حملہ آورتربیت یافتہ تھے،مظاہروں کو تشدد سے جوڑنا خطرناک :جماعت اسلامی ہند

وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کا متاثرین سے ملاقات نہ کرنا افسوسناک ۔اقلیتی کمیشن کے تحت انکوائری کروانے کا مطالبہ

نئی دلی ۔ (دعوت نیوز نیٹ ورک)نئی دلی ۔ (دعوت نیوز نیٹ ورک) امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ دلی کے تشدد کے طرز کو دیکھنے سے واضح طور پر نشاندہی ہوتی ہے کہ یہ منصوبہ بند تشدد تھا جس میں خاص طور پر مسلمانوں کی جان و مال اور املاک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امیر جماعت نے یہاں ماہانہ پریس کانفرنس میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے شمال مشرقی دلی کے تشدد، مخالف سی اے اے احتجاج، این پی آر اور جماعت کی جانب سے انجام دی جانے والی راحت سرگرمیوں سے متعلق کئی امور پر اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے دلی کے تشدد کے تعلق سے کہا کہ قتل کے طریقوں اور بستیوں پر حملوں کی شدت سے نشان دہی ہوتی ہے کہ حملہ آوروں کو مسلم طبقے کو نشانہ بنانے کے خاص مقصد کے تحت ہتھیار چلانے کی تربیت دی گئی تھی۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے دلی فساد کے تعلق سے بعض مطالبات کیے ہیں:
۱۔ دلی اقلیتی کمیشن کے تحت تشدد کے سارے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک انکوائری قائم کی جائے جو ایک ماہ کے اندر اپنی تحقیق کو مکمل کرکے رپورٹ کو منظر عام پر لے آئے اور اس کی سفارشات کو لازماً روبہ عمل لایا جائے۔
۲۔ تشدد بھڑکانے کے ذمے دار سیاست دانوں کو فوری گرفتار کیا جائے۔
۳۔ وزیراعظم ریلیف کیمپوں کا دورہ کریں۔
۴۔ وزیراعظم ریلیف کیمپوں کے لیے ۱۰۰ کروڑ روپیے ایکس گریشیا کی رقم کا اعلان کریں اور جو لوگ اپنے گھروں، کاروبار یا گزر بسر کے ذرائع سے محروم ہوگئے ہیں ان کی باز آبادکاری کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے ایکس گریشیا کا اعلان کریں۔
۵۔ دلی پولیس لازماً اپنے اُن افسروں کے خلاف کارروائی کرے جو بے قصور شہریوں، خواتین اور بچوں پر مظالم میں ملوث ہیں۔
وزیر اعظم اور دلی کے چیف منسٹر کے رول کے تعلق سے سوال پر جناب سعادت اللہ حسینی نے کہا ’’۵۰ سے زائد افراد ہلاک ہوگئے، سینکڑوں زخمی ہوگئے اور سینکڑوں مکانات اور دکانوں کو لوٹ کر نذر آتش کردیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے اور یہ سب وزیر اعظم کے دفتر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہوا ہے۔ یہ بات نہایت صدمہ انگیز اور شرمناک ہے کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ نے ابھی تک متاثرہ افراد سے ملنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ یہ انسانیت کی ایک کم سے کم سطح ہے جس کی توقع کی جاتی ہے۔ اس سوال پر کہ آیا شاہین باغ کے مظاہروں کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے کیونکہ یہ تشدد کا سبب بنا ہے تو امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا’’ یہ بہت ہی خطرناک اور قابل مذمت ہے کہ مظاہروں کا ربط تشدد سے جوڑا جائے۔ اختلاف، عدم اتفاق اور پرامن مظاہرے ایک صحت مند جمہوریت کی علامت ہے اور اسے تشدد سے جوڑنا صحیح نہیں ہے‘‘۔ مظاہروں کو نظم میں رکھنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے لیکن تشدد جو شمال مشرقی دلی میں انجام دیا گیا وہ انتہائی مذموم اور ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جہاں تک شاہین باغ کے احتجاج کا تعلق ہے فی الحال یہ معاملہ عدالتوں میں زیر دوراں ہے اس لیے کسی کو اس کے جواز یا عدم جواز پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے تاہم ہمارا احساس ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتجاجیوں کے پاس جاکر ان سے بات چیت کرے۔ حکومت نے اپنے کسی نمائندے کو نہیں بھیجا ہے ہم میڈیا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ دلی میں ہوئے تشدد پر توجہ مرکوز رکھے اور اس کا تعلق مظاہروں سے نہ جوڑے۔ اس سوال پر کہ فسادات کے پیچھے کون تھا؟ امیر جماعت نے کہا کہ یہ معلوم کرنا پولیس کا کام ہے کہ تشدد کے پس پردہ کون ہے۔ لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ نفرت اور سماج کو فرقہ وارانہ خطوط پر بانٹنے کی آئیڈیالوجی کو کون فروغ دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض سیاستدانوں کی اشتعال انگیز تقریروں نے تشدد کو ہوا دی ہے لیکن پولیس کا رول جیسا کہ کئی ویڈیوز اور رپورٹس میں دیکھا جا سکتا ہے انتہائی مضطرب کرنے والا ہے۔ این پی آر کے تعلق سے سوال پر جناب سعادت اللہ حسینی نے کہا کہ این پی آر کا تعلق این آر سی سے ہے جو ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ لہذا ہم عوام سے پرزور کرتے ہیں کہ وہ این پی آر میں حصہ لینے سے گریز کریں۔ امیر جماعت نے ملیام زبان کے چینلوں ’میڈیا ون‘ اور ’ایشیا نیٹ‘ پر پابندی کی بھی مذمت کی۔قبل ازیںامیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کی زیر قیادت ایک وفد نے شمال مشرقی دلی کے تشدد سے متاثرہ لوگوں سے ملاقات کی اور امدادی اور راحت کے کاموں کا جائزہ لیا۔ جماعت کے وفد نے مصطفیٰ آباد کے ایک ہاسپٹل میں کچھ وقت گزارا جس نے سینکڑوں متاثرین کی جان بچانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ تشدد سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک شیو وہار ہے وفد نے وہاں متاثرہ افراد سے ملاقات کی۔ امیر جماعت نے بتایا’’ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ بہت سے مواقع پر ہندو طبقے کے افراد نے مسلمانوں کی جانیں بچائیں اور اسی طرح سے کئی جگہ پر مسلمانوں نے ہندووں کی جانوں کو تحفظ فراہم کیا۔ جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ فساد مقامی لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ باہر کے لوگوں کی طرف سے منظم کیا گیا تھا۔‘‘
جماعت اسلامی کے مستقبل کے منصوبہ کی وضاحت کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا ’’ہم نے ایک کنٹرول سینٹر قائم کیا ہے تاکہ ہماری راحتی سرگرمیوں کو صحیح طور پر مربوط کیا جا سکے، اس کی دیکھ ریکھ ہمارے قومی سکریٹری محمد احمد صاحب کرتے ہیں۔ ہماری کچھ ترجیحات ہیں جیسے ایک سروے کے ذریعہ نقصانات کا اندازہ لگانا، متاثرین کی مدد کرنا اور ان کے کاغذات کو مکمل کرنے میں ان کی مدد کرنا تاکہ وہ سرکار کی طرف سے اعلان شدہ رقم حاصل کر سکیں۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر ضروریات جیسے طبی امداد وغیرہ میں بھی ان کو تعاون دینا۔ اب تک بہت سے ایسے زخمی ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ وہ پولیس کی طرف سےمزید کارروائی سے ڈرتے ہیں۔ انھیں تسلی دینے کی ضرورت ہے تاکہ اسپتال تک لے جایا جاسکے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے اپنا مکمل کاروبار اور ذریعہ معاش کھو دیا ہے۔ بہت سے ایسے ہیں جنھوں نے اپنے کمانے والوں کو گنوا دیا ہے۔ اس وفد میں امیر جماعت کے علاوہ محمد جعفر اور سلیم انجینئر نائب امیرِ جماعت، نیشنل سکریٹریز محمد احمد اور شفیع مدنی کے علاوہ معاون سکریٹری ندیم خان شامل تھے۔