جعلی خبروں، افواہوں کے طوفان میں دبی کچھ سچی کہانیاں

کووڈ19- جنگ کے سچے ’’کوروناواریئرز‘‘ کو سلام ۔۔۔ خدمت، عزم و توکل، ریلیف، طب و صفائی، تکنیک سے لے کر ایثار و قربانی کی منھ بولتی تصویریں!

شجاعت حسینی، حیدرآباد

عالمی وبا کے کٹھن ایام کے بیچ نفرت کے سوداگر چند میڈیا چینلوں کی وجہ سے من گھڑت کہانیوں کی ایک کالی گھٹا سی چھا گئی ہے جس کی تاریکی میں انسانیت دوستی کے دل نواز مناظر نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ اس زہرناک میڈیائی مہم کا مقصد یہ ہے کہ ایک مخصوص طبقے کو اس وبا کے پھیلنے کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کی بے لوث خدمات ، محبت اور انسان دوستی کی جھلکیوں پر پردہ ڈال دیا جائے تاکہ اس نفرت کے ماحول کو سیاسی مفاد کے لیے سازگار بنایا جاسکے۔ ایسے ماحول میں ضرورت ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ہر قوم اپنا اپنا حصہ ادا کر رہی ہے۔ خدمت اور محبت کی جھلکیاں جو نفرت کی اس دھند میں عوام کی نظر میں نہ آسکیں انھیں عام کیا جائے تاکہ انسانیت دوستی کی ان سچی تصویروں کے ذریعے بھائی چارے اور یکجہتی کا ماحول پیدا ہوسکے۔
1) کولار (کرناٹک) کے تجمل اور مزمل اوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کٹھن گھڑی میں افراد کی بے بسی ان سے دیکھی نہ گئی اور انھوں نے اپنی زمین 25 لاکھ روپیےمیں بیچ کر بلا امتیاز مذہب 2000 مستحقین کے اناج کا بندوبست کیا۔ان روپیوں سے دونوں بھائیوں نے 30 ٹن چاول اور کئی ٹرک کرانہ کا سامان خریدا۔ ان کا گھر سپرمارکیٹ جیسا نظر آتا ہے۔ دکن ڈائجسٹ نے اس خدمت کو "گرینڈ جینیراسٹی ” قرار دیا۔
(سید سجیل کی رپورٹ مشمولہ دکن ڈائجسٹ اپریل،روزنامہ سالار، 13 اپریل)
2) 127 سالہ قدیم دی وسٹار انسٹی ٹیوٹ وبائی بیماریوں کے ٹیکے کی کھوج میں خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ روبیلا، ریبیز کے کامیاب ٹیکوں سمیت امینولوجی اور ویکسین ڈویلپمنٹ میں دنیا میں نمایاں ترین نام ہے۔ فراز زیدی اتر پردیش کے متوطن ہیں۔ ڈی وائی پاٹل بائیو ٹیکنو جی اینڈ بائیو انفارمیٹکس انسٹی ٹیوٹ پونے سے فارغ اور فلاڈلفیا کی یونیورسٹی آف سائنس سے سیل بائیولوجی میں ماسٹرس، وسٹار انسٹی ٹیوٹ کے اہم سائنسداں اور پروجیکٹ منیجر ہیں۔ فراز زیدی اور ڈینیل پارک کورونا ویکسین ٹیم کا اہم حصہ ہیں، اور شب وروز ویکسین کی تیاری کے لیے محنت کررہے ہیں۔ رویش کمار سے ایک تفصیلی گفتگو میں فراز زیدی نے کئی سائنسی حقائق کوبیان کیا اور بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم کس کٹھن ماحول میں جلد از جلد ٹیکے کی تیاری کے لیے کس طرح جی توڑ محنت کررہے ہیں۔ (پرائم ٹائم ود رویش کمار ، 17 اپریل )
3) "درجن بھر بہار کے ہندو مزدوروں کو ہاپُڑ کے سرائیولی گاؤں کے مسلمانوں نے اپنے گھر میں رکوایا”۔ این ڈی ٹی وی کی ایک تفصیلی رپورٹ کے یہ تمہیدی الفاظ سماج کے اٹوٹ بندھنوں کے گواہ ہیں۔ یہ لوگ اپنے گھر جانا چاہتے ہیں لیکن گاؤں کے بھائیوں جیسے میزبانوں کا اصرار ہے کہ یہ کٹھن سفر مناسب نہیں اس لیے بدستور وہ ان کے گھر قیام کریں۔
( رویش رنجن شکلا کی رپورٹ نشرشدہ این ڈی ٹی وی )
4) اس قومی بحران میں دوا سازی کے محاذ پر ملک کی امیدیں یوسف حمید اور ان کی کمپنی سپلا کی انتھک جدوجہدسے وابستہ ہیں جنھوں نے سابقہ وبائی امراض اور دیگر مہلک بیماریوں کی موثراور سستی دواؤں سے ملک کی بڑی خدمت کی ہے۔ (ٹائمز آف انڈیا، 21 مارچ)
سجاتا آنندن نے لوک مت ٹائمز ( ناگپور ایڈیشن، 6 اپریل ) میں یوسف حمید اور ان کی خدمات پرایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ وہ بیماریوں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے پر کہتی ہیں کہ ہم نہ سہی ہماری اگلی نسلیں ان حرکتوں پر نادم ہوں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں کسی اورکمپنی نے دوائیوں اور علاج کو عام آدمی کی دسترس تک پہنچانےمیں اتنا ہم رول ادا نہیں کیا جتنا سپلا نے کیا ہے۔
5) جماعت اسلامی ہند مہاراشٹرلاک ڈاؤن ریلیف کا کام اپنے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے 250 شہروں میں انجام دے رہی ہے اور بے شمار خاندانوں کا سہارا بنی ہے۔ (لوک مت سماچار، 12پریل)
6) اپنے گھر کی چیزوں کو تو ہم سنوار رہے ہیں لیکن ان افراد کا کیا جن کے پاس شاید سنوارنے کے لیے بھی جگہ نہیں ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ فیور 94.3 کی آر جے ایوشی نے ایک دل چسپ ملاقات خالد سیف اللہ کے ساتھ پیش کی۔ خالد ایک تخلیقی ذہن کے حامل سافٹ وئیر انجینیر ہیں۔ انھوں نے سوشل ڈیٹا انیشی ایٹو فورم کے تحت ایک” فری راشن ایپ ” نامی ایپ ڈویلپ کی ہے جو پلے اسٹور پر دستیاب ہے۔ یہ ایپ حیدرآباد شہر کی کئی غیرسرکاری تنظیموں کو باہم مربوط کرتی ہے۔ ہر معاملے کی سچائی چیک کی جاتی ہے ۔ ایپ شہر کے 3000 کرانہ مرچنٹس کے ساتھ منسلک ہے۔معاملے کی تحقیق کے بعد کرانہ مرچنٹ کے اکاونٹ میں 600 روپیے ٹرانسفر ہوتے ہیں، اور ایک راشن کٹ اس مستحق کو قریبی شاپ سے مل جاتی ہے۔ ضروری کال اسپورٹ ، رضاکاروں کا گروپ اپنے گھروں سے فراہم کرتا ہے۔ممبئی مرر نے دل چسپ واقعات بیان کیے ہیں کہ کس طرح یہ ایپ ان افراد کے لیے نعمت بنی ہے جن کی غیرت انھیں ہاتھ پھیلانے سے مانع تھی۔ (FEVER 94.3FM آر جے ایوشی، ممبئی مرر، 16 اپریل نیز ٹائمز آف انڈیا ، حیدرآباد 16 اپریل )
7) حکومت کے سامنے اس وقت بڑا چیلنج کورونا پھیلاؤ کی اصل کیفیت، متاثر افراد کی پہچان اور حقیقی صورت حال تک رسائی کا ہے۔ اس کا واحد ذریعہ سستی، آسان اور معتبر ٹیسٹنگ ہے جو ابھی تک ایک چیلنج ہے۔ اس مسلہ کو بڑی حد تک سلجھادیا 25 سال پرانی نیولائف کمپنی اور اس کے ڈائرکٹر ندیم رحمان نے۔ ٹیسٹ کٹ کی خصوصیات بتاتے ہوئے ندیم رحمان کہتے ہیں کہ یہ ریپیڈٹیکنولوجی پر مبنی کٹ ہے، جو فوری اور غلطی سے پاک نتیجہ دیتی ہے، استعمال میں بہت آسان ہے، زیادہ افراد کی اسکریننگ کم وقت میں انجام دے سکتی ہے اور سب سے بڑی بات بہت سستی ہے (صرف 600 روپیے میں ٹیسٹ انجام دیا جاسکتا ہے۔) ممکن ہے آگے چل کر قیمت میں مزید کمی ہو۔ کمپنی کئی کٹیں عطیہ دینے کا پاکیزہ جذبہ رکھتی ہے۔پروڈکشن اور خام مال کی گنجائش کا حساب لگایا جارہا ہے، تاہم امید ہے کہ ندیم رحمان کی کمپنی روزانہ ایک لاکھ کٹیں تیار کرسکے گی۔ اگر یہ ممکن ہوا تو نہ صرف صحت کے شعبے پر بلکہ پورے ملک پر بڑا احسان ہوگا۔ دی وائر کی معروف صحافی عارفہ خانم نے ندیم رحمان سے گفتگو کی اور ایک دل چسپ انٹرویو ریکارڈ کیا ۔ یوٹیوب پر موجود یہ انٹرویو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ندیم رحمان انسانی خدمت کے نیک جذبے کے ساتھ اس منصوبے میں جٹے ہیں۔ ( دی وائر ، 16 اپریل )
8) صرف نجی تنظیمیں اور رضاکار ہی نہیں، عوامی خدمت گار بھی اپنے فرائض کے ساتھ اضافی خدمت کرتے ہوئے ملک و قوم سے محبت کا عملی اظہار کررہے ہیں۔ شو سینا کے ترجما ن رسالے سامنا نے ایک ایسی ہی ستائشی رپورٹ شائع کی ہے اور بتایا کہ کیسے آئی پی ایس افسر قیصرخالد اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کے دوران روزانہ 11000 افراد کی غذائی ضرورتوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ (دوپہر کا سامنا ، 15اپریل )
9) کورونا بحران سے نمٹنے کے لیے دئیے جانے والے عطیات میں 1125 کروڑ روپیوں کے ساتھ دوسرا سب سے اونچا نام عظیم ہاشم پریم جی کا ہے۔ ایک لاکھ پینتالیس ہزار کروڑ روپیوں کے عطیات کے ساتھ عظیم ہاشم پریم جی نے ہندوستان کے مخیر ترین فرد ہیں۔ان کے عطیات ان کی آمدنی کا 67 فیصد ہیں۔ این ڈی ٹی وی ان کی دریادلی پر خصوصی رپورٹ کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کرتا ہے کہ ” ایسے وقت میں جب پیسہ انسان سے بڑا ہوتا جارہا ہے، تب عظیم پریم جی دینا کو دکھا اور سکھار ہے ہیں کہ کیسے سب کچھ چھوڑ کر آپ کہیں زیادہ امیر ہوجاتے ہیں۔ ” (رویش کی رپورٹ نشرکردہ این ڈی ٹی وی، نیز ایان پرمانیک کی رپورٹ مشمولہ دی اکنامک ٹائمز، 2 اپریل)
10) امریکہ کے ڈاکٹرآصف چودھری اور ڈاکٹر شیریں نائلہ کا نکاح 21 مارچ کو ہوا۔ نیو یارک میں انسانیت کی تڑپ ان سے دیکھی نہ گئی۔شادی کو ابھی 12 گھنٹے ہی گزرے تھے کہ وہ خدمت کے جذبے سےسرشار اسپتال لوٹ آئے۔ اس بات پر ان ڈاکٹروں کی خوب ستائش ہورہی ہے۔
( عبدالرشیداغوان کی رپورٹ مشمولہ ہندی مارننگ کرانیکل، 13 اپریل)
ایران کی ڈاکٹر شیریں روحانی اپنی خدمات کے دوران کورونا سے متاثر ہوگئیں۔ آخری دم تک کورونا مریضوں کی خدمت کرتی رہیں۔ ان کی وہ تصویر خوب وائرل ہوئی جس میں وہ آئی وی ڈرپ لگائے، ماسک پہنے علاج میں مصروف نظر آتی ہیں۔ بالآخر 22 مارچ کووہ خود بھی اس موذی وبا کی شکار ہوکر چل بسیں۔( پاروتی راجگوپال کی رپورٹ مشمولہ انٹرنیشنل بزنس ٹائمز، 22مارچ)
11) وبا کے ڈر سے سورت میں لوگ اپنے عزیزوں کی نعشوں سے دور بھاگ رہے ہیں۔ سورت نگر نگم کے لیے یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے ۔ جب معاملات بڑھنے لگے تو نگر نگم نے عبدل مالباری نامی سماجی خدمت گار سے ربط کیا۔ سورت شہر کے عبدل مالا باری اپنے رضاکاروں کی ٹیم کے ساتھ بلالحاظ مذہب اور بلا معاوضہ لاوارث نعشوں کی آخری رسوم کی ادائیگی کی خدمات 30 سال سے انجام دے رہے ہیں۔ چونکہ یہ عام حالات نہیں ہیں، آیا وہ اب بھی یہ خدمت انجام دیں گے؟ یہ ایک واجبی سا سوال تھا۔ لیکن حیرت یہ کہ عبدل نے نہ صرف یہ کہ اب تک چار انتم سنسکار کرچکے ہیں بلکہ اس خدمت کا معاوضہ لینے سے بھی انکار کردیا ۔ جذبہ خدمت معاوضہ نہیں چاہتی، اس لیے انھوں نے حکومت کی مدد لینے سے انکار کردیا۔ سورت کے اسپتالوں میں ان کا فون نمبر آویزاں کردیا گیا ہے۔ موصوف باشعور ہیں، وہ تمام احتیاطی تدابیر جانتے اور ملحوظ رکھتے ہیں۔ نعشوں کاانتم سسنسکاروہ پورے احترام کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ اگلے چند ماہ گھر اور گھر والوں سے الگ تھلگ اپنے آفس میں رہنے کی اضافی قربانی بھی انھیں بخوشی قبول ہے۔ بولتا ہندوستان پورٹل نے بی بی سی کے حوالے سے یہ دلچسپ رپورٹ ان الفاظ کے ساتھ مکمل کی ہے۔ ” عبدل بھائی کو ہمارا سلام ۔”
(شیلی بھٹ کی تفصیلی رپورٹ مشمولہ بی بی سی ہندی ، 15 اپریل ، نیز کرشن کانت کی رپورٹ مشمولہ بولتاہندوستان پورٹل، 17 اپریل)
12) بنگلور کےمرسی مشن کی کووڈ -19رلیف خدمات بڑی متنوع اور حیرت انگیز ہیں۔ چند اعداد و شمار ملاحظہ فرمائیں۔ مرسی کٹس: ڈیڑھ کروڑ روپیوں کی 14 ہزار راشن کٹیں؛مرسی ہیلپ لائین : 15 رضاکار، 5 لائنیں، 3845 کالیں اور 22 فیصد کا اطمینان بخش حل ؛ مرسی میڈیکل : بے گھر افراد کے لیے 5 شیلٹر، 350 مریضوں کا علاج ؛ مرسی اینجلس : تربیت یافتہ ایمبولینس ٹیم ؛ مرسی کچن : کھانا تیار کرنے کے لیے 6 کچن، جہاں سے 1.03لاکھ کھانے کے پیکٹ تیار اور تقسیم ہوئے؛ مرسی اویرنیس : تین زبانوں میں، ریکارڈشدہ میگا فون پیغامات جو عوامی بیداری کے لیے مسلسل استعمال ہورہے ہیں؛ مرسی وئیر ہاؤس: راشن کٹوں کی وصولی، پیکنگ اور تقسیم کے 7 مراکز ؛ مرسی ایلڈر کیئر : دوا، غذا، کونسلنگ اور راشن کی بعجلت فراہمی کے لیے مفت ہیلپ لائین۔
درج بالا اعداد و شمار مرسی مشن کی رپورٹ مورخہ 11 اپریل سے لیے گئے ہیں۔شہر کی 20 غیرسرکاری تنظیمیں معروف ڈاکٹر طہٰ متین کی قیادت میں مرسی مشن کے مددگار ادارے ہیں۔ ( مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، ٹائمز اآف انڈیا ، یکم اپریل نیز پرگنا کرپا کی رپورٹ مشمولہ بنگلور مرر ، 8 اپریل)
13)برطانیہ میں اب تک کل 8 ڈاکٹر کورونا وائرس متاثرین کا علاج کرتے ہوئے انتقال کرگئے۔ ان آٹھ درد مند شہیدوں میں یہ پانچ مسلم ڈاکٹر شامل ہیں: ڈاکٹر حبیب زیدی، اریما نسرین، ڈاکٹر الفا سعد، ڈاکٹر امجد الحوارین، اور ڈ اکٹر عادل۔ ان کے سمیت دنیا اپنے تمام محسنین کی ممنون ہے۔ (دی مارننگ کرانیکل، 13 اپریل)
14) دہلی میں جماعت اسلامی ہند کے رضاکار فسادات رلیف کے کام کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن رلیف کی دوہری ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ابتدائی دس دنوں میں 21 ہزارمستحق افراد تک رسائی لائق تحسین ہے۔
15) امریکہ کی جان ہاپکنس یونیورسٹی کی ڈاکٹر ہبہ مصطفیٰ اور ڈاکٹر کیرن کیرول نے ایک منفرد کورونا اسکریننگ ٹیسٹ ایجاد کیا ہے جو روزانہ 1000 ٹیسٹ مکمل کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ یہ ٹیسٹ لیبارٹریوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہوگا۔ ( ٹی آرٹی ورلڈ کی رپورٹ )
16) حیدرآباد کے ڈاکٹر محبوب خان (چیسٹ ہاسپیٹل سپرنٹنڈنٹ)، ڈاکٹر سہانا خان (گاندھی اسپتال )، اور ڈاکٹر رشیکا خان (ہاؤس سرجن فیور اسپتال ) کو اس بحران کے دوران ان کی بے مثل خدمات پر تلنگانہ آئی ٹی وزیر، ٹی آر ایس ورکنگ پریسیڈنٹ کے ٹی راما راؤ نے "سٹیزنس ہیروز” قرار دیا۔ ایک ہی خاندان کے تین نامور ڈاکٹر ان سرکاری اسپتالوں میں مصروف خدمات ہیں جو ریاست کے کورونا مریضوں کے علاج کا مراکز ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محبوب کہتے ہیں :مریضوں سے پُر اس ماحول میں ہمیں کوئی خوف نہیں، بلکہ اس بات پر اطمینان ہے کہ ہم ایک اہم خدمت پر مامور ہیں۔( سیاست ڈاٹ کام، 7 اپریل )
17) ہمارےعزیز دوست ڈاکٹر عبدالخبیر شہر حیدرآبادکے معروف ای این ٹی سرجن ہیں۔ ان کی ایک حالیہ سرجیکل دریافت نے عالمی سطح پرغیرمعمولی پذیرائی حاصل کی ہے جو انھی کے نام سے موسوم ہے (Khabeer’s Flap گوگل کرکے اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے)۔ گاندھی اسپتال، ریاست تلنگانہ میں کووڈ-19 کے علاج کا مرکز ہے۔ ڈاکٹر عبدالخبیر اپنی ہمہ جہت مہارتوں کی وجہ سےکئی برسوں سے اس اسپتال کا اہم حصہ رہے ہیں، اور آج ان کی انتھک خدمات اور بالخصوص ان کی ای این ٹی مہارت اس اسپتال کے لیے انتہائی قابل قدر ہے۔
18) جماعت اسلامی ہند تلنگانہ جہاں مستحقین کے گھر پہنچ کر ان کی مدد کررہی ہے وہیں وہ سماج کے محسنوں (ڈاکٹروں) کے تئیں بھی اپنا فرض نبھا رہی ہے۔ اس جانب شاید ہی کسی نے دھیان دیا ہو، لیکن ان باشعور خدمت گاروں نے ڈاکٹروں کو پی پی ای ( پرسنل پروٹیکٹیو اکیوپمنٹ) کی 100قیمتی کٹیں دے کر سماج کی جانب سے احسان شناسی کا حق ادا کیا ہے۔ اس کام میں ڈاکٹرس ایسوسی ایشن فار رلیف اینڈ ایجوکیشن بھی شامل رہی۔
( ٹائمز اآف انڈیا، 8 اپریل)
19) کالج کے طلبا بھی جذبہ خدمت میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایک طالب علم نے تھری ڈی پرنٹیڈ فیس شیلڈ کا انوکھا تحفہ دیا۔ ایس آئی او تلنگانہ کے صدرڈاکٹر طلحہ فیاض الدین نے اس دریافت سے ریاستی آئی ٹی وزیرکے ٹی آر کو ٹوئٹر کے ذریعہ آگاہ کیا۔ موصوف نے فوراً جواب دیتے ہوئے ستائش کی، اور اپنے اسٹاف کو ان سے کوآرڈنیٹ کرنے کا حکم دیا۔ ٹویٹر پر کئی صارفین نے اس ایجاد کی ستائش کی ہے۔
20) دیوبند کی سیدہ نرگس پروین 400 افراد کے لیے روزانہ کھانا تیار کررہی ہیں۔ یہ کام وہ رضاکارانہ طور پر”کوئی بھوکا نہ سوئے ” مہم کے تحت انجام دیتی ہیں۔ ابنائے مدارس ٹرسٹ اور دیوبند اسلامی اکیڈمی ان کا تعاون کرتی ہیں۔ ( کلیرین انڈیا ڈاٹ نیٹ نیز مسلم مرر ڈاٹ کام، 8 اپریل )
21) اطلاع ملی ہے کہ ارتھی اٹھانے کے واقعات صرف روی شنکر اور پریم چند ہی کے نہیں ہیں بلکہ کئی مقامات پرارتھیوں کو اٹھانے کے ایسے ہی دردمندانہ واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ نیز لنگر، راشن، اور کھانے کی فراہمی کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے جن سے تمام مذاہب کے لوگ بغیر کسی امتیاز کے استفادہ کررہے ہیں ۔ جمیعتہ العلما ء ہند اور کئی دیگر تنظیمیں اس محاذ پر پیش پیش ہیں۔
22) کورونا کے بحران میں سب سے بڑا چیلنج و ینٹیلٹروں کی دستیابی کاہے۔ ماہرین کہتے ہیں اگروینٹیلیٹروں کی مناسب تعداد میسر آ جائے تو کئی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ اس لیے کئی ممالک کی حکومتیں مینوفیکچرنگ انڈسٹری سے درخواست کررہی ہیں کہ وہ اپنے معمول کے پروڈکشن کے بجائے وینٹیلیٹر بنائیں۔ امریکہ کے ڈاکٹر سعود انور ( پلمونری اسپیشلسٹ ) نے اس بحران سے نمٹنے کا ایک انوکھا حل ڈھونڈھا ہے۔ ان کی دریافت کے سہارے اب ایک وینٹیلیٹر 7 مریضوں کو تنفس میں مدد دے سکے گا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اس ایجاد سے پیسہ کمانے کے بجائے ڈیزائن کے تھری ڈی پرنٹ مفت ڈاؤن لوڈ کے لیے مہیا کردئیے ہیں، نیز اس کی مکمل تکنیکی تفصیلات اور ڈیمونسٹریشن ویڈیو کو فیس بک پر اپلوڈ کردیا ہے تاکہ کسی کو اسے بنانے اور استعمال کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ یہ تفاصیل 100 سے زیادہ ممالک میں ڈاؤنلوڈ کی گئی ہیں۔
اس طرح انھوں نے وینٹیلیٹروں کے حوالے سے اسپتالوں کی گنجائش اور پروڈکٹیویٹی سات سو فیصد بڑھادی ہے۔ ملک کے تمام شہری ان کے سراپا ممنون ہیں۔ ساؤتھ ونڈسر پر ان کے گھر کے باہر کاروں کی ” تشکر کے اظہار” کی پریڈ جاری ہے۔ سیکڑوں لوگ ان کے گھر کے باہر کار روک کر ہارن بجاکر اور پلے کارڈ لہرا کر ممنونیت کا اظہار کرتے ہیں۔ان ویڈیوز کو دیکھ کر جذبات کی کیفیت بدل جاتی ہے اور یہ احساس ہوتا ہے کہ صاف ذہن کے لوگ کتنے وسیع القلب ہوتے ہیں۔ (لورین وہٹنی گوٹبریتھ کی رپورٹ مشمولہ الجزیرہ انگلش ، 16 اپریل نیز سیاست ڈاٹ کام ، 14 اپریل )
23) کیرالا کی آئی آر ڈبلیو اور جماعت اسلامی نے فرنٹ لائین ڈاکٹروں کی ایک پوری ٹیم محاذ پر لگادی۔ کئی بستیوں کی مکمل سینی ٹائزیشن، پیرا میڈیکل خدمات، رلیف، عیادت و تدفین، غرض ہر ضروری کام مکمل طبی اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انجام دے رہے ہیں۔
24) کووڈ -19 کے خوف کا عالم دنیا جانتی ہے۔حکومت قرنطینہ کے انتظامات کے لیے پریشان ہے۔ اس ماحول میں کرناٹک کے شہر ہبلی میں واقع ہوٹل میٹروپولس کے ڈائریکٹر اشرف بشیر احمد نے اپنے ہوٹل کے 46 کمرے قرنطینہ کی ایمرجنسی ضرورت کے لیے سونپ دئیے۔ کاروباری خدشات کی پروا نہ کرتے ہوئے اتنا بڑا قدم اٹھانے کو شہر کی ڈپٹی کمشنر دیپا چولان نے مثالی ( ماڈل ) قرار دیا۔ واضح رہے کہ میٹروپولس ہوٹلوں نے ممبئی ہوائی اڈے سے متصل اپنے عالیشان ہوٹل کے 70 کمرے اسی مقصد کے تحت حکومت مہاراشٹر کے حوالے کردیے۔ اشرف بشیر نےنہ صرف کمروں میں رہائش کا انتظام کا ہے بلکہ تمام رہائش پذیر افراد کے لیے غذا کی فراہمی کا بھی وعدہ کیا ہے۔
(دی ہندو، ہبلی ایڈیشن، 25 مارچ)
25) لکھنو کے معروف اسپتال کے جی ایم یو کے ریزیڈنٹ ڈاکٹر توصیف علاج کرتے ہوئے خود بھی کورونا کا شکار ہوگئے تھے، انھوں نے مرض سے ایک مکمل لڑائی لڑی اور شفایاب ہوگئے۔ اب وہ دوبارہ خدمت کے لیے بے چین ہیں۔ اسپتال میں خدمت کے دوران ایک دن اچانک انھیں زکام اور شدید بخار کا احساس ہوا۔ انھوں نے خود کو الگ کرلیا۔ مکمل قرنطینہ کا اہتمام کیا طبی اصولوں کو ملحوظ رکھا اور اب صحت یاب ہوکر ڈیوٹی پر واپس جانے کے لیےبےقرار ہیں۔
(وویک سنگھ چوہان کی رپورٹ مشمولہ ٹائمز آف انڈیا ، 8 اپریل)
26) لاک ڈاؤن کے دوران آنند وہار، بلند شہر میں روی شنکر کی ارتھی اٹھانے کے لیے جب کوئی آگے نہ آیا تو بستی کے بزرگ محمود صاحب اور ان کے ساتھی لڑکوں نے یہ کام انجام دیا۔ (دی وائر، 29 مارچ)۔ ایسا ہی واقعہ باندرہ میں پیش آیا جہاں پریم چند مہاویر کی نہ صرف آخری رسوم بلکہ ڈاکیو مینٹیشن اور ضروری کارروائی یوسف صدیق شیخ اور ان کے دوستوں نے انجام دیں۔ (دکن ہرالڈ، ممبئی، 9 اپریل- پی ٹی آئی )
27) بنگلور کے گلوبل اسکول کے جناب ریاض، جناب عبدالرحیم اور دیگر اساتذہ صاحبان اپنی محدود آمدنی سے دو ہزار افراد کا لنگر لاک ڈاؤن کے دوران چلارہے ہیں۔ ( نیوز 18 کی رپورٹ )
28) ان واقعات کی تحقیق کے دوران ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب معلوم ہوا کہ جوکام حکومتیں نہ کرپائیں وہ کام کچھ مخلص افراد اور گروپ پورے ملک میں نگر نگر انجام دے رہے ہیں۔ غریب، بے سہارا افراد کی بھوک مٹانے کا کام انجام دینے والے گروپوں کی فہرست نہایت طویل ہے۔ یہ تحریر اس طویل فہرست کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہر ایک کا انداز جداگانہ اور تخلیقی ہے۔ اخلاص ایسا کہ آپ کو اشکبار کردے۔ ممبئی کی ایک مسجد کی "کوئی بھوکا نہ سوئے تحریک "، جمیعتہ العلماء ہند کا اس خدمت میں سکھ بھائیوں سے تعاون اور لنگر خدمات میں ان کی مہارت سے استفادہ، ناگپور کی وژن سوسائٹی کی 1000مائگرنٹ ورکروں کی کفالت،اتر پردیش کے روٹی بینک، نہایت چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک رضاکاروں کی رسائی، جماعت اسلامی ہند کی ملک گیر وسیع آوٹ ریچ وغیرہ۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ خدا کے یہ نیک بندےاس کام کواگر مذہب و ملت کا امتیاز کیے بغیر لے کر نہ اٹھتے تو پتہ نہیں غریب اور لاچار خاندانوں سے کتنے بھوکے جنازے اٹھ چکے ہوتے۔
29) لاک ڈاؤن کے دوران ضروری خدمات کے ساتھ ساتھ جن افراد کی پیشہ ورانہ مصروفیات میں کوئی فرق نہ آیا وہ آئی ٹی پروفیشنل ہیں۔ ان کے کام گھروں سے حسب معمول جاری ہیں۔ (بلکہ چند شعبوں میں تو کام پہلے سے بڑھا ہوا ہے )۔ روزانہ آٹھ سے دس گھنٹے مصروف رہ کر خلق خدا کی خدمت کے لیے اضافی شیڈول لائق تحسین ہے۔ تکنیکی پیشہ ور افراد کی تنظیم ” پروفیشنلس سالڈیرٹی فورم، حیدرآباد” نے اپنی تخلیقی اور تکنیکی اپروچ کے ساتھ اسے عملی جامہ پہنایا ہے۔ ان کی شان دار نیٹ ورکنگ، ٹکنالوجی کا موثر استعمال، ٹیم مینجمنٹ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں نےخدمت اور پروڈکٹوٹی کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ مقامی پولیس انتظامیہ نے ان خدمات کی ستائش کرتے ہوئے پی ایس ایف کو ” کووڈ-19 وارئیرس ” کے اعزاز سے نوازا ہے۔ (www.psf-india.org)
30) حکومتوں کے لیے ایک اور چیلنج قرنطینہ کی سہولتوں کا ہے۔ اس ماحول میں کسی نجی گروپ کا اپنی عمارتیں پیش کرنا ملک و قوم کی سچی خدمت ہی ہوسکتی ہے۔ سیکر راجستھان کے عبدالواحد چوہان نے ایکسیلنس نالج سٹی کے وسیع و عریض اور خوب صورت کیمپس کو قرنطینہ مرکز کے لیے پیش کردیا۔ یہی نہیں بیدر کے شاہین گروپ اور دارلعلوم دیوبند نےبھی اپنی عمارتوں کو اس کاز کے لیے مختص کردیا۔ مہتمم دارالعلوم نے وزیر اعلی کو خط لکھ کر پیش کش کی ۔ شاہین گروپ کے سی او توصیف مدی کیری نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 139 لوگ ماسک، کھانااور تمام ضروری سہولیات کے ساتھ یہاں رہائش پذیر ہیں ۔ ( دی ویک ، 16 اپریل کی رپورٹ۔ شاہین گروپ نیز آوٹ لک انڈیا ، 30 مارچ کی رپورٹ ، دارالعلوم دیوبند)
31) اس بحران میں مستحق ترین افراد کی نشان دہی سب سے اہم اور مشکل کام ہے۔ خوددار مفلس افراد تک رسائی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اس کام کو آسان کردیاحیدرآباد کے اشہر فرحان( چیف ڈویلپر ) ا وران کے ساتھی سریدھر نے۔ ان کی ویب سائٹ مستحقین اور عطیہ دہندگان کو خاموشی سے جوڑنے کا کام کررہی ہے اور یہ سروس بالکل مفت ہے۔
( تلنگانہ ٹوڈے، 14 اپریل )
32) ناگپور کے آصف شیخ نے کم خرچ سینیٹائزنگ مشین تیار کی ہےاورانتظامیہ اور محکمہ صحت کو شان دار راحت فراہم کی۔ (ریاض شیخ کی رپورٹ نشر کردہ ٹی این این نیوز چینل، ناگپور ) ایسا ہی ایک انوکھا کام مندسور کے نہارو خان نے کیا اور اسپتال کو قیمتی تحفہ دیا۔ جس پر تفصیلی ستائشی رپورٹ ایک قومی چینل نے نشر کی اور اسے حیرت انگیز ایجاد قرار دیا۔ (اے بی پی نیوز)
33) ارتھی کو سہارا دینا ایک غیر معمولی جذبہ سہی، لیکن ایسے واقعا ت و جذبات ملک کی کئی ریاستیں مسلسل دیکھ رہی ہیں۔ بلند شہر ہی نہیں، ممبئی، اندور، بھوپال سے بھی ایسے کئی واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔
(کچھ تفصیلات ملاحظہ فرمائیے، لوک مت مراٹھی اورنگ آباد ، 17 اپریل )
34) ممبئی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ دین دار خاتون نکہت محمدی ایک لاکھ مستحق افراد کو لاک ڈاؤن کے دوران بلاتفریق مذہب و ملت کھانا کھلارہی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ کوئی شخص اس مشکل گھڑی میں بھوکا نہ سوئے اور یہ بھی چاہتی ہیں کہ یہ رسائی بڑھ کر پانچ لاکھ تک ہوجائے۔ شہر کی دس غیر سرکاری تنظیمیں ان کا تعاون کرتی ہیں۔ سب کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے یہاں صرف ویجیٹیرین کھانا تیار ہوتا ہے۔
(ای ٹی وی بھارت کی رپورٹ)
35) ممبئی کے سلیم کوڈیا مذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر گیارہ ہزار افراد کی بے لوث کفالت کررہے ہیں۔ معیشت میگزین نے اسلام جمخانہ کے سابقہ کرکٹر سلیم کوڈیا کو "لاک ڈاؤن مسیحا ” قرار دیا ہے۔
(معیشت ڈاٹ ان، 9 اپریل، نیز محمد وجیہ الدین کی رپورٹ مشمولہ ٹائمز آف انڈیا، 25 مارچ)
36) حیدرآباد میں جماعت اسلامی ہند اور اس کی ملحقہ تنظیموں نے لاک ڈاؤن کے دوران تمام طبی و انتظامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے تفصیلی سروے کے ذریعے مستحق ترین افراد کی گھر گھر جاکر نشان دہی کی اور انھیں ایک ماہ کا راشن پہنچانے کا باوقار نظم کیا۔ اس مشن کے روح رواں جناب منیرالدین اور ان کی ٹیم کی محنتیں بے مثال ہیں جو اب تک ڈیڑھ کروڑ روپیے سے زائد تعاون کا ذریعہ بنے۔ ملک گیر سطح پر سیکڑوں شہروں میں ان سرگرمیوں کو جماعت کے رضاکاروں نے انجام دیا۔
واضح رہے یہاں بس جھلکیاں پیش کرنا مقصود ہے۔ ہر اسٹوری کی تفاصیل پیش کردہ حوالوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ تمام خبریں مصدقہ ذرائع سےہوں اور ان کا خلاصہ شامل کیا جائے۔ ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ان دل پذیر تصویروں تک پہنچنے میں تعاون کیا۔ ان تصویروں میں سماج کے ہر طبقے اور ہر مذہب کے دردمند لوگ مسلسل رنگ بھر رہے ہیں۔ ان تمام خیر پسند افراد کی انسانیت دوستی کے ہم قدر دان اور ممنون ہیں۔ یہ وہ تصویروں ہیں جو میڈیا کی نفرت انگیزمہم کے بیچ محبت اور خدمت کی خوشبو سے پورے سماج کو مہکارہی ہیں ۔ امید ہےکہ آئندہ دنوں میں میں ایسی اور بھی ہزاروں خوب صورت تصویریں ہر جانب اپنے جلووں سے ماحول کو روشن اور معطر کریں گی۔
*****

اس ماحول میں کسی پرائیویٹ گروپ کا اپنی عمارتیں پیش کرنا ملک وقوم کی سچی خدمت ہی ہوسکتی ہے۔ سیکر راجستھان کے عبدالواحد چوہان صاحب نے ایکسیلنز نالج سٹی کے وسیع و خوبصورت کیمپس کو کوارنٹئین سینٹر کے لیے پیش کیا۔ یہی نہیں بیدر کے شاہین گروپ اور دارالعلوم دیوبند نے بھی اپنی عمارتوں کو اس کاز کے لیے پیش کیا۔ مہتمم دارالعلوم نے چیف منسٹر کو خط لکھ کر پیشکش کی۔ شاہین گروپ سی او توصیف میڈکری نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 139 لوگ ماسک، فوڈ اور تمام ضروری سہولتوں کے ساتھ یہاں رہائش پذیر ہیں۔