تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات ( قسط 22)

تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات ( قسط 22)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

اپنے موضوع پر محمد ادریس خاں کی ایک منفرد کتاب
محمد ادریس خاں لودی ودیارتھی سکریٹری انجمن اسلامیہ کی ایک اہم کتاب ’’ابطال الہام وید‘‘ کے عنوان سے دستیاب ہے۔ اس کی اشاعت 1927 میں امیر احمد قادری کے زیرِ اہتمام امیر الاقبال پریس بدایوں سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب کی ضخامت 120 صفحات ہے۔ کتاب میں عناوین کی فہرست نہیں ہے۔ البتہ ہندو ازم کے بہت سارے باطل نظریات کا رد خود ان کی کتابوں سے کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ جس مسئلہ کو اٹھاتے ہیں اس کو پہلے ہندومت خصوصا آریہ سماج کا نظریہ یا عقیدہ بیان کرتے ہیں پھر اس کو ہندو دھرم کے بنیادی مصادر سے سنسکرت زبان سے نقل کرتے ہیں، اس کا ترجمہ پیش کرتے نیز، یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہندو دھرم کی کس کتاب میں مذکور ہے۔ اس کے بعد اپنے دلائل پیش کرتے ہیں اور نتیجہ اخذ کر کے اس مسئلہ پر اتفاق یا اختلاف کو پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ آریہ سماجیوں کے نظریات کا رد کرتے ہیں۔ کتاب کے سر ورق پر قرآن کریم کی آیت هاتو برهانكم إن كنتم صادقين درج ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آریوں نے وید کے تعلق سے جو دعوی کیا ہے وہ باطل ہے۔ نیز اس کی ان کے پاس کوئی معتبر دلیل اور مستند ثبوت نہیں ہے۔
سبب تالیف
مصنف نے سبب تالیف نہیں بتایا ہے البتہ قیاس یہی ہے کہ یہ کتاب آریوں کے جواب میں مدون کی گئی ہے۔ آریوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ وید الہامی ہیں۔ مصنف نے کتاب کے مقدمے میں کہا ہے کہ ’’آریوں کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ وید الہامی اور مستند بالذات ہیں اور نیز اگنی، وایو، انگرہ اور مہرشی آدی شرشٹی کے موقع پر عین عالم شباب میں بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے اور ایک منٹ بھی گمراہ نہ رہے بلکہ پیدا ہوتے ہی انہوں نے جہاں مادی آنکھوں کے لئے سورج کی روشنی پائی وہاں روحانی آنکھوں کے لئے ایشوری علم کی روشنی دل میں حاصل کی یعنی ملہم ہوئے‘‘ ( صفحہ 2) یہ دعویٰ جنوری/ 1901 کو رسالہ آریہ مسافر میگزین میں کیا گیا۔ اس کے بعد مصنف نے الہام کے لئے پانچ شرائط کا ذکر کیا ہے۔
الہام کی شرائط
مصنف نے کتاب کے مقدمے میں الہام کے سات نکات بیان کئے ہیں اور چیلینج کیا ہے۔ اگر وید ان شرائط سے ہم آہنگ ہیں تو یہ تسلیم کرلیا جائے گا کہ وید الہامی ہیں اگر ان شرائط پر پورے نہیں اترتے ہیں تو پھر یہ کہنا کہ وید الہامی ہیں محض خیال ہے۔
1- الہام شروع ہی دنیا میں ہونا لازم ہے۔ 2- الہام وہ علم ہے جو ایشور کی طرف سے کسی انسان کے دل میں آوے اور جس کو اس نے کسی دوسرے انسان سے نہ پایا ہو۔ 3- الہام میں کسی خاص انسان، چیز یا جگہ کا نام یعنی کوئی قصہ کہانی و تاریخ نہ ہو۔ 4- ایشور کا اصل یا سچا کلام وہی ہوسکتا ہے جس میں کوئی بات ایشور کے قائم کئے ہوئے قوانین قدرت کے خلاف نہ ہو۔ 5- جس کتاب میں انسانی دست برد ہوسکتی ہو وہ الہام نہیں بلکہ انسانی خیالات کا مجموعہ ہوگی۔ 6- جس کتاب میں ایک مضمون بلا مطلب دوبارہ آئے وہ کتاب الہام تو کیا تاریخ کی صحیح کتاب بھی نہیں ہو سکتی۔ 7- الہام وہ ہے جس میں لغو اور بے ہودہ کلام نہ ہو۔ ( ایضاً صفحہ 3)
فاضل مصنف نے انہی شرائط کے تحت کتاب کو رقم کیا۔ ہر شرط بیان کرنے کے بعد اس کی تفصیل بیان کر کے بتایا کہ وید اور ان کی تعلیمات خود اس بات کی شاہد ہیں کہ وہ الہامی نہیں ہیں۔
ویدوں کے منتر اور ہندو اہل علم کی آراء
الہام کے لے پانچویں شرط مصنف نے یہ بتائی ہے کہ الہام وہ ہے جو انسانوں کے بے جا تصرف سے محفوظ ہو۔
اس اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر ہم ویدوں کے منتروں اور شلوکوں کی تعداد کے متعلق علماء ہنود کی آراء کا مطالعہ کرتے ہیں تو باہم کافی تضاد و اختلاف سامنے آتا ہے۔ رگ وید کے منتروں کی تعداد میں درج ذیل آراء پائی جاتی ہیں۔ 1- شونک آچاریہ نے رگ وید کے منتروں کی تعداد عام گنتی کے مطابق 10000 بتائی ہے۔ اور گایتری چھند وغیرہ کے مطابق 10402 ہے۔ سائن اچاریہ جی کے مطابق 10000 سے کچھ زائد ہے۔ سوامی دیانند سرسوتی نے رگ وید بھاشیہ میں منتروں کی تعدا د10589 لکھی ہے۔ علاوہ ازیں پراپکارنی سبھانے جو ویدک پریس اجمیر میں رگ وید سنگھتتا چھپوائی ہے اس کے مطابق 11001 ہے۔ پنڈت لیکھ رام نے اپنی کتاب تاریخ دنیا حصہ دوم میں باعتبار عام تقسیم منتروں کی تعداد 10518 لکھی ہے اور باعتبار چھند 10524 ہے۔ پنڈت شوشنکر نے ویدک اتہاس نرنے کے دیباچہ میں 10402 لکھی ہے۔ پنڈت جگناتھ کے مطابق 10452 ہے۔ ٹیکاکار مہنداس نے 10472 لکھی ہے۔ ستیہ برت شام شرمی نے ,10442 ثابت کی ہے۔ سناتنی پنڈت دیانند ستیارتھ ویدک میں 15381 بتائی ہے۔ پروفیسر بالکرشن ایم اے نے اپنی کتاب ہندی تواریخ میں 10518 تحریر کی ہے۔ (ایضاً صفحہ 90-91) اس کے علاوہ مصنف نے اس اختلاف تعداد کے ثبوت میں لالہ خوشی رام جی قدیم کارکن آریہ سماج سابق گورنر گوروگل
کانگریس
کے ایک خط کی نقل پیش کی ہے۔ واضح رہے یہ خط 1911 میں وید رسالہ اندر لاہور میں نشر ہوا تھا۔ ( ایضا ملاحظہ کیجئے صفحہ 97)
اتھر وید
اسی طرح اتھر وید کے منتروں کی تعداد کے متعلق بھی کافی باہم متغائر آراء پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ ویدک پریس اجمیر کے مطبوعہ اتھر وید میں منتروں کی تعداد 5977 ہے۔ سیوک لال کے شائع کردہ مجموعہ کے مطابق 5937 ہے۔ پنڈت ولیکر جی کا نظریہ کہ اتھر وید کے اصل منتر 700 ہیں بقیہ سب منتر رگ وید وغیرہ سے ملائے گئے ہیں۔ پنڈت لیکھرام نے اپنی کتاب تاریخ دنیا جلد دوم میں منتروں کی تعداد 5847 ، لکھی ہے۔ ( ایضاً صفحہ 91)
یجر وید
ہندو دینیات کی ایک کتاب یجو کلپترو کے مطابق یجروید کے منتروں کی تعداد 1975 ہے۔ سوامی دیانند سرسوتی نے بھی اسی تعداد پر اتفاق کیا ہے۔ پنڈت سست ولیکر کے مطابق 1400 ہے۔ پنڈت شوشنکر کاویہ تیرتھ اپنی کتاب ویدک اتھاس کے دیباچہ میں منتروں کی تعداد 1974 بتاتے ہیں۔ یہ بھی تحریر کرتے ہیں کہ اگر اس میں سے رگ وید کے منتر نکال لیے جائیں تو تعداد صرف 927 بچتی ہے۔ ویدک منی جی کے مطابق یہ تعداد 1000 ہے۔ پنڈت لیکھرام نے اپنی کتاب تاریخ دنیا میں اس کی تعداد 1975 درج کی ہے۔(ایضاً صفحہ 92)
سام وید
پنڈت تلسی رام سوامی نے سام وید بھاشیہ میں منتروں کی تعداد 1873 لکھی ہے۔ ویدک پریس اجمیر کے مطبوعہ نسخے میں 1824 ہے۔ مانو کرمنی کے مطابق یہ تعداد 1893 ہے۔ جیوانند نے یہ تعداد 1808 لکھی ہے۔ پنڈت شیو شنکر نے اپنی کتاب ویدک اتہاس کے دیباچہ میں 1549 لکھ کر کہا ہے کہ ان میں سے 78 کے علاوہ سب رگ وید کے منتر ہیں۔ پنڈت سست ولیکر جی نے صرف 70 لکھی ہے۔ ویدک منی جی کے شائع کردہ سام وید میں تعداد 70 ہے تتمہ ملاکر 75 ہو جاتی ہے۔ پنڈت لیکھرام نے اپنی کتاب میں منتروں کی تعداد1064 لکھی ہے۔ ( ایضاً صفحہ 92-93)
درج بالا شواہد کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تعداد خود علماء ہنود نے بتائی ہے اس لئے ویدوں کے الہامی ہونے کو مشکوک ٹھہراتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وید الہامی ہوتے تو یقیناً جو خرد برد ان کے منتروں کی تعداد میں نظر آ تی ہے وہ نہ آ تی۔ اس کے برعکس اگر ہم قرآن کی آیات کی تعداد کی بات کریں تو تمام اسلامی اسکالر اور جمہور علماء کا متفقہ فیصلہ 6666 ہیں۔ پتہ یہ چلا کسی بھی الہامی کلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی خرد برد سے محفوظ رہے۔ اگر اس میں انسانی خرد برد کے نقوش و اشارات پائے جاتے ہیں تو پھر یہ کہا جاسکتا ہےکہ وہ الہامی کلام نہیں ہو سکتا۔
کتاب کی اہمیت
اس کتاب کے مطالعہ سے کئی اہم باتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس کتاب کی رو سے یہ دعویٰ خارج ہوتا ہے کہ وید الہامی ہیں۔ دوسری بات یہ ہیکہ کتاب کے مندرجات و مشمولات سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے جن مباحث کو اٹھایا ہے اب تک دیگر مصنفین نے ان مباحث پر اس نوعیت سے کلام نہیں کیا تھا۔ اسی طرح آج کے دور میں اسلام کی حقانیت و صداقت کو واضح کرنے کے لئے اس طرح کی معلومات رکھنا ہر اہل علم و فن کی ذمہ داری ہے۔ آج کے دور میں مذاہب و ادیان کا مطالعہ اور اس سلسلے کو آگے بڑھانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے باہمی اعتبار میں اضافہ ہوگا۔ درج بالا نکات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نوع انسانیت کی بقا اور اس کی رہنمائی کا موثر اور مثبت نظام صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی نظام و قوانین پائے جاتے ہیں ان میں اتنی وسعت اور گہرائی نہیں ہیں کہ وہ روشن و صالح خطوط پر انسانوں کی رہنمائی کر سکیں۔ رہا ہندو دھرم کا مسئلہ تو اس کے متعلق خود علماء ہنود کسی متحدہ نتیجہ تک نہیں پہنچ پائے ہیں۔ لہذا اس کے مصادر اربعہ کو الہامی کہنا مناسب نہیں ہے۔[email protected]

اگر وید الہامی ہوتے تو یقیناً جو خرد برد ان کے منتروں کی تعداد میں نظر آ تی ہے وہ نہ آ تی۔ اس کے برعکس اگر ہم قرآن کی آیات کی تعداد کی بات کریں تو تمام اسلامی اسکالر اور جمہور علماء کا متفقہ فیصلہ 6666 ہیں۔ پتہ یہ چلا کسی بھی الہامی کلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی خرد برد سے محفوظ رہے۔ اگر اس میں انسانی خرد برد کے نقوش و اشارات پائے جاتے ہیں تو پھر یہ کہا جاسکتا ہےکہ وہ الہامی کلام نہیں ہو سکتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021