تقسیم ہند کے لیے ہندوؤں نے انگریزوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کیا
دہری قومیت کا نظریہ فروغ دینے ہندو مسلمان دونوں شریک
ڈاکٹر مکیش کمار (سینئر صحافی)
ہندوؤں کو عسکریت پسند بنانے میں ساورکر کا نمایاں رول
تقسیم ہند کے بعد سے ہی اس تقسیم کے ذمہ دار افراد اور تنظیموں کی فہرست بنانے کا عمل جاری ہے۔ نہرو اور کانگریس مخالفت پالیسی کی سیاست کرنے والوں نے اس پر سب سے زیادہ منظم کام کیا ۔یہی وجہ ہے کہ تقسیم کے ذمہ داروں میں یہ دونوں نام سب سے زیادہ لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد محمد علی جناح اور برطانوی حکومت کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس ہولناک واقعہ میں ان سب کا کردار بھی ہوسکتا ہے، لیکن ان کے غیاب میں سب سے بڑے مجرم بچ نکلتے ہیں جس میں سے ایک ونائیک دامودر ساورکر تھا ۔ساورکر قیادت میں ہندو مہاسبھا نے ایسے حالات سازگار کرنے کا کام کیا تھا جس سے ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ مذاکرات کی میز تک پہنچنے سے قبل ہی طے ہوگیا تھا۔
دو قومی نظریہ
دو قومی نظریہ اکثر یا تو بدنیتی سے یا لاعلمی سے جناح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، حالانکہ انہوں نے بہت بعد میں اس نظریے کو استعمال کیا ۔ ’’ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ اور مختلف قومیں ہیں، دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے‘‘۔ اصولی طور پرسب سے پہلے اس نظریے کی اختراع کرنے والا ساورکر کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ اگرچہ ہندوتوا کی اصطلاح 1892 میں چندر ناتھ باسو نے وضع کی تھی، لیکن اسے نسلی بنیادوں پر متعارف کروانے کا کام ساورکرنےہی کیا تھا۔
اپنی کتاب ہندوتوا (ہندو ازم کے لوازم ) میں انہوں نے فیصلہ کن انداز لکھا تھا کہ صرف ہندو ہی بھارت کی سرزمین کے وفادار ہو سکتے ہیں، کیونکہ یہ ان کا آبائی وطن اور مقدس سرزمین ہے۔ انہوں نے ہندوؤں کے زیر تسلط ایک ایسے ہندو راشٹر کا تصور پیش کیا جس میں مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا تھا۔ یہ تو واضح طور پر مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں تھیں ۔ ہندوتوا کے اس ایجنڈے نے انہیں ڈرا دیا۔
تاہم دوسری طرف مسلم قوم پرستی بھی سر اٹھا رہی تھی ۔ سرسید پہلے بھی ایسے خیالات اور خدشات کا اظہار کر چکے تھے ۔ لیکن جب اکثریتی طبقے کے ایک بڑے لیڈر کی طرف سے ایسے تصورات پیش کیے جانے لگے اور ہر طرف اس کی بازگشت سنائی دینے لگی تو مسلمانوں میں احساسِ عدم تحفظ بڑھنے لگا، انہیں ہندوؤں کی غلامی کی حقیقت محسوس ہونے لگی ۔ 1940 تک احساس عدم تحفظ مسلمانوں میں جڑ پکڑ چکا تھا اور جب جناح نے پاکستان کا مطالبہ کیا تو انہیں حمایت ملنا شروع ہوگئی۔
لیکن ساورکر ایک کتاب لکھ کر خاموش نہیں رہے ۔ رتناگیری میں قیام کے دوران لگی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب انہوں نے 1937 میں ہندو مہاسبھا کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے اپنے نظریات کو اور زیادہ زور و شور سے فروغ دینا شروع کیا۔ خیال رہے کہ راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ( آر ایس ایس ) کا قیام 1925 میں ہوا تھا تب سے وہ مسلسل انہی نظریات کی تبلیغ کر رہا تھا جو ساورکر چاہتے تھے۔ ہیڈگیوار مسلم مخالفت کی بنیاد پر دو قومی نظریہ کے ذریعے سنگھ کی سرگرمیوں کو وسعت دے رہے تھے۔
عسکریت پسندی کی طرف مائل ہندو قوم پرستی :
یہی نہیں، ہندو قوم پرستوں کو مُسلح بھی کیا جارہا تھا ۔ سنگھ کی شاکھاؤں میں لاٹھی اور دوسرے ہتھیاروں کی تربیت کا پروگرام چلایا جا رہا تھا۔ ساورکر ہندوؤں کی عسکریت پسندی کے حامی تھے ۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ ہندوؤں کو جارحانہ ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی واضح تھا کہ وہ اس جارحیت کو کس کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔
معافی نامے بتاتے ہیں کہ ساورکر نے قید میں رہتے ہوئے مکمل طور پر انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے ۔اس لیے وہ ہندوستان کو ان سے آزاد کرانے کے لیے کسی لڑائی میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ اس کے برعکس جیل سے رہائی کے بعد ایک طرح سے انہوں نے انگریزوں کی مدد کرنا شروع کر دی ۔انہوں نے لاکھوں لوگوں کو نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے خلاف لڑنے کے لیے برطانوی فوج کی’’بھرتی مہم ‘‘میں شامل ہونے کی ترغیب دی ۔
دراصل، ساورکر نے ہندوستان کی تقسیم کے لیے کئی طریقوں سے کام کیا۔ ایک طرف وہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ماحول بنا رہے تھے۔ دوسری طرف وہ انگریزوں کے ایجنٹوں کی طرح کام کر رہے تھے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انگریزوں کی پالیسی’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی تھی ۔ انگریز ہندو قوم پرستی کے ساتھ ساتھ مسلم قوم پرستی کو ہوا دے رہے تھے۔ انہوں نے دونوں کے درمیان مقابلہ بھی پیدا کر دیا۔ دونوں قوم پرست برطانوی حکومت کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے اور تقسیم کے لیے میدان تیار کر رہے تھے۔
تیسرا بڑا کام جو ساورکر نے تقسیم کے لیے کیا وہ تھا ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کرنے والی قوتوں کو کمزور کرنا تھا ۔ اس لیے وہ کانگریس کے خلاف تھے، کمیونسٹوں کے خلاف تھے اور سب سے بڑھ کر گاندھی کے خلاف تھے۔ گاندھی کے تئیں ان کی مخالفت اور نفرت اس قدر تھی کہ وہ ان کے قتل کی سازش میں بھی ملوث پائے گئے۔
دس سروں والا کارٹون
ایک معروف اخبار میں شائع ہونے والا کارٹون یاد کیجیے، جس میں راون کے دس سروں میں سے ایک گاندھی کا تھا ۔ اس میں نہرو، پٹیل، مولانا آزاد، سبھاش چندر بوس کے سر بھی دکھائے گئے تھے اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان پر تیر چلانے والوں میں کون کون تھے ۔ یہ بھی واضح ہے کہ گاندھی پر تمام مہلک حملے ہندوتوا وادیوں کی طرف سے کیے گئے تھے ۔ ایک بھی حملہ نہ تو مسلمانوں کی طرف سے ہوا اور نہ ہی انگریزوں کی طرف سے۔
ہندوستانی قوم پرستوں پر ساورکر پرست ہندوتوا وادیوں کے ان حملوں نے قومی یکجہتی کے نظریے کو گہرا نقصان پہنچایا اور کمزور کردیا ۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کا کانگریس پر سے اعتماد اٹھ گیا۔ انہیں لگنے لگا کہ ملک کے آزاد ہونے کے بعد ہندوتوا انہیں سکون سے نہیں رہنے دیں گے۔ اس کے نتیجے میں مسلم لیگ جسے 1936 کے انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا، مضبوط ہوتی چلی گئی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی دہری قومیت کے نظریہ پر ایک دوسرے کا تعاون کر رہے تھے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں نے مل کر تین ریاستوں میں حکومتیں بنا لیں ۔ یہی نہیں سندھ اسمبلی نے پاکستان کے حق میں قرارداد بھی منظور کی تھی۔ یعنی دوہری قوم پرست پالیسی ہندوستان کی تقسیم پر متفق تھی اور اسے تشکیل بھی دے رہی تھی۔
گولوالکر کی قیادت میں ساورکر کی ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے نتیجے میں 1946 سے فرقہ وارانہ تشدد کا دور شروع ہوا ۔ یقیناً اس میں مسلم لیگ کا بھی کردار تھا ۔ یہ تشدد بڑے پیمانے پر پھیل گیا، جس کی وجہ سے کانگریس قیادت کے پاس تقسیم کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ خیال رہے کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی تقسیم کے منصوبے کو آگے بڑھانے پر تلے ہوئے تھے۔ اسی تشدد کے سامنے نہرو، پٹیل کو ہتھیار ڈالنا پڑا ۔ گاندھی کے یہ کہنے کے باوجود کہ تقسیم ان کی لاش پر ہوگی ، وہ تقسیم کو نہیں روک سکے، پھر یہ بھی اسی فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے ہوا جس کا اصل ذریعہ ہندوتوا اور مسلم قوم پرست طاقتیں تھیں۔ یہ الزام براہ راست اکثریتی معاشرے کو اکسانے والوں کو دینا چاہیے۔ اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس تشدد کے پیچھے کون لوگ تھے۔ لیکن یہ تو واضح ہے کہ، گاندھی جی کو مارنے والا کون تھا، جس نے اس تشدد کو روکنے کے لیے اپنی جان پر کھیلا تھا ۔ ان میں سے ایک سازشی ساورکر تھے۔ یہ واضح ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کے پیچھے ساورکر کا ایک بڑا کردار تھا، اسی کی وجہ سے گاندھی جی کا قتل ہوا، اور اس پہلو پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی۔ اسی لاپروائی نے ہی آج ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جس سے آگے نفرت اور تشدد کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
( میڈیا سوراج ہندی پورٹل سے ماخوذ، مضمون نگار ہندی کے ممتاز صحافی ہیں )
***
معافی نامے بتاتے ہیں کہ ساورکر نے قید میں رہتے ہوئے مکمل طور پر انگریزوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے ۔اس لیے وہ ہندوستان کو ان سے آزاد کرانے کے لیے کسی لڑائی میں حصہ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ اس کے برعکس جیل سے رہائی کے بعد ایک طرح سے انہوں نے انگریزوں کی مدد کرنا شروع کر دی ۔انہوں نے لاکھوں لوگوں کو نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے خلاف لڑنے کے لیے برطانوی فوج کی’’بھرتی مہم ‘‘میں شامل ہونے کی ترغیب دی ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 23 جنوری تا 29جنوری 2022