جنوبی ہند کی ریاستوں سے بی جے پی حکومت کا سوتیلا رویہ

مرکز اور ریاستی حکومتوں کے درمیان تلخی

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی بی جے پی نے یہ دعویٰ کیا کہ ان ریاستوں میں جو بھی ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہ مرکزی حکومت کی مرہونِ منت ہیں کیوں کہ اس پر خرچ ہونےوالی ساری رقم مرکز دیتی ہے، جو منصوبہ بھی ریاستیں بناتی ہیں اس کو عملی جامہ پہنانے کا کام مرکزی حکومت کرتی ہے۔ لیکن حقیقت کیا یہی ہے؟ کیا واقعی ریاستوں کے منصوبوں پر خرچ ہونے والی رقم مرکزی حکومت دیتی ہے؟ اسی طرح ایک بحث تلنگانہ میں ہو رہی ہے۔ چند روز قبل تلنگانہ میں بی جے پی کے مرکزی قائدین اور دیگر ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے تقاریر کیں۔ یہ بات بڑی تعجب خیز ہے کہ ریاست میں کسی بھی قسم کے انتخابات نہیں ہیں پھر کیوں بی جے پی کہ بڑے بڑے قائدین حیدرآباد اور ریاست کے دیگر مقامات پر آکر تقریریں کر رہے ہیں؟ بی جے پی کا تو یہ وطیرہ رہا ہے کہ جہاں انتخابات وہاں اس کی قیادت موجود۔ اس کا لقب تو "انتخاب جیوی” ہونا چاہیے۔ پھر کیوں ریاست تلنگانہ میں جلسے رکھے جا رہے ہیں؟ ایک جلسہ عام میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما نے کہا کہ "جس طرح آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کیا گیا، جس طرح رام مندر کی تعمیر شروع ہوئی، بالکل اسی طرح یہاں بھی نظام اور اویسی کا نام مٹا دیا جائے گا، اور وہ دن زیادہ دور نہیں ہیں” آخر انہیں اس طرح کی بات کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو مسلم مخالفت کے سوا کوئی بات سوجھتی ہی نہیں جس طرح یرقان زدہ مریض کو ساری دنیا زرد ہی نظر آتی ہے۔ کیا بی جے پی اویسی اور مسلمانوں کو نشانہ بناکر اتر پردیش میں ماحول بگاڑنا چاہتی ہے؟
بی جے پی کے اس دعویٰ پر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا واقعی ریاست تلنگانہ و آندھرا پردیش میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کو مرکزی حکومت ہی رقم دیتی ہے؟ ان ریاستوں کا سالانہ بجٹ ہی دو لاکھ کروڑ روپے ہے جبکہ مرکزی حکومت کا سالانہ بجٹ ۳۵ لاکھ کروڑ روپے ہے۔ اگر بالفرض ہر ریاست کو دو دو لاکھ کروڑ روپے بھی دیے جائیں تب بھی یہ نا کافی ہو گا۔ کیا مرکزی حکومت ایسا کرتی ہے؟ مرکزی حکومت کے پاس کوئی پیڑ ہے جس سے وہ پیسے توڑ کر ان دو ریاستوں میں تقسیم کر رہی ہے؟ مرکزی حکومت تو ریاستوں سے ہی ٹیکس کی شکل میں رقم وصول کرتی ہے ورنہ اس کے پاس تو کوئی راست ذریعہ ہے ہی نہیں۔ مثال کے طور پر تلنگانہ میں کوئی شخص اگر ایک لیٹر پٹرول خریدتا ہے تو وہ مرکزی حکومت کو ۳۱ روپے ٹیکس کی شکل میں ادا کرتا ہے (اس میں ۵ روپے کی تخفیف کی گئی ہے ) اسی طرح آندھرا پردیش میں کوئی شخص ایک لیٹر ڈیزل خریدتا ہے تو وہ مرکزی حکومت کو ۳۱ روپے ٹیکس ادا کرتا ہے (اس میں حال ہی میں ۱۰ روپے کی تخفیف کی گئی ) مطلب یہ ہے کہ یہ رعایا جنہوں نے پٹرول و ڈیزل خریدا ہے انہوں نے مرکزی حکومت کو ٹیکس کی شکل میں رقم ادا کی ہے۔ اس طرح یہ رقم خود ریاست کی ہے جسے مرکزی حکومت حاصل کر رہی ہے۔
یہاں بی جے پی حکومت کو یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ وہ ان دو ریاستوں سے کتنی رقم وصول کرتی ہے اور کتنی رقم وہ ان کو لوٹاتی ہے؟ بار بار ان ریاستوں پر یہ احسان جتانا کہ ساری رقم مرکزی حکومت دے رہی ہے گویا کہ تلنگانہ، آندھرا، تمل ناڈو اور کیرالا وغیرہ بھِک منگی ریاستیں ہیں اور اگر مرکز اگر رقم مہیا نہ کرے تو یہ ریاستیں فاقہ زد ہوجائیں گی، برباد ہوجائیں گی، مرکز کے رحم و کرم پر ہی یہ ریاستیں قائم ہیں وغیرہ۔ یقینی طور پر اس اہانت امیز سلوک کا جواب ملنا چاہیے۔ اس کا کوئی حل ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو ریاستوں سے وصول ہونے والی رقم مرکز سے انہیں ملنے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔ مرکزی حکومت ان ریاستوں سے پیسے وصول کرکے اتر پردیش اور بہار میں خرچ کر رہی ہے اور وہاں وہ کس مد میں خرچ کر رہی ہے یہ جگ ظاہر ہے۔ مرکزی حکومت کے ایک اہم ادارے ’’نیتی آیوگ‘‘ نے حال ہی میں صحت سے متعلق رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق کیرالا پہلے مقام پر جبکہ اتر پردیش سب سے نچلے مقام پر ہے۔ یہ کسی خانگی ادارے یا کسی حزب مخالف جماعت کی رپورٹ نہیں ہے بلکہ مرکزی حکومت کے تحت چلنے والے ادارے کی رپورٹ ہے۔ یعنی جنوبی ہند کی ریاست کیرالا عوامی صحت کے معاملہ میں پہلے مقام پر ہے جب کہ دارالحکومت سے لگی ہوئی ریاست اتر پردیش آخری مقام پر! اس کا مطلب ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں کے وسائل لے جا کر شمالی ہند کی غریب ریاستوں پر خرچ کی جا رہی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ وسائل وہاں خرچ نہیں ہونے چاہئیں، ضرور ہونے چاہئیں کیوں کہ عوام ملک میں کہیں بھی رہتے بستے ہوں وہ ملک کے عوام ہیں۔ اس کا احساس ہر ایک باشندے کو ہونا چاہیے۔ جنوبی ہند کے عوام بھی ملک کی ترقی میں بھر پور حصہ لیتے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، چاہے وہ اتر پردیش کی ترقی ہو یا بہار کی یا پھر مدھیہ پردیش کی ترقی، ان ریاستوں کی ترقی میں جنوبی ہند کی ریاستیں ہمیشہ ساتھ دیتی رہی ہیں لیکن اس کے بدلے میں ان ریاستوں کو یہ کہہ کر طعنہ دینا کہ ان کی ترقی مرکزی حکومت کی مرہون منت ہے کسی حیثیت سے بھی درست نہیں ہے۔ میں ان سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ جو رقم جنوبی ہند کی ریاستوں کو دی جا رہی ہے کیا وہ مودی اور امیت شاہ کے گھر کی کمائی ہوئی ہے؟ کیا یہ رقم انہوں نے گجرات
سے لاکر دی ہے؟
ریاستی بی جے پی سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ مرکزی حکومت کو اس بات کے لیے آمادہ کریں کہ وہ ریاستوں سے کوئی رقم وصول نہ کرے۔ جو ٹیکس بھی وصول ہوتا ہے وہ اپنی اپنی ریاستوں کی ترقی کے لیے استعمال کریں۔ جنوبی ہند کی ریاستیں کوئی بھی رقم مرکز سے نہ لیں، جو رقم ملک کے شعبہ دفاع، شعبہ خارجہ پر خرچ ہوتی ہے اس کا حصہ یہ ریاستیں مرکز کو ادا کریں۔ لیکن کیا وہ اس مشورے کو مانیں گے؟ کیا بی جے پی اس بات کے لیے تیار ہے؟ اگر وہ اس مشورہ کو ماننے کے لیے تیار ہیں تو میرا یقین ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستیں بھی اس بات کے لیے تیار ہوں گی۔ یہ کتنی بے ایمانی کی بات ہے کہ جنوبی ہند سے وسائل لے جا کر ہندی بولنے والی ریاستوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہندی زبان ہمارا فخر ہے، ہندی زبان کو بھارت کی روح قرار دیا جاتا ہے۔ امیت شاہ نے ہندی کو بھارت کی آتما قرار دیا ہے، تو کیا جنوبی ہند کی زبانیں قابل فخر نہیں ہیں؟ کیا تلگو، تمل، کنڑا، ملیالم ملک کی آتما نہیں ہیں؟ اسی قسم کا سوتیلا رویہ کبھی کانگریس نے بھی اپنایا تھا آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی حالت کیا ہو گئی ہے۔ بی جے پی کو کسی سیاسی پارٹی کی مخالفت کرنی ہو تو کرے لیکن بار بار یہ طعنہ دینا کہ ریاستیں مرکز کی امداد پر جی رہی ہیں قطعاً غلط ہے۔ اس طرح کی بیان بازی سے اسے بچنا چاہیے اور جنوبی ہند کی ریاستوں سے سوتیلا رویہ ترک کردینا چاہیے ورنہ اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو کانگریس کا ہوا ہے۔
***

 

***

 یہ کتنی بے ایمانی کی بات ہے کہ جنوبی ہند سے وسائل لے جا کر ہندی بولنے والی ریاستوں پر خرچ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہندی زبان ہمارا فخر ہے، ہندی زبان کو بھارت کی روح قرار دیا جاتا ہے۔ امیت شاہ نے ہندی کو بھارت کی آتما قرار دیا ہے، تو کیا جنوبی ہند کی زبانیں قابل فخر نہیں ہیں؟ کیا تلگو، تمل، کنڑا، ملیالم ملک کی آتما نہیں ہیں؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022