تکثیری سماج میں مکالمہ و مذکراہ کی اہمیت دوگنی

مختلف مذاہب کے درمیان باہمی تعارف ،ماحول کو پر امن بناتا ہے

مجتبیٰ فاروق،حیدر آباد

تکثیریت (Pluralism) سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اقلیتوں کو اپنی تہذیبی روایات کو تحفظ و بقا کی ضمانت حاصل ہو اور کوئی فرقہ یا گروہ ان کی تہذیبی روایات میں مداخلت نہ کرے ۔تکثیریت دور جدید کا نیا مظاہرہ ہے اگر چہ اس کی بنیادیں قدیم زمانہ سے جا ملتی ہیں ۔ لیکن جدید دور میں اقلیتی گروہوں کا اکثریتی گروہوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی اہمیت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے ۔ہندوستان تہذیبوں کا گہوارہ کہلاتا ہے او ر یہاں بڑے پیمانے پر تہذیبی تنوع پایا جاتا ہے ۔تہذیبی اور مذہبی تکثیریت ہونے کے باوجود ہندوستان ایک سیکو لر ملک ہے ۔1976میں ملک کی پارلیمنٹ نے بیالیس ویں ترمیم میں دستور کےPreamble میں’ سیکولر‘ کا لٖفظ اضافہ کیا گیا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کسی خاص مذہبی شناخت کا آئینہ دار نہیں ہوگا ۔ ہندوستان کا ہر کونہ اور علاقہ اس خوبصورت روایت کا گواہ ہے ۔اس ملک میں تکثیری رنگ غالب ہے اور لوگوں نے ہر دور میں اس کا لحاظ اور احترام کیا ہے ۔ تنوع (Diversity) انسان کی فطرت میں شامل ہے اور یہ اللہ کی حکمت کے تحت ہے جیسا کہ اس قرآنی اصول سے واضح ہوتا ہے :’’ اللہ کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق اورتمہاری بولیوں اور اور رنگوں کا اختلاف ہے ۔‘‘(الروم:۲۳) قرآن مجید تمام انسانوںکی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے یہ نسلوں ،گروہوں اور زبانوں میں اختلاف ہونے کے باوجود دنیائے انسانیت کے لیے ایک ابدی پیغام ہے ۔اسلام بلا مذہب و ملت اور رنگ و نسل ہر انسان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ اسلام اور اس کی تاریخ نے تکثیری سماج کے لیے ایک بہترین نمونہ پیش کیا ہے جس میں نہ کسی کاحق مارا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے نہ کسی کے تہذیبی روایات کو ختم کیا جاتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام نے ہر وقت دوسروں کی تہذیبی روایات کا احترام کیا ہے اور سماج میںتہذیبی تنوع کو باقی رکھا ہے۔اسلام کی یہ تعلیمات ہندوستانی سماج میں کام کرنے کے لیے رہنما اصول بننے چاہئیں۔
دور حاضر میں اقلیتوں کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں اقلیتوں کے مسائل میں مسلمان سرفہرست ہیں ۔ اس وقت دنیا کے ۹۰ غیر مسلم ممالک میں اقلیت کی صورت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد ۳۵۰ ملین بتائی گئی ہے ۔ جو دنیا کے تمام مسلمانوں کا ایک چوتھائی حصہ ہیں ۔ان میں سے اکثریت ایشاء میں آباد ہے ۔ چناچہ صرف ہندوستان میں ۱۲۰ ملین مسلمان آباد ہیں جو تمام مسلم اقلیات کا ایک تہائی ہیں۔ عصر حاضر میںجس تہذیبی تصادم کا آغاز ہوا ہے اس کے نتیجے میں ہر تہذیب دوسری پر غلبہ کے لیے سرگرم عمل ہے ۔ اس تہذیبی تصادم میں مسلم تہذیب اپنی بقاء کی جنگ لڑرہی ہے ۔
حریت فکر و عقیدہ :مذہب اختیارکرنے کے معاملہ میں اسلام کبھی بھی جبر و اکراہ سے کام نہیں لیتا ۔ معاشرے میں کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اسلام نے دوسروں کو اپنا موقف پیش کرنے کا حق دیا ہے اور ان پر اپنا نقطہ نظر قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا۔ دین اختیار کرنے میں زبردستی ممنوع ہے۔ سب کے لیے اپنا اپنا دین ہے مثاق مدینہ کی ایک مثال ہے کہ جب مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میںآیاتو سب سے پہلے تمام مذاہب کو عقیدہ کی حریت کا حق دیا گیا۔کسی فرد کو زبر دستی دین اسلام قبول کروانے میںقرآن و سنت نے سخت تردید کی ہے
اسلام نے تمام تفریقات کو مٹا دیا : دور جدید میں انسانی حقوق کی پامالی وسیع پیمانے پر ہورہی ہے سماجی مساوات کی قدریں ختم ہوتی جارہی ہیں ، دوسروں کو کمتر اور خود کو برتر ثابت کرنا اب ایک عام سی روش بن چکی ہے ، نسلی برتری کو ہر جگہ فروغ دیا جارہا ہے ۔ آج دنیا میں جہاں بھی مذہبی طور سے اقلیت میں رہتے ہیںوہ وہاں امتیازی سلوک کے نشانہ بنے ہوئے ہیں ۔ دنیامیں جو جتنا طاقت ور ہے وہ اتنا ہی دوسروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ سامراجی اور سرمایہ داروں نے تیسری دنیا کے ممالک اور غریب عوام کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کیا ہے اسلام نے جو مساوات اور برابری کا جو تصور پیش کیا ہے وہ کسی حالات کی پیداوار نہیںہے بلکہ یہ ایک عالمگیر پیغام ہے جو رنگ و نسل ، زبان و علاقائیت اور قومیت و وطنیت تمام جھوٹے امتیازات کو مٹاکر پوری انسانی برادری ایک خاندان قرار د یتا ہے ۔اسلام کے پیش کردہ عالمگیر تصور انسانیت میں صرف ایک بات کو اہمیت دی جاسکتی ہے اور وہ ہے فکری تفاوت ۔ یعنی انسانوں کے درمیان اگر کوئی فرق ہوسکتاہے تو وہ رنگ و نسل ، زبان و علاقائیت اور قومیت و وطنیت کا نہیں بلکہ عقائد یا ایمانیات کا ہوسکتا ہے ۔اسلام نے ذات پات ، رنگ و نسل ،علاقہ اور سماجی و تہذیبی رتبہ کی تمام تفریقات کو بے وزن قرار دیا ہے ۔ کیوں کہ یہی تفریقات انسانوں کو بانٹتی ہے جو اسلام کی تعلیمات سے بالکل برعکس ہے ۔ اسلام نے ان تمام تفریقات کو مٹاکر ایک مساویانہ، انسانیت نوازی اور وحدت پر مبنی سماج کو تشکیل دینے پر زور دیا ہے
تعارف کی اہمیت : مذاہب اور تہذ یبوں کے درمیان آپس میں تعارف ہو تاکہ ایک دوسرے کے نز دیک آنے اور معاملات طے کر نے میں آسانی ہو۔تعارف سے ہی نزاع،ٹکرائو،تصادم اور جنگ کے مختلف اسباب کو اچھی طر ح سے ختم کیا جاسکتا ہے ۔قرآن مجید میں ہے کہ’’ لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیںتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔‘‘
اس آیت میں عالم انسانیت کے لیے عالمگیر وحدت اور مساوات کا پیغام ہے۔مذاہب اور تہذ یبوں کے درمیان آپسی تعارف کے سلسلے میں یہ آیت مبار کہ کافی اہمیت کی حامل ہے۔
یکساں و احترام و اکرام کا تصور : احترام و اکرام ہر انسان کا ایک جائز حق ہے ، رنگ و نسل ، علاقہ و وطن ،ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر انسان کو اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔احترام و اکرام کے تعلق سے اسلام نے ہر فرد پر یہ لازم ٹھرایا کہ وہ ہر انسان کا عزت وتکریم کرے اور اس میں کسی طرح سے بھی بخل سے کام نہ لیا جائے ۔ اسلام نے رنگ ونسل اور علاقہ کی بنیاد پر کسی کو اعلیٰ اور کسی کو ادنیٰ قرار نہیں دیا ہے بلکہ یہ انسانوں کی کارستانی ہے۔ اللہ تعالی ٰنے ہر انسان کو عزت و تکریم سے نوازا ہے :
وحدت بنی آدم: اسلام نے سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی تعلقات کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم نہیں کیا بلکہ ان کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ دوام بھی بخشا ہے لیکن ایک فطری اور اصولی بات کو واضح کیا ہے کہ ایک تو یہ کہ تمام انسان اللہ کے بندے ہیں اور اللہ تمام انسانوں کا خالق ہے دوسری یہ کہ انسانی ہدایت کے لیے خالق کائنات نے ایک برگزیدہ انسان کا نتخاب کیا ہے۔ تیسری حقیقت یہ ہے کہ انسان کو ایک اپنے اعمال کا ایک نہ ایک دن جواب دینا ہوگا اس دن کو ہم آخرت کے نام سے جانتے ہیں۔ ان ہی عقائد کی بنیاد پر عالم انسانیت کو ایک ہی وحدت میں پرویا جاسکتا ہے ۔یہ تینوں عقائد مطلق سچائی (Absulute Truth) ہیں اوراسلام کے یہ بنیادی عقائد ہیں اور ان عقائد کی بنیاد پر انسانوں کو ایک ہی ابدی حقیقت ، مقصد اور کامیابی کی طرف لایا جاسکتا ہے ۔ عقیدہ توحید ، رسالت اور آخرت ابدی حقائق ہیں۔انسانوں کو انسانوں سے روشناس کرانا ایک بڑا کام ہے اور ان سے دنیا کو محروم رکھنا نہ صرف لاپروائی اور کوتائی ہوگی بلکہ حقیقت شناسی سے انکار کرنے کے مترادف ہے ۔
مکی زندگی ایک عملی نمونہ : اللہ کے رسول ﷺ کی مکی زندگی بھی ہمارے لیے اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتی ہے۔مکہ میں مسلمان ابتداء میں اقلیت کی حیثیت سے رہتے تھے اور بہت سی آزمائشوں کا سامنا کر رہے تھے ۔ خوف و ہراس میں عملی زندگی گزارنا کارِ درد والا معاملہ تھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے عملی نمونہ پیش کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ صحابہ نے اہل مکہ کے سامنے اعلی ٰ اخلاقی نمونہ پیش کیا ۔اخلاقی لحاظ سے آج ہمارا برا حال ہے اور ہماری اخلاقی سظح بہت نیچے گر گئی جب کہ اسی اخلاقی برتری سے مسلمانوں نے دشمنوں کے دل و دماغ فتح کیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تکثیری سماج میں اپنی اخلاقی سطح کو عام لوگوں سے اونچا رکھیں ۔
میثاق مدینہ : اللہ کے رسول ﷺ نےیہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے ساتھ موسوم ہے ۔ یہ معاہدہ ۵۳ دفعات پر مشتمل تھا اس وقت مدینہ کی حیثیت تکثیری معاشرہ جیسی تھی۔ تکثیری معاشرہ کے لیے مثاق مدینہ ایک ایک بہترین مثال ہے کیوں کہ وہاں کی رعایا مختلف مذاہب کے پیروکار تھی،ان میں سے مہاجرین و انصار بھی تھے ،اہل کتاب ، یہود و عیسائی بھی تھے اور مشرکین بھی ۔مدینہ امن وامان کا گہوارا بن گیا ۔
دوسرے ادیان و تہذیبوں کے ساتھ اشتراک و تعاون
آج مسلمانوں کو اتحاد کی بے حد ضرورت ہے ۔تکثیری سماج میں آباد مسلمانوں کو متحد ہونا پڑے گا اور اگر وہ متحد نہ ہوئے تو ان کا مقدر زبو حالی ہی ہے ۔ ہندوستان ایک تکثیری سماج والا ملک ہے اور مسلمان یہاں ایک بہت بڑی اقلیت میں ہے ۔ اس لحاظ سے سیاست میں بھر پور حصہ لینا ہوگا ۔مضبوط سیاسی جماعتیں ، ادارے اور presure groups بنا کر سیاست میں سرگرم عمل ہوکر حکومتی تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔
ظلم و جبر کے خلاف متحد ہونا :ظلم و ناانصافی ودنیا کا کوئی بھی مذہب پسند نہیں کرتا ہے ۔ اسلام نے اس تعلق سے اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے اور ہر مسلمان کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا کہ وہ ظلم و ناانصافی کے ختم کرنے کے لیے اولین فرصت میں قدم اٹھائیں ۔اس کے لیے اگر غیر مسلموں سے اتحاد اور ان کا تعاون بھی حاصل کرنا پڑے تو ضرور حاصل کرنا چاہیے ۔ اس کی ایک بہترین مثال حلف الفضول کی ہے۔
ادیان کا مطالعہ اور ان کے ساتھ مکالمہ: اسلام میں دوسرے مذ اہب اور تہذ یبوں سے مکالمہ کر نے پر ابھارا گیا تاکہ اقدار پر مبنی ایک پرامن اور صحت مند سماج وجود میں آ ئے ۔ اسلام کا مزاج عملاً دعوتی اور اسلامی ہے اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتی کہ اسلام کے سخت تر ین دشمن سے بھی مکالمہ کے ذریعے تعلق پیدا کر نا فرائض دعوت میں شامل ہے۔ مشترکہ باتوں کو موضوع گفتگو بنایا جائے ۔قرآن کر یم کی سورہ العمران ایت64 میں  اہل کتاب کے ساتھ مشتر کہ باتوںکو مو ضوع گفتگو بنا نے کے لئے کہا گیاہے۔اس آیت میں اس بات کی بھی ضاحت کی گئی ہے کہ ایسی باتوں اور قدروں کو تلاش کرنا جو مشترک حیثیت کی حامل ہوں ۔اسلام ایسی قدروں کو پیش کرتا ہے جو مکالمہ بین المذاہب میں کافی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔موجود ہ دور میں اہل وطن سے مذ اکرات اور مکالمہ کی جتنی پہلے ضرورت تھی آج اس سے کئی گنا زیادہ ضرورت ہے۔اس سلسلے میں مسلمانوں کو خود سے پیش قدمی کر نی چائیے۔
***

 

***

 اسلام میں دوسرے مذ اہب اور تہذ یبوں سے مکالمہ کر نے پر ابھارا گیا تاکہ اقدار پر مبنی ایک پرامن اور صحت مند سماج وجود میں آ ئے ۔ اسلام کا مزاج عملاً دعوتی اور اسلامی ہے اس لیے مکالمہ اس کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ حتی کہ اسلام کے سخت تر ین دشمن سے بھی مکالمہ کے ذریعے تعلق پیدا کر نا فرائض دعوت میں شامل ہے۔ مشترکہ باتوں کو موضوع گفتگو بنایا جائے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022