ترکی ،لیبیا اور شام میں کیا چاہتا ہے؟

طیب اردگان کا افراتفری کے شکار ملک میں بادشاہ گر کا کردار!

ڈاکٹر عمیر انس

مغربی ممالک کے نمایاں اخبارات کی سرخیاں لیبیا اور شام میں ترکی کی پالیسیز کو کامیاب قرار دے رہی ہیں، نیو یارک ٹائمز نے ۲۱ مئی کو لکھا ’’حیرت انگیز اُلٹ پھیر میں ترکی لیبیا میں بادشاہ گر (کنگ میکر) کے کردار میں‘‘۔ لیبیا بھی بہار عرب کے ان بدقسمت ممالک میں سے ہے جہاں تقریباً پر امن تبدیلی ہو چکی تھی اور انتخابات ہو گئے تھے لیکن ۲۰۱۴ میں جس طرح یمن میں پرامن تبدیلی کو ایران نواز انصار اللہ نے ہائی جیک کیا اسی طرح امریکہ میں برسوں سے پال پوس کر رکھے گئے معمر قذافی کے ایک غدار فوجی آفیسر کرنل خلیفہ حفتر کو مغربی ممالک نے ہائی جیک کر کے لیبیا روانہ کیا۔ اس مشن میں سعودی اور اماراتی سرمایہ لگایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر مشرق وسطیٰ میں جمہوریت سے مغربی ممالک اس قدر خوف زدہ کیوں ہیں؟ دیکھتے ہی دیکھتے لیبیا کا مشرقی حصہ حفتر کے قبضے میں آگیا، مغربی حصہ جو پہلے سے منتخب شدہ وزیراعظم فائض السراج کے پاس رہا اور ایک منطقہ آزاد مسلح گروپ کے کنٹرول میں چلا گیا۔ دونوں گروپس میں مصالحت کی کوشش اس لیے ناکام ہو گئی کیونکہ سعودی، اماراتی اور مصری اسلحے، لڑاکو جہاز حفتر کی حمایت میں شامل ہو گئے۔ چونکہ فائض السراج کی حکومت اقوام متحدہ سے بھی منظور شدہ ہے اس لیے اس کے خلاف راست کارروائی کے بجائے آہستہ آہستہ اس کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا۔
عین ایسے موقع پر جب کہ مرکزی حکومت گرنے ہی والی تھی لیبیا اور ترکی کے درمیان ایک اہم معاہدہ طے پا گیا جس کے رو سے ترکی اور لیبیا کے درمیان فوجی تعاون ہوگا اور دونوں کی بحری حدود کی از سر نو حد بندی کی جائے گی۔ اس معاہدے نے پورے یورپ میں خاص طور پر فرانس، اٹلی اور یونان میں کہرام مچا دیا، کیونکہ اس معاہدے نے لیبیا میں مذکورہ ممالک کے کسی بھی کردار کو ختم کر دیا اور مستقبل میں اسرائیل اور یورپ کے درمیان گیس پائپ لائن کی گزرگاہ کو ترکی اور لیبیا سے اجازت لینے پر مجبور کر دیا۔ یونان جزیرہ قبرص کو اپنا کا حصہ بنانے کی کئی بار کوششیں کر چکا ہے، لیکن چونکہ برطانیہ کے انخلا کے وقت ہوئے معاہدے کے مطابق ترکی اور برطانیہ جزیرہ قبرص میں امن اور استحکام کے ضمانت دار ہیں اس لیے یونان اپنے منصوبوں کو رو بہ عمل لانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ۱۹۷۴ میں ترکی کی بر وقت فوجی کارروائی نے قبرص کے شمالی ترک اکثریتی علاقے کو یونان کے قبضے سے بچا لیا تھا اور اب اقوام متحدہ کے تحت جاری مذاکرات کے مطابق باقاعدہ حل کے منتظر ہیں، دراصل عثمانی سلطنت کے زوال کی ایک بنیادی وجہ اپنی بحری حدود کی عدم حفاظت اور بے توجہی تھی۔ ترکی کی موجود حکومت نے بلیو نیشن کی حکمت عملی کے تحت بحر متوسط میں اپنی موجودگی کو یورپی انحصار سے نکال کر خود منحصر ہونے کا آغاز کر دیا ہے۔ بحر متوسط میں ترکی کو گیس کے وسائل کی تلاش سے روکا جا رہا تھا لیکن ترکی نے وہاں اپنے فوجی اور تلاش کرنے والے بحری جہاز تعینات کر دیے ہیں۔ یونان، اٹلی اور فرانس کے ترکی مخالف رخ کو سعودی عرب، امارات، مراقش اور اسرائیل سے راست حمایت دی گئی لیکن ترکی اور لیبیا معاہدے کے بعد ان ممالک کے سارے منصوبے ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اور اب بحر متوسط سے ترکی کو بے دخل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے وہ یہ کہ ترکی اور لیبیا معاہدے کو منسوخ کرنے والا کوئی نیا حکم راں لیبیا میں مسلط کر دیا جائے۔ چنانچہ جنرل حفتر اس کام کے لیے خود کو پیش کر چکے ہیں۔ لیکن جنرل حفتر اور ان کے حمایتی ممالک کی سرگرمیوں سے الجزائر اور تیونس کی حکومتیں قطعاً خوش نہیں تھیں، لہٰذا پہلے ترکی نے ان دونوں ممالک کا اعتماد حاصل کیا اور انہیں مطمئن کرایا کہ حفتر پورے شمالی افریقہ کے امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہے۔ ترکی نے سوڈان کو بھی اعتماد میں لیا تھا لیکن وہاں فوجی انقلاب کے ذریعے عمر حسن البشیر کو ہٹا کر ایک اماراتی نواز فوجی افسر کو صدر بنا دیا گیا۔ ترکی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ بیس سالوں میں ترکی عرب تجارت بہت بڑھ گئی تھی لیکن عرب بہار کے بعد پیدا ہونے والے عدم استحکام نے ترکی کے تجارتی تعلقات کو متاثر کر دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کئی یورپی ممالک عرب حکومتوں کو ترکی کے خلاف پھر سے اسی طرح لڑانے کی کوششیں کر رہے ہیں جیسی ۱۹۰۰ کے درمیان کی گئی تھیں۔ ترکی کے سامنے متبادل یہ ہیں کہ وہ یورپین ممالک کے ذریعے سجائے گئے گیم کو جوں کا توں قبول کر لے یا پھر اپنی اور خطہ کی سلامتی کے لیے خود اپنی حکمت عملی کو پیش کرے۔ ماضی کی ترک حکومتوں نے پہلی حکمت عملی اختیار کر رکھی تھی۔ اس وقت ترکی کا معاشی سائز بھی بہت چھوٹا اور یورپ پر منحصر تھا لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب ترکی کی فوجی مشاورت سے ترکی کے سپلائی کیے گئے ڈرون سے کم سے کم نقصانات، بڑے فوجی نشانے اور متاثر کرنے والی حکمت عملی لیبیا کے حکم رانوں نے اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف دو مہینوں میں جنرل حفتر کو مغربی لیبیا کے تقریباً سارے علاقے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا، اب حفتر کے حمایتی مغربی اور خلیجی ممالک کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ اُدھر ترکی نے طرابلس حکومت کے حق میں کامیاب سفارت کاری کرتے ہوئے روس اور امریکہ کو حفتر کی حمایت سے باز رکھنے کی کوشش میں کامیابی حاصل کی ہے۔ لیبیا اس وقت عثمانی سلطنت کا حصہ تھا جب اٹلی نے لیبیا پر قبضہ کر لیا تھا۔ جنگ طرابلس میں فاطمہ بنت عبدللہ کا جذباتی تذکرہ علامہ اقبال نے بھی کیا ہے۔ عثمانی افواج کئی محاذوں پر شکست کھا چکی تھیں، برطانیہ نواز بعض خلیجی قبائل کی وجہ سے عثمانی مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر ونفوذ کھو چکے تھے۔ رہی سہی کسر لوزان معاہدے نے پوری کر دی تھی جس کے بموجب عثمانی سلطنت کے تمام علاقوں سے ترکی کی حکومت کو الگ کر دیا گیا تھا، اٹلی کی افواج کے خلاف بہادری سے لڑنے کے لیے خود مصطفیٰ کمال پاشا گئے تھے۔ اہلِ لیبیا ترکوں سے بڑا گہرا تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح الجزائر اور تیونس سے بھی ترکی کے ہمیشہ پر اعتماد تعلقات رہے ہیں۔ اُمید کی جارہی ہے سو سال سے مشرق وسطیٰ کی سلامتی سے باہر رکھا گیا ترکی اب اپنی دفاعی، سفارتی اور تجارتی قوت سے خطہ کو مستحکم کرنے میں کلیدی رول ادا کرے گا۔ ترکی کا پیغام صاف ہے کہ مشرق وسطیٰ کی سیاست سے ترکی کو بے دخل رکھنے کی مغربی سیاست کا دور اب ختم ہو چکا ہے۔


 

ترکی کی فوجی مشاورت سے ترکی کے سپلائی کیے گئے ڈرون سے کم سے کم نقصانات، بڑے فوجی نشانے اور متاثر کرنے والی حکمت عملی لیبیا کے حکم رانوں نے اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف دو مہینوں میں جنرل حفتر کو مغربی لیبیا کے تقریباً سارے علاقے چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا، اب حفتر کے حمایتی مغربی اور خلیجی ممالک کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔