حضور آباد کا نتیجہ کے سی آر حکومت کے لیے دھکا

ایٹالہ راجندر کی بدولت تلنگانہ میں کمزور بھگوا پارٹی کو تقویت

محمد مجیب الاعلیٰ

چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راو کو اسمبلی حلقہ حضورآباد کا ضمنی چناؤ جیت لینے کا اس قدر یقین تھا کہ انہوں نے فتح کاجشن منانے اور ریاست میں پارٹی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے 29 نومبر کو ورنگل میں ’’وجئے گرجنا‘‘ کے انعقاد کا کافی پہلے ہی اعلان کردیا تھا۔ پارٹی کے قیام کے 20 سال کی تکمیل کے موقع سے اب یہ جلسہ منعقد تو ہوگا لیکن امکان ہے کہ احساس شکست کے زیرِ اثر روایتی جوش وخروش سے عاری ہوگا۔ پارٹی کو امید تھی کہ حضور آباد کی کامیابی کا جشن ’وجئے گرجنا‘ کے ذریعہ مناتے ہوئے دیگر اسمبلی حلقہ جات میں پارٹی کے استحکام کی حکمت عملی تیار کی جائے گی لیکن ایٹالہ راجندر نے حکمراں پارٹی کو اپنی زبردست جیت کے ذریعہ صدمہ سے دوچار کر دیا ہے۔
ریاست میں کے چندر شیکھر راو (کے سی آر) کی شبیہ تلنگانہ تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والے ایک مضبوط لیڈر کے طور پر ہے جنہوں نے کانگریس کو جس کا تشکیل تلنگانہ سے قبل ریاست میں طوطی بولتا تھا، ایک محدود دائرہ میں سمیٹ دیا ہے۔ کانگریس کا المیہ یہ ہے کہ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے بعد کوئی بااثر لیڈر پارٹی میں ابھر نہیں سکا جبکہ دوسری طرف تلنگانہ میں بی جے پی شروع سے ہی کمزور رہی ہے۔ اس کا براہ راست فائدہ کے سی آر کو پہنچا جو واحد طاقتور لیڈر کے طور پر ابھرے اور جس کا واضح اثر ان کے طرز حکمرانی میں بھی نظر آتا ہے جیسا کہ ان پر آمرانہ انداز اختیار کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ چیف منسٹر کے کئی فیصلوں کے تعلق سے پارٹی میں ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن کسی کی مجال نہیں تھی کہ صاحب کے آگے ’جی حضور !‘ سے آگے کچھ کہہ سکے لیکن حضور آباد کے ایٹالہ راجندر کو یہ رسم زباں بندی گوارا نہیں ہوئی اور انہوں نے تیوری چڑھا کر صاحب کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ حضور!یہ جی حضوری ہم سے نہیں ہوسکے گی۔ انہوں نے پہلی مرتبہ 2019 میں اپنے باغیانہ تیور یہ کہتے ہوئے دکھائے تھے کہ ’’گلابی جھنڈے (ٹی آر ایس پرچم) کے مالک ہم ہیں اور وزیر صحت کی حیثیت سے ہمارا عہدہ کسی کی خیرات نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد ان کی برہمی دوسری مرتبہ اس وقت دیکھی گئی جب کے سی آر علیحدہ ریاست تلنگانہ تحریک کی مخالفت کا ریکارڈ رکھنے والی اپوزیشن پارٹیوں سے انحراف کرنے والوں کے سرپر ہاتھ رکھنے لگے۔ کم از کم پانچ منحرفین (وائی دیاکر راو، ٹی سرینواس یادو، سبیتا اندرا ریڈی اور جی کملاکر راو) کو کے سی آر کی دوسری میعاد کے دوران کابینہ میں اہم عہدے دیے گئے۔ انتخابی مہم کے دوران ایٹالہ راجندر نے کامیابی کے ساتھ اس بیانیے کو آگے بڑھایا کہ ’’آیا رام گیا رام‘‘ کے ذریعہ تلنگانہ کے جذبات کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے حضور آباد میں اپنی انتخابی مہم کے دوران زیادہ زور اس بات پر صرف کیا کہ چندر شیکھر راو پارٹی کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے قائدین کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ٹی آر ایس سے اپنی برطرفی کے فوری بعد انہوں نے کرناٹک کے ایک ریسارٹ میں اپنے حامیوں کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی جس میں انہوں نے چیف منسٹر کے اپنے فرزند کے ٹی راما راو کو جانشین بنانے کے منصوبوں کی مخالفت کی تھی۔
حضور آباد اسمبلی حلقہ ریاست کے ضلع کریم نگر میں آتا ہے اور اسی ضلع کے متوطن سینئر صحافی افتخار علی واجد نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ایٹالہ راجندر نے تحریک تلنگانہ کو پروان چڑھانے میں اپنی توانائیوں کے ساتھ ساتھ کافی سرمایہ بھی لگایا ہے۔ انہیں یہ بات بہت زیادہ کَھل رہی تھی کہ ٹی آر ایس خاندانی پارٹی ہوتی جارہی ہے کیونکہ کے سی آر اپنے بیٹے کے ٹی آر کو اپنا جانشین بنانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف ان کی بیٹی کویتا اور بھانجہ ہریش راو پارٹی میں حاوی ہو رہے ہیں۔خاص طور پر انہیں اس بات پر بے حد تشویش تھی کہ کانگریس سے ٹی آر ایس میں جوق در جوق آنے والے قائدین کو بڑے عہدے اور مرتبے دیے گئے ہیں اور پارٹی کے مخلص قائدین کو درکنار کیا جارہا ہے۔ایٹالہ راجندر نے ایک موقع پر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’ہماری کامیابی پارٹی کی مرہون منت نہیں ہوتی بلکہ عوام میں ہمارا اپنا اثر ہے اور ہماری محنت کا اس میں دخل ہوتا ہے‘‘۔ ایٹالہ راجندر کے یہی وہ تیور تھے جس سے کے سی آر ’خاندان کی وراثت‘ کو خطرہ محسوس کرنے لگے تھے اور اپنے جانشین (کے ٹی آر) کی تاجپوشی کو سہل بنانے کے لیے موقع کی تاک میں تھے چنانچہ انہوں نے ایٹالہ راجندر کو باہر کا راستہ دکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ چیف منسٹر نے ایٹالہ راجندر کو وزارت صحت سے برطرف کرتے ہوئے اچانک ضلع میدک میں کسانوں کی زمین اور ملکاجگری انڈومنٹ اراضی پر قبضہ کے الزامات پر دو علیحدہ تحقیقات کا حکم دیا۔ اس فیصلے سے دلبرداشتہ ایٹالہ راجندر، پارٹی سے مستعفی ہونے کے بعد بی جے پی میں شامل ہوگئے اور یوں بیٹھے بٹھائے ایک پکا ہوا پھل بھگوا خیمہ میں آگرا۔
ٹی آرایس کو خیرآباد کہنے کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے حلقہ میں گھوم پھر کر عوام کے سامنے اپنا مدعا رکھا اور عوامی ہمدردی کی لہر پر سوار ہو گئے کہ آخر پچھلے چھ الیکشنوں سے وہ اس حلقے سے منتخب ہوتے رہے تھے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے عوام میں ایک بے حد مقبول لیڈر کے مقابلہ میں ایک ناتجربہ کار امیدوار جی سرینواس یادو کو میدان میں اتارا۔ شاید وہ ایٹالہ راجندر کو جواب دینا چاہتے تھے کہ جیت تو ہم دلاتے ہیں ہم چاہیں تو ایک نو آموز تم جیسے سینئر لیڈر کو ہرا سکتا ہے۔ چنانچہ نہ تو کے سی آر اور نہ ہی ان کے بیٹے کے ٹی آر نے انتخابی مہم میں حصہ لیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ یہ کوئی بڑا مقابلہ نہیں ہے۔ کے سی آر بظاہر یہ تاثر ضرور دے رہے تھے لیکن انہوں نے پارٹی قائدین کو ہدایت دے رکھی تھی کہ مقابلہ کو معمولی نہ سمجھا جائے اور جیت کے لیے کوئی کسر باقی نہ رکھی جائے۔ ایٹالہ راجندر دلت طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور حضور آباد حلقے میں اس طبقے کے خاصے ووٹ ہیں۔ اپنے حلقے میں ایٹالہ راجندر کی شبیہ ضرورت پر کام آنے والے ایک ہمدرد دلت لیڈر کی ہے۔ اس پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے کے سی آر نے الیکشن سے عین قبل دلت کارڈ کھیلتے ہوئے ’’دلت بندھو‘‘ اسکیم کا اعلان کیا۔ اس اسکیم کے تحت ہر دلت خاندان کے کھاتے میں دس لاکھ روپے کی منتقلی کا اعلان کیا اور تقریباً سترہ ہزار خاندانوں کے لیے فی خاندان 10 ہزار روپے کے حساب سے رقم کھاتوں میں منتقل تو کی گئی لیکن بعد میں یہ کہتے ہوئے اسے منجمد کر دیا گیا کہ استفادہ کنندگان کو پہلے ایک بزنس یونٹ کا انتخاب کرنا ہوگا اور اس کی منظوری کے بعد ہی رقم جاری کی جائے گی ۔ اس دوران الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ایک شکایت پر دلت بندھو اسکیم پر عمل درآمد کو رکوادیا۔ بعد میں موہن نامی ایک شخص کے ذریعہ دائر کردہ آر ٹی آئی سے پتہ چلا کہ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ ایٹالہ راجندر کی نمائندگی پر ہی کیا تھا۔ چنانچہ ایٹالہ راجندر کو ’’دلتوں کا غدار‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ماحول گرم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رائے دہندوں نے اپنا فیصلہ ایٹالہ راجندر کے حق میں دیا اور انہوں نے ٹی آر ایس کے جی سرینواس کو 23,855 ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی۔ کانگریس پارٹی جس نے 2018 کے الیکشن میں 61 ہزار ووٹ حاصل کرتے ہوئے دوسرا مقام حاصل کیا تھا اس بار ضمانت بھی نہیں بچا سکی اور صرف 2767 ووٹوں پر سمٹ گئی۔ پارٹی کے اس خراب مظاہرہ کی اہمیت کو کم کرتے ہوئے ایم پی اور کانگریس لیڈر کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی نے کہا کہ ان کی پارٹی کے سی آر کے ساتھ اپنے جھگڑے کو طے کرنے کے لیے بالواسطہ طور پر بی جے پی کی مدد پر مجبور ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے ایٹالہ راجندر کی حمایت اس منطق کے تحت کی کہ دشمن کا دشمن، دوست ہوتا ہے۔صحافی افتخار علی واجد نے بتایا کہ ایٹالہ راجندر کی کامیابی کا سہرا بی جے پی کے سر نہیں باندھا جا سکتا کیونکہ دسمبر 2018 میں منعقدہ اسمبلی انتخابات میں حضور آباد حلقہ سے بی جے پی امیدوار کو محض 1608ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے یہ جیت ایٹالہ راجندر نے اپنے شخصی اثر کے بل پر سرکاری مشنری کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے حاصل کی ہے۔
حضور آباد ضمنی الیکشن کی کچھ خاص باتیں نوٹ کرنے کے قابل ہیں ۔
۱۔ ملک کی اس نوخیز ترین ریاست کے کسی حلقہ میں یہ پہلا ضمنی چناو تھا جس میں حکمراں پارٹی پر بڑے پیمانہ پر اور بھاری قیمت پر ووٹوں کی خریدنے کی کوشش کا الزام لگا۔ چنانچہ لوگوں نے ایک ووٹ چھ ہزار روپے میں خریدنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سڑکوں پر احتجاج بھی کیا۔ نوٹ کے بدلے ووٹ کے الزامات کو اس امر سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ پانچ منڈلوں پر مشتمل حضور آباد حلقے میں صرف 31 دنوں کے اندر پولیس نے 3.81 کروڑ روپے ضبط کیے۔ اس صورتحال سے بدعنوان سیاست اور داغ دار جمہوری عمل کی نشاندہی ہوتی ہے۔
۲۔ بی جے پی کے لیے ایٹالہ راجندر کے بغیر حضور آباد میں جیت کا تصور محال تھا جسے 2018 کے الیکشن میں محض 1608 ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی بھگوا پارٹی نے اب اس بیانیہ کو آگے بڑھانا شروع کردیا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں ٹی آر ایس کا واحد متبادل بی جے پی ہے لہٰذا کانگریس کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ اس دوران یہ چہ مگوئیاں بھی جاری ہیں کہ بی جے پی آنے والے اسمبلی انتخابات میں ایٹالہ راجندر کو چیف منسٹر کے عہدہ کے لیے اپنا امیدوار بنا سکتی ہے۔
۳۔ حضور آباد کے ضمنی چناو میں ٹی آر ایس کے تمام قائدین اپنی پارٹی کے امیدوار جی سرینواس یادو کے پیچھے مضبوطی سے کھڑے رہے۔ کے سی آر نے بعض ناراض قائدین کی منہ بھرائی کرتے ہوئے پارٹی کے اندر سے ایٹالہ راجندر کی طرف داری کے آخری امکان کو بھی ختم کردیا تھا لیکن عوام بہرحال ایٹالہ راجندر کے ساتھ تھے۔ اس میں سیاسی قائدین کے لیے سبق یہ ہے کہ اگر وہ عوام سے جڑے رہیں تو انہیں دھن دولت لٹا کر بد عنوانی کی سیاست میں ملوث ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہو گی۔
۴ ۔ ایٹالہ راجندر نے انتخابی مہم کے دوران ’’خاندانی راج‘‘ کو موضوع بنایا اور یقینی طور پر آنے والے الیکشن میں بھی یہ مسئلہ موضوع بنے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے یہاں داخلی جمہوریت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے موروثیت پر قابلیت کو ترجیح دیں اور جن راستوں سے خرابیاں درآتی ہیں ان کی بندش کریں۔
۵۔ بی جے پی میں شمولیت سے قبل ایٹالہ راجندر کی شبیہ ایک سیکولر ذہن رکھنے والے ہمدرد لیڈر کی تھی لیکن انہوں نے اپنی نئی پارٹی بنانے یا کانگریس میں شامل نہ ہوتے ہوئے ایک تیسرا راستہ چنا اور جنوبی ہند کی ریاست میں کمزور موقف رکھنے والی پارٹی کو جو سخت گیر ہندوتوا آئیڈیالوجی پر کار بند ہے، گلے لگانا پسند کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سیکولر سوچ اور کردار کا اظہار سیاسی فائدہ کے تابع ہوتا ہے اور جب اس سے فائدہ ہوتا ہوا نظر نہ آئے تو کوئی بھی نظریہ قابل قبول ہوجاتا ہے بشرطیکہ فائدہ نقد اور سہل الحصول ہو۔ یہ صورتحال سیاست دانوں کے ذہنی دیوالیہ پن کی عکاسی کرتی ہے۔ اس میں ایک پیام یہ بھی ہے کہ مضبوط نظریہ ہی کسی پارٹی کو مضبوط ومخلص کارکن فراہم کر سکتا ہے ورنہ بودا نظریہ رکھنے والوں کے لیے نظریہ ترک کرنے میں دیر نہں لگتی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021