جرمن بیکری بم دھماکہ کیس۔ حمایت بیگ انصاف سے محروم

شعیب قمر الدین ہاشمی ، ممبئی

13 فروری 2010کو پونے کی جرمن بیکری میں ہونے والے بم دھماکہ کو ۱۰؍ سال مکمل ہوچکے ہیں۔ اس معاملہ میں مہاراشٹر اے ٹی ایس نے بیڑ کے حمایت بیگ کو ستمبر ۲۰۱۰ء میں اودگیر سے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا تھا جہاں اس معاملہ میں عجیب و غریب موڑ آئے۔ اے ٹی ایس کی چارج شیٹ میں کہا گیا تھا کہ بیگ اودگیر کے گلوبل نیٹ کیفے میں بم تیار کر کے پونے لے گیا جہاں یاسین بھٹکل کی نگرانی میں جرمن بیکری میں دھماکہ کیا گیا۔ اے ٹی ایس کی اس کارروائی کے بعد یہ مقدمہ پونے کی این پی دھوٹے عدالت میں چلا جہاں عدالت نے بیگ کو بم دھماکہ معاملے میں قصوروار قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کے بعد قومی تفتیشی ادارہ (این آئی اے) کے ذریعے اس معاملے کی جانچ کا مطالبہ کیا گیا۔ بالآخر این آئی اے کے ذریعے اس کیس کی جانچ ہوئی اور این آئی اے نے ۲۰۱۴ء میں انڈین مجاہدین کے سربراہ احمد ضرار سدی اپا عرف یاسین بھٹکل اور دیگر تین کے خلاف عدالت میں داخل کردہ اپنی چارج شیٹ میں جرمن بیکری بم دھماکہ میں نچلی عدالت سے مجرم گردانے گئے مرزا حمایت بیگ کو بم دھماکوں کی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے متعلق کلین چٹ دے دی۔ این آئی اے نے یٰسین بھٹکل کے اعترافی بیان کی شکل میں ثبوت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیگ بے قصور ہے اور یہ ثبوت اعلیٰ عدالت میں اس کے بری ہونے میں مدد کر سکتے ہیں اور سی آر پی سی کی دفعہ ۱۶۴ ؍کے تحت درج کردہ بیانات عدالت میں ثبوت کے لیے قابل قبول ہوں گے۔
حمایت بیگ کی پھانسی کی سزا کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل جمعیتہ علماء مہاراشٹر کی جانب سے سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ نے داخل کی تھی جبکہ ان کی خصوصی معاونت ان کے جونیئر ایڈووکیٹ پٹھان تہور خان، ایڈووکیٹ منوج بوئن وار، ایڈووکیٹ عشرت وغیرہ نے کی۔ این آئی اے کے اس فیصلے کے بعد ایڈووکیٹ پراچہ نے کہا تھا کہ این آئی اے کی یہ چارج شیٹ حمایت بیگ کے کیس کے لیے ایک خوش آئند رپورٹ ہے اور ہمیں امید ہے کہ بہت جلد بہتر فیصلہ ہوگا۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر مولانا محمد ندیم صدیقی نے امید ظاہر کی تھی کہ اب بامبے ہائی کورٹ میں جمعیۃ علماء کی جانب سے مرزا حمایت بیگ کی پھانسی کی سزا کے خلاف دائر عرضداشت پر انصاف پر مبنی فیصلہ آئے گا۔
جھوٹی گواہی کے لیے
اے ٹی ایس کی ظالمانہ کارروائیاں
اے ٹی ایس عدالت کے سامنے ملزم حمایت بیگ کے خلاف پختہ ثبوت پیش کرنے میں مسلسل ناکام ہوتی جارہی تھی جس کی وجہ سے عدالت اس فیصلے پر پہنچ رہی تھی کہ جرمن بیکری بلاسٹ کے وقت حمایت بیگ پونہ میں موجود نہیں تھا۔ اس معاملے کو دیکھتے ہوئے اے ٹی ایس نے اودگیر کے گلوبل نیٹ کیفے کو بم بنانے کا مرکز قرار دیا لیکن وہاں سے انہیں کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوسکا۔ وہاں سے ملی ناکامی کے بعد اے ٹی ایس نے حمایت بیگ کے دوستوں سے پوچھ تاچھ شروع کردی اور انہیں عدالت میں حمایت بیگ کے خلاف گواہی دینے کے لیے مجبور کیا۔ لیکن جب ان افراد نے جھوٹی گواہی دینے سے انکار کیا تو اے ٹی ایس کے افسران نے ان پر ظلم و زیادتی کی اور انہیں بھی فرضی کیسوں میں پھنسانے کی دھمکی دی۔ اے ٹی ایس کی اس ظلم و زیادتی کو دیکھتے ہوئے مسلم نوجوان اپنے ہی دوست کے خلاف گواہی دینے اور سرکاری گواہ بننے پر مجبور ہوگئے۔ اودگیر کے رہنے والے حمایت بیگ کے ایک دوست نے بتایا کہ اے ٹی ایس نے تفتیش کے دوران جھوٹا پنچ نامہ بنوا کر اس پر زبردستی دستخط کروائے۔ جھوٹی گواہی دینے کے لیے مجبور کیا گیا اور مجھ سے کہا گیا کہ اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو میری اور میرے گھر والوں کی زندگی تباہ کردیں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہی ہمیں سکھایا کہ عدالت کے سامنے ہمیں کس طرح کا بیان دینا ہے اور یہ بھی کہا کہ اگر تو نے ایسا نہیں کہا تو ہم یہ سارا کیس تجھ پر ڈال دیں گے اور بتائیں گے کہ تیرے ہی پاس سے آر ڈی ایکس ملا تھا۔ پیشی سے دو روز قبل انہیں پونا بلایا جاتا تھا اور جھوٹی گوہی دینے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ اور ٹریننگ کے بعد اے ٹی ایس افسر سنجئے لاڑکر کے پاس لے جایا جاتا تھا جہاں وہ ہم سے کورٹ کی طرح سوال کرتے تھے اور ہمیں جواب دینا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ حمایت بیگ کے ایک اور دوست کو جھوٹی گواہی دینے کے لیے اے ٹی ایس نے بری طرح ٹارچر کیا اور انہیں الکٹرک شاک تک دیے گئے۔ اے ٹی ایس نے حمایت بیگ کو جرمن بیکری بم بلاسٹ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا اور اسے ثابت کرنے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے اپنائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
اودگیر کے گلوبل نیٹ کیفے کے خلاف بھی سازش
حمایت بیگ کو اودگیر سے گرفتار کرنے کے بعد اے ٹی ایس نے اودگیر کے گلوب نیٹ کیفے کو اپنا نشانہ بنایا جہاں حمایت بیگ کی بیٹھک تھی۔ یہ نیٹ کیفے سید عادل استاد اور ان کے دوست کا تھا۔ اے ٹی ایس نے تفتیشی کارروائی کے دوران نگر پریشد کامپلیکس اودگیر میں موجودگلوبل نیٹ کیفے کو سیل کردیا اور کمپیوٹر میں موجود ہارڈڈسک کو جانچ کیلئے اپنی تحویل میں لے لیا۔ کافی دنوں تک اس کی جانچ پڑتال ہوتی رہی لیکن ان ہارڈڈسک سے اے ٹی ایس کو بم بنانے اور اس سے متعلق کوئی معلومات مل نہیں سکیں جس کی وجہ سے گلوبل نیٹ کیفے کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی گئی۔
اودگیر کے میڈیا کی گھناؤنی حرکت
اے ٹی ایس کی جانب سے گلوبل نیٹ کیفے کو بم سازی کا اڈہ قرار دینے کی کوشش کے بعد اودگیر کے مراٹھی اخباروں میں شہر کو بم سازی کا اڈہ قرار دیا گیا۔ یہاں کے صحافیوں نے بغیر کسی تحقیق کے اے ٹی ایس کا ساتھ دیتے ہوئے مسلمانوں کے خاف زہر افشانی شروع کردی جس کی وجہ سے پولیس مدارس اور مساجد کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی اور شہر میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ بہر حا ل سماجی اور ملی تنظیموں کی جانب سے اس غلط فہمی کو دور کیا گیا۔
اشیش کھیتان کے اسٹنگ آپریشن نے اے ٹی ایس
کے کالے کرتوتوں کو اجاگر کیا
صحافتی برادری سے تعلق رکھنے والے اشیش کھیتان نے اسٹنگ آپریشن کے ذریعے اے ٹی ایس کے ان تمام کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کردیا انہوں نے اپنی ڈاکیومنٹری میں ایسے افراد کے انٹرویو لیے جن کے ساتھ اے ٹی ایس نے ظلم و زیادتی کرتے ہوئے انہیں جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا تھا۔ اشیش کھیتان کے سامنے حمایت بیگ کے دوستوں نے
اے ٹی ایس کی جانب سے ہونے والے مظالم کو بے باک انداز میں پیش کیا۔ اشیش کھیتان کے اسٹنگ آپریشن کے بعد حمایت بیگ کے دوستوں کو ہائی کورٹ میں سچی گواہی دینے کا حوصلہ ملا۔ اشیش کھیتان نے اسٹنگ آپریشن اور دیگر ثبوتوں کو اکھٹا کرنے کے بعد حمایت بیگ معاملہ کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی۔ اسٹنگ آپریشن اور گواہوں کے بیانات کے بعد ہائی کورٹ نے حمایت بیگ کی پھانسی کی سزا کو ختم کر دیا۔
سپریم کورٹ کی تاریخ کا انتظار
ایڈووکیٹ تہور پٹھان کے مطابق پونے کی سیشن عدالت نے اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کو جوں کا توں قبول کرلیا تھا اور اے ٹی ایس کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اپنا فیصلہ دیا تھا۔ لیکن جب یہ معاملہ ہائی کورٹ میں پہنچا تو عدالت کے سامنے خود اے ٹی ایس کی پیش کردہ چارج شیٹ سے ہی اس کا جھوٹ اجاگر ہوگیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہائی کورٹ نے ملزم کو سیشن کورٹ کی جانب سے دی گئی ۱۶؍معاملات میں سے ۵ پھانسی، ۵ عمر قید اور ۶ میں دو سے دس سال قید کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صرف دو معاملات میں اسے خاطی قرار دیتے ہوئے عمر قید اور سات سال قید کی سزا سنائی۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں معاملات کا کوئی تعلق جرمن بیکری بم دھماکہ سے نہیں ہے۔ حمایت بیگ فی الحال ناسک جیل کے انڈا سیل میں ہے اور اس کے کیس کی کارروائی سپریم کورٹ میں جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ناسک کی سیشن کورٹ میں حمایت بیگ کے خلاف ایک اور کیس درج ہے جب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا تب تک سپریم کورٹ میں تاخیر ہوتی رہے گی۔
اہل خانہ پریشان حال
اس بارے میں حمایت بیگ کے بڑے بھائی طارق بیگ سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ہم تین بھائیوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ حمایت ہی ہے۔ گھر کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں، ہم دونوں بھائی محنت مزدوری کرتے ہیں والدین ضعیف ہیں اور بیمار رہتے ہیں گھر کا خرچ بڑی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں حمایت پر لگائے گئے الزامات سے والدین پوری طرح ٹوٹ چکے ہیں۔ والدین کو امید تھی کہ وہ ٹیچر بن کر گھر کے اخراجات پورے کرے گا لیکن اس کی گرفتاری کے بعد سے ہم معاشی تنگی کی شکار ہوچکے ہیں۔ ہائی کورٹ نے اسے جرمن بیکری بم بلاسٹ معاملہ سے بری کردیا ہے اس کے باوجود بھی اسے ناسک کی انڈا سیل میں کیوں رکھا گیا ہے یہ ہماری سمجھ کے باہر ہے۔
سماجی کارکنان کا مطالبہ
پونے کے معروف سماجی کارکن انجم انعامدار جو حمایت بیگ کو انصاف دلانے کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں نے کہا کہ اصل مجرمین ابھی بھی فرار ہیں۔ پہلے حمایت بیگ کو ماسٹر مائنڈ قرر دیا گیا اس کے بعد محسن چودھری کو اور پھر یاسین بھٹکل کو اس معاملے کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا لیکن اصل مجرمین ابھی بھی فرار ہیں۔ اس معاملہ میں سارنگ کلکرنی نامی ملزم کا نام بھی سامنے آیا تھا لیکن پولیس نے اس کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بے گناہوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور اصل مجرمین کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔
بہر حال جرمن بیکری بم دھماکہ کو ہوئے ۱۰؍ سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے وکیل محمود پراچہ جو حمایت بیگ کا کیس لڑرہے تھے انہوں نے جمعیۃ علماء سے اختلافات کی وجہ سے اس کیس سے دوری اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے جمعیۃ علماء پر سنگین الزامات بھی عائد کئے ہیں جبکہ جمعیۃ علما ء ان کے ان تمام الزامات کو خارج کرتی ہے۔سماجی کارکنا ن کا کہنا ہے کہ ان اختلافات کی وجہ سے کہیں حمایت بیگ کو انصاف ملنے میں مزید تاخیر نہ ہوجائے۔