، ان ملکوں میں اظہار رائے پر پابندی ہے اور اصلاح کی پر امن کوششوں کے جرم میں ہزاروں افراد برسہا برس سے جیلوں میں بند ہیں۔ مسلم ممالک کی یہ صورت حال عالمی سطح پر ان کی تصویر کو خراب کرنے والی ہے اور ان کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اسے تبدیل کرنے کے لیے تشدد سے مکمل پرہیز کرتے ہوئے مسلسل اور طویل پرامن جدوجہد ضروری ہے۔
فلسطین پر اسرائیلی قبضہ جس طرح اپنی ابتدا میں غلط تھا اسی طرح اپنے تسلسل میں بھی غلط ہی رہے گا۔ مسلم امت اور انصاف پسند عالمی برادری نے جو موقف قبضے کے آغاز میں اختیار کیا تھا اس موقف کا اعادہ کرتے رہنا ضروری ہے۔ تاکہ وقت کے گزرنے کے ساتھ انصاف کا تقاضا دھندلا نہ ہو بلکہ ہمیشہ اپنی واضح صورت میں سب کے سامنے رہے۔ فلسطین کے سلسلے میں امریکہ کی سرپرستی میں غاصب اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کا تازہ معاہدہ مسئلہ فلسطین کے ساتھ کھلی ہوئی خیانت ہے اور نہایت قابل مذمت ہے۔ فلسطین کے سلسلے میں کسی بھی ملک کی حکومت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ فلسطین کے عوام کی مرضی کے علی الرغم کوئی صورت ان کے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کرے اور کسی مسلم ملک کی حکومت کے لیے تو یہ نہایت شرم ناک بات ہے کہ وہ ایسی کسی مذموم کوشش کا حصہ بنے۔ ہمارے ملک ہندوستان نے جس طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اب تک وہ فلسطین کی آزادی کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ جس مضبوطی سے کھڑا رہا ہے، اپنے اسی موقف پر قائم رہے۔
ہندوستانی مسلمان حوصلے کے ساتھ اپنا فرض نبھائیں
ہندوستانی مسلمانوں کو وطن عزیز میں جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سب سے سنگین مسئلہ بڑھتی ہوئی فسطائیت کا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ طوفان مزید بلاخیز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یقیناً فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کا یہ ماحول نیا نہیں ہے بلکہ ملک میں نفرت اور تعصب کو ہوا دینے اور مسلمانوں کے خلاف فسطائی طاقتوں کے گمراہ کن پروپیگنڈے کی ایک پوری تاریخ موجود ہے۔ البتہ حالیہ برسوں میں جب سے فرقہ پرستی اورفسطائیت کے اس رجحان کو سرکاری چشم پوشی حاصل ہوئی صورت حال خاصی سنگین ہوگئی ہے۔
نفرت اور فسطائیت کے اس انتہائی خطرناک اور موذی وائرس سے چھٹکارا پانے اور برادران وطن کے ذہنوں میں مسلمانوں سے متعلق پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے مؤثر طریقے خدمت خلق، فلاح انسانیت کی سرگرمیاں اور اسلامی اخلاقیات کے عملی مظاہرے ہیں جن کی روشن مثال ملک کے مسلمانوں نے کووڈ-19 کے دوران پیش کی ہے۔ پورے ملک میں مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کے دوران مصیبت کی اس گھڑی میں بلا تفریق مذہب وملت اپنے ضرورت مند اور مصیبت زدہ بھائیوں کی مثالی اور والہانہ انداز میں مدد کی۔مسلم تنظیمیں اور مسلم این جی اوز بھی خدمت خلق کے معاملے میں پیش پیش رہیں۔ اس دوران جماعت اسلامی نے بھی ملک بھر میں مہماتی انداز سے ریلیف کا کام کیا اور ملک وملت کی رہنمائی کے لیے بر وقت اپیلیں جاری کیں۔ مسلم امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدمت و دعوت کی راہ پر صبر وتحمل اور عزم واستقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ۔
تعلیمی اور معاشی لحاظ سے مسلمانوں کی صورتحال بہت توجہ طلب اور منظم جدجہد کی متقاضی ہے۔ ملت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک نئی فکرو سوچ کے ساتھ تعلیمی اور معاشی ترقی کی منصوبہ بندی کرے۔ ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کی کمزوریوں پر تنقید کے ساتھ اس میں موجود امکانات کو اپنی تعلیمی ترقی کے لئے استعمال کرے۔ اسی طرح ملک کے قوانین اور ضوابط سے عدم واقفیت اور ایک حد تک لاپروائی آنے والے وقتوں میں دشواریوں میں اضافہ کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کی این جی اوز، تنظیموں اور اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام کام ملک کے قانون کے مطابق تمام ضروری تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دیں۔ وہیں مسلمانوں کو اپنی تمام قانونی دستاویزات کی تکمیل کے لئے سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔ یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے رہنی چاہیے کہ درپیش چیلنجوں اور پریشان کن حالات سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری تدبیریں اختیار کرتے ہوئے، نصب العین سے گہرا تعلق بہرحال ضروری ہے، مسلمانوں کی حقیقی کامیابی کا انحصار ان کے اپنے نصب العین سے وابستگی پر ہے۔
***

موجودہ حکومت کی اقلیتوں، دلتوں ، کمزور طبقات اور خاص طور سے مسلم مخالف پالیسیاں اور فیصلے ملک کی جمہوری پہچان کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ایک خاص طبقے کا کردار ملک میں یکجہتی کی فضا کو مسموم کرنے والا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا میں نفرت پھیلانے والی باتیں اور ان پر حکومت کی خاموشی اور بسا اوقات سرپرستی ملک کی اقلیتوں کے اندر بے اعتمادی اور غصہ کا سبب بن رہی ہے۔