جموں و کشمیرکی 40فی صد آبادی نفسیاتی امراض کی شکار

مرکزی حکومت کے سخت اقدامات سےباشندوں میں احساس بیگانگی

ابو حذیفہ، حیدرآباد

جموں وکشمیر کے تعلق سے مرکز کے سخت فیصلے وہاں کی عوام کے لیے سوہان روح ثابت ہوئے ہیں۔ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہی ریاست کے خصوصی موقف کو ختم کر دیا گیا۔ حکومت نے اس کے لیے جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ غیر جمہوری ہی نہیں بلکہ غیر آئینی بھی ہے۔ اس وقت جموں وکشمیر میں جو حالات ہیں اس سے وہاں کے لوگوں میں بیگانگی کا احساس پیدا ہوا ہے۔ وہاں کے باشندے اپنے آپ کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے ہیں۔ ریاست میں تجارتی سرگرمیاں بری طرح مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں، معیشت تباہ ہوگئی ہے۔ کشمیر چیمبرآف کامرس کے صدر شیخ عاشق کے مطابق ابتدائی تین ماہ کے دوران کشمیر کی معیشت کو 10ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ یہ ایک اندازہ ہے ورنہ نقصان اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ حکومت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ اس نے جموں وکشمیر کی ترقی اور وہاں کی عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر 5 اگست 2019کو ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے۔ لیکن حقیقت سب کے سامنے عیاں ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی بی جے پی کے دیرینہ ایجنڈے کا حصہ تھی۔ مہاراشٹر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے موقع پر اسے انتخابی موضوع بھی بنایا گیا، اس مسئلہ پر خوب سیاست کی گئی۔بیداری مہم کے نام پر جلسے کیے گیے اور اسے ملک کے ایک اہم مسئلہ کے طور پر پیش کیا گیا۔جموں وکشمیر میں برسہا برس سے جاری تشدد اور شورش نے وہاں کے عوام کو ذہنی کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مودی حکومت کے حالیہ فیصلوں سے جموں وکشمیر کے عوام کے اندر تنہائی اور عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھ گیا ہے۔دی وائر نے اپنی حالیہ رپورٹ میں زہرہ نامی 24 سالہ قانون کی طالبہ کا احوال پیش کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے زہرہ اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ہیں۔ حالیہ واقعات نے اسے ذہنی تنا میں مبتلا کر دیا ہے۔ کشمیر کی صورتحال سے سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوئے ہیں۔ کولکاتا کے اخبار ٹیلی گراف نے ایم ایس ایف کے ایک سروے کے حوالے سے لکھا ہے کہ جموں وکشمیر کی 41 فیصد آبادی تناو کا شکار ہے۔ ریاست کے 26 فیصد لوگ مختلف اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہیں، 19 فیصد لوگوں میں Post Traumatic Stress یعنی ڈر اور خوف کی کیفیت پائی گئی. یہ اعداد وشمار 5ا گست 2019 سے پہلے کے ہیں۔ اب حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ الجزیرہ نے 2016 کی ایک رپورٹ میں ایک سروے کا حوالہ دیا ہے جس میں بتایا گیا کہ کشمیر کے 1.8ملین بالغ افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ وہاں آئے دن ہونے والے تشدد کے واقعات کی وجہ سے کشمیری اپنے تحفظ کے مسئلہ پر کافی فکرمند رہتے ہیں۔ دانشوروں کے ایک وفد نے حال ہی میں کشمیر کے حالات کے جائزہ لینے کے لیے وہاں کا دورہ کیا تھا۔ وفد نے سرینگر، بارہمولہ اور پلوامہ کا دورہ کیا اور وہاں کی زمینی صورتحال کا جائزہ لیا۔ وفد نے سماجی کارکنوں، دانشوروں اور صحافیوں سے بات چیت کی۔ وفد کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ کشمیری عوام خصوصی موقف کے چھن جانے اور وہاں کی موجود صورتحال کی وجہ سے سہمے ہوئے ہیں۔ کشمیری اپنےعزیزوں کی گرفتاری اور تشدد کے واقعات کی وجہ سے پریشان ہیں۔
کشمیر کےحالات پر عالمی میڈیا کی بھی نظرہے۔برطانوی اخباردی ٹیلی گراف میں 16مئی 2019کو ایک مضمون شائع ہوا جس میں ہندوستان بالخصوص کشمیری عوام کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔ مضمون میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں نفسیاتی مسائل کی شرح دیگر ملکوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ ہندوستان کی تقریباً 15 فیصد آبادی نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، اور نفسیاتی مریضوں کی بڑی تعداد کشمیر میں رہتی ہے NATIONAL INSTITUTE OF MENTAL HEALTH AND NEURO SCIENCESکی 2016کی رپورٹ کےمطابق کشمیر میں بڑی تعداد میں نفسیاتی مریض پائے جاتے ہیں۔اپریل 2018 سےمارچ 2019کے درمیان صرف سرینگرمیں 3لاکھ 66 ہزار سے زیادہ نفسیاتی مریضوں نے سرکاری اسپتال میں اپنا علاج کرایا۔ نفسیاتی امراض سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔اخبار ٹیلی گراف میں کشمیر کےعلاقہ شوپیاں کے بابا پورہ کی 42 سالہ منیرہ اور اس کے آٹھ سالہ لڑکے کے ذہنی کرب کو بیان کیا گیا۔ والد کی گرفتاری کے بعد منیرہ کا لڑکا ذیشان نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہو گیا۔ اخبار کے مطابق منیرہ کا لڑکا اکثر چیختا اور چلاتا رہتا ہے۔ اسے واہمہ ہو گیا ہے کہ اس کے والد گھر واپس آگئے ہیں۔ علاج کے بعد پتہ چلا کہ ذیشان( Post-traumatic stress disorder PTSD )میں مبتلا ہوگیا ہے۔منیرہ معاشی طور پرخستہ حالی کا شکار ہے۔ اس کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ بیٹے کے علاج میں
خرچ ہو جاتا ہے۔کشمیری عوام کی احساسِ محرومی اور ان کی اضطرابی کیفیت کو دور کرنے کے لیے خلوصِ دل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے باشندے ایک لمبے عرصہ سے مصائب میں مبتلا ہیں اور ان کے زخم کافی گہرے ہیں، انہیں مندمل ہونے کے لیے وقت لگے گا۔ ارباب اقتدار تعصب اور فرقہ وارانہ منفرت کی سیاست سے اوپر اٹھ کر کشمیریوں کی فلاح وبہبود کے لیے عملی اقدامات کریں صرف اعلانات سے کشمیریوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ کشمیریوں کے دل کی بات سننے کی ضرورت ہے۔ عوام، سول سوسائٹی، دانشوروں اور مقامی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔