تبلیغی جماعت کے متعلق نیوز چینلوں کی ہرزہ سرائی

بنگلورو کے سی اے ایچ ایس کی شکایت پر اسلاموفوبیا میں ملوث تین نیوز چینلوں پر لگا جرمانہ

(دعوت نیوز ڈیسک)

 

نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی (این بی ایس اے) نے انگلش نیوز چینل اور دو کنڑا نیوز چینلوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے تبلیغی جماعت کو مورد الزام ٹھیرانے کی خبر نشر کرنے کی پاداش میں جرمانہ عائد کیا ہے۔ نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے جس نے بنگلورو کی ایک این جی او Campaign Against Hate Speech
(سی اے ایچ ایس ) کی شکایت پر ان نیوز چینلوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ میڈیا کی جواب دہی طے کرنے کے لیے قائم کیے گئے نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی پر دباؤ بنانے کے مقصد سے سی اے ایچ ایس میں شامل جہدکاروں، ماہرین تعلیم اور وکلا نے شکایت کی تھی کہ اپریل 2020 کو ان چیلنوں میں مسلم کمیونٹی اور بالخصوص تبلیغی جماعت کے متعلق اول جلول باتیں نشر کی تھیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔ Campaign Against Hate Speech (سی اے ایچ ایس) سے وابستہ محمد تنویر نے ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ ملک میں اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کی کوشش کے طور پر میڈیا میں ہو رہی زہر افشانی کا نوٹس لینے کی نیت سے انہوں نے نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی میں شکایت کی تھی کورونا کی پہلی لہر کے دوران بعض میڈیا حلقوں نے کس طرح مسلمانوں اور بالخصوص تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا، ٹائمس ناو اور دیگر چینلوں میں موجود اینکروں اور ان کے ساتھ ڈیبیٹ میں موجود پینلسٹوں نے تبلیغی جماعت اور مسلمانوں پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا تھا۔ شکایت میں بتایا گیا تھا کہ ٹائمس ناو میں سواتی بھٹ نامی ایک پینلسٹ نے ڈیبیٹ کے دوران بہت سارے غیر ضروری دعوے اور الزامات لگائے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ایسی خبریں آرہی ہیں کہ تبلیغی جماعت والے سماجی فاصلوں کا لحاظ نہیں کرتے اور فرنٹ ورکرس کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے پورے ملک میں نافذ لاک ڈاون کی دھجیاں اڑائیں اور کرورنا کے ٹیسٹ کرانے میں بھی تعاون نہیں کیا جس کی وجہ سے سینکڑوں لوگ کورونا سے متاثر ہوئے‘ ۔
پینل میں شریک بی جے پی کے نریندر تنیجا نے الزام لگایا تھا کہ ڈیبیٹ میں موجود ایک مسلم پینلسٹ نے بحث کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی تھی۔ اسی ڈبیٹ میں گیتا بھٹ نے مسلمانوں پر مسجدوں سے نکل کر راستوں پر تھوکنے کا بھی الزام لگایا تھا، حالانکہ ٹائمز ناو نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پروگرام یکطرفہ نہیں تھا اور انہوں نے اپنی خبر میں مسلمانوں کا نام نہیں لیا تھا البتہ تبلیغی جماعت کے بارے میں ضرور سوال اٹھایا تھا۔ اس وضاحت کے بعد ٹائمز ناؤ پر جرمانہ تو نہیں لگا مگر نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی نے اس کے اس رویہ پر سرزنش کی۔
ٹی وی نشریات سے متعلق شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے کارکرد نجی ادارہ نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی (NBSA) نے 16جون 2021 کو ایک حکم نامہ جاری کیا۔ جس میں نیوز چینل کے ذریعے کسی بھی نوعیت کی فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے والے پروگرام نشر کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ Campaign Against Hate Speech (سی اے ایچ ایس) نے نیوز 18 کنڑا کے خلاف دو پروگرامس نشر کرنے پر شکایت کی جن کا عنوان تھا کہ ’’کیا آپ جانتے ہیں دہلی کا نظام الدین مرکز جس نے کورونا وائرس کو قوم میں پھیلایا ہے؟’’ کرناٹک سے دہلی کی جماعت میں کتنے لوگ گئے ہیں؟‘‘ یہ دونوں پروگرام یکم اپریل 2020 کو ٹیلی کاسٹ ہوئے تھے۔ پروگرام میں اینکر نے زہر افشانی کرتے ہوئے بغیر کسی تصدیق کے ایک جگہ جمع شدہ مسلمانوں کو کی تصاویر کو دکھاتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ’’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کے لوگ سوشل ڈسٹنسنگ کا لحاظ نہیں کر رہے ہیں۔ نیوز 18 کنڑا کے دوسرے شو میں اینکر نے تبلیغی جماعت کے مرکز کو چین کے ووہان سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہندوستان میں وائرس کے پھیلاؤ کا مرکز ہے۔ شکایت میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ براڈکاسٹ کے دوران چینل پر چلائے گئے ٹکر پر بھی تبلیغی جماعت پر اسی قسم کے اعتراضات کیے گئے تھے۔ شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ یہ بیانات در حقیقت غلط تھے کیونکہ تبلیغی جماعت کا پروگرام 24 مارچ 2020 کو لاک ڈاؤ ن کے آفیشل اعلان سے پہلے ہی ختم ہو گیا تھا۔ شکایت میں یہ بھی کہا گیا ہے کسی برادری کو بیماری پھیلانے کے لیے ذمہ دار قرار دینا فرقہ وارانہ عدم استحکام پیدا کرنے کے مماثل ہے۔ اسی طرح نیوز چینل نے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی بھی کوشش کی تھی۔
نیوز 18 کنڑا نے یکم مئی 2020 کو جمع کرائے گئے اپنے تحریری جواب میں تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے ناظرین کو COVID-19 کے پھیلاؤ اور حکومت کے ذریعہ اٹھائے گئے مختلف اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ نیوز 18 نے اپنی صفائی دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے کرناٹک کے وزیر داخلہ بسواراج بومائی کا بیان نشر کیا جس میں وزیر داخلہ نے نئی دہلی میں تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شرکت کرنے والوں کو حکومت کرناٹک کے ذریعہ کیے جانے والے کورونا ٹیسٹ کے لیے رضاکارانہ طور پر آگے آنے کی درخواست کی تھی۔
نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھاریٹی (NBSA) نے تمام فریقین کے دلائل اور وضاحتی بیانات سننے کے بعد کہا کہ "نشریاتی ادارے نے مذکورہ چینلوں کو خبروں کی ترسیل میں مقصدیت اور غیر جانبداری کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی اور ساتھ ہی رپورٹنگ میں محتاط رہنے میں لاپروائی کا مجرم پایا ہے۔ اسی طرح NBSA کی نسلی اور مذہبی ہم آہنگی سے متعلق گائیڈ لائن نمبر 9 کی بھی خلاف ورزی کا قصور وار قرا دیتے ہوئے ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔
اسی طرح اگر کنڑا کے ’سورنا نیوز‘ (Suvarna News) چینل کی بات کی جائے تو اس نے بغیر کسی دلیل کے ایسے کئی پروگرام چلائے تھے جن میں تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ 2؍اپریل 2020 کو سورنا نیوز پر نشر ہوئے ایک پروگرام میں چینل نے ایک مسلم نوجوان مسلمان کو کرنسی نوٹ سے ناک صاف کرتے ہوئے دکھا کر کہا تھا کہ "کورونا کے مجرموں کو بے نقاب کر دیا گیا ہے یہ لوگ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ہیں” پروگرام میں اینکر نے مسلمانوں کو’’شیطان‘‘ قرار دیا تھا۔ Campaign Against Hate Speech (سی اے ایچ ایس) کا ماننا تھا کہ نیوز چینلوں کے پروگرام میں پروگراموں میں غیر جانبداری، مقصدیت کا فقدان اور متعصبانہ رویہ غالب تھا۔ ایک پروگرام میں اینکر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا کہ صرف مساجد ہی کھلی ہیں جبکہ مندر بند ہیں اور تمام مساجد کو بند کردیا جانا چاہیے۔
22 ستمبر 2020 کو سماعت کے دوران سی اے ایچ ایس نے کہا کہ سورنا نیوز کے پاس اس بات کا ثبوت نہیں تھا کہ کرناٹک کے ضلع بیدر میں قید تبلیغی جماعت کے کارکنوں نے پرتعیش چیزیں طلب کی تھیں۔ (NBSA) نے ان پروگراموں کے سلسلے میں واضح طور پر کہا کہ ان کے پروگراموں سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کا سارا الزام جماعت پر ڈالا گیا ہے۔ این بی ایس اے نے پایا کہ نیوز میں جو زبان استعمال کی گئی تھی اس میں انتہائی قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے گئے جو فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دے سکتے تھے۔ این بی ایس اے نے ’سورنا نیوز ‘پر 50 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنے کو بھی کہا۔ سورنا نیوز سے کہا گیا ہے کہ وہ یوٹیوب سمیت تمام پلیٹ فارمز سے ان چھ پروگراموں کے لنکس کو ہٹا دے۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں سی اے ایچ ایس کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ اس کام کے لیے سرکاری اقلیتی اداروں بھی کو آگے آنا چاہیے اور اپنا احتجاج درج کرنا چاہیے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ آئندہ بھی اگر نیوز چینلس اس قسم کی فرقہ واریت کو بڑھاوا دیں گے تو اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑے چینلوں پر ایک لاکھ یا 50 ہزار روپوں کا جرمانہ کوئی بڑا جرمانہ نہیں لیکن ان کے خلاف براڈ کاسٹنگ اسٹینڈر اتھاریٹی کا یہ قدم ایک ریمارک ہے، اس لیے اس کی اہمیت ہے۔ سی اے ایچ ایس کے اس اقدام سے معلوم ہوا کہ نیوز چینلوں کو ان کے آزادانہ اظہار رائے کے لیے بالکل جواب دہ بنایا جاسکتا ہے اور چینلوں کے یہ بے لگام اینکرس کو قانون کے دائرے میں رکھ کر پابند کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے عوام خود کو بے بس اور کمزور نہ سمجھیں، وہ مستقل مزاجی کے ساتھ پر امن وآئینی راستوں پر چل کر اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں کا مداوا کریں۔ مذکورہ چینلوں کی سرزنش کے واقعہ کا یہی سبق ہے کہ دیر سویر شر پسندوں کو لگام لگانا عوامی بیداری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
***

سی اے ایچ ایس کے اس اقدام سے معلوم ہوا کہ نیوز چینلوں کو ان کے آزادانہ اظہار رائے کے لیے بالکل جواب دہ بنایا جاسکتا ہے اور چینلوں کے یہ بے لگام اینکرس کو قانون کے دائرے میں رکھ کر پابند کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے عوام خود کو بے بس اور کمزور نہ سمجھیں، وہ مستقل مزاجی کے ساتھ پر امن وآئینی راستوں پر چل کر اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں کا مداوا کریں۔ مذکورہ چینلوں کی سرزنش کے واقعہ کا یہی سبق ہے کہ دیر سویر شر پسندوں کو لگام لگانا عوامی بیداری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 جون تا 3 جولائی 2021